سوال:
"جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اس کی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے”
کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ ، فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ
یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ اس بارے میں ایک منسوب روایت ہے:
“من نام بعد العصر فاختلس عقله فلا يلومن إلا نفسه”
"جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اس کی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔”
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو
[الضعیفة: 39]
میں ذکر کر کے اس کی مختلف اسناد پر گفتگو کی ہے اور اس کے ضعف کو واضح کیا ہے۔
امام لیث بن سعد کا دلچسپ جواب
اس روایت کے بارے میں امام لیث بن سعد رحمہ اللہ کا ایک واقعہ بھی مشہور ہے۔
کسی نے ان سے کہا:
"امام صاحب! آپ عصر کے بعد سوتے ہیں، حالانکہ اس بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
"لا أدع ما ينفعني بحديث ابن لهيعة عن عقيل!”
"جو چیز مجھے فائدہ دیتی ہے، میں اسے ابن لہیعہ کی روایت کی بنیاد پر نہیں چھوڑ سکتا!”
شیخ البانی رحمہ اللہ اس تبصرے پر فرماتے ہیں:
"ولقد أعجبني جواب الليث هذا، فإنه يدل على فقه وعلم، ولا عجب، فهو من أئمة المسلمين، والفقهاء المعروفين.”
"مجھے امام لیث کا یہ جواب بہت پسند آیا، کیونکہ یہ فقہ اور علم کی علامت ہے، اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ وہ مسلمانوں کے بڑے ائمہ اور معروف فقہاء میں سے ہیں۔”
بدری صحابی حضرت خوَّات بن جُبَیر رضی اللہ عنہ کا قول
عصر کے بعد سونے کے متعلق ایک قول صحابی خوَّات بن جُبَیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جسے شیخ البانی رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم نے صحیح الاسناد قرار دیا ہے:
“نومُ أوَّلِ النَّهارِ خَرقٌ، وأوسطُهُ خلقٌ، وآخرُهُ حُمقٌ”
"دن کے پہلے حصے میں سونا نقصان دہ ہے، درمیانی حصے میں سونا مناسب ہے، اور دن کے آخری حصے میں سونا بے وقوفی ہے۔”
[مصنف ابن أبي شيبة: 26677، صحيح الأدب المفرد: 1242]
نتیجہ:
◈ نبی کریم ﷺ سے عصر کے بعد سونے کی ممانعت پر کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں۔
◈ صحابی خوَّات بن جُبَیر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق دن کے آخری حصے میں سونا نامناسب ہے۔
◈ اگر عصر کے بعد نیند کی ضرورت محسوس ہو تو سونا جائز ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ دن میں آرام کے لیے قیلولہ (دوپہر کے وقت) کیا جائے۔
واللہ اعلم