عصبہ کی تعریف اور اقسام | اسلامی وراثت کے اصول
یہ اقتباس مولانا ابو نعمان بشیر احمد کی کتاب اسلامی قانون وراثت سے ماخوذ ہے۔

سوال:

عصبہ کی تعریف اور اس کی اقسام ضاحت سے لکھیں۔

جواب:

عصبہ کی تعریف: عصبہ کے لغوی معنی مضبوط کرنے اور جوڑنے کے ہیں۔
اصطلاحی معنی: میت کے وہ قریبی رشتہ دار جن کے حصے متعین نہیں ہیں بلکہ اصحاب الفرائض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں۔ اور ان کی عدم موجودگی میں تمام ترکہ کے وارث بنتے ہیں۔
عصبہ کی اقسام: اس کی دو بڑی قسمیں ہیں:
● عصبہ نسبی
● عصبہ سببی
عصبہ نسبی: جو خونی رشتہ کی وجہ سے عصبہ بنتے ہیں۔ ان کی مندرجہ ذیل تین قسمیں ہیں:
(الف) عصبہ بالنفس: میت کے وہ مذکر رشتہ دار کہ ان کی نسبت میت کی طرف کی جائے تو درمیان میں کسی مونث کا واسطہ نہ آئے۔ اس کی بالترتیب چار جہات ہیں:
● بیٹے کی جہت: یعنی میت کا بیٹا، اس کی عدم موجودگی میں پوتا، پھر پڑپوتا. الخ۔
● باپ کی جہت: یعنی میت کا باپ، اس کی عدم موجودگی میں دادا، پھر پڑدادا. الخ۔
● بھائی کی جہت: یعنی میت کا بھائی، اس کی عدم موجودگی میں بھتیجا. الخ۔
● چچا کی جہت: یعنی میت کا چچا، اس کی عدم موجودگی میں چچا کا بیٹا. الخ۔
(ب) عصبہ بالغیر: ہر وہ مونث جو صاحب فرض ہو اور اپنے بھائی کے ساتھ مل کر عصبہ بنے۔ اور یہ چار فرد ہیں:
● بیٹی
● پوتی یا پڑپوتی
● حقیقی بہن
● پدری بہن
ان میں ترکہ ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
(ج) عصبہ مع الغیر: ہر وہ مونث جو کسی دوسری مونث کی وجہ سے عصبہ بنے، اس میں صرف حقیقی بہن اور پدری بہن آتی ہے جب وہ بیٹی یا پوتی کے ساتھ مل کر آئے۔
عصبہ سببی: آزاد کردہ غلام فوت ہو جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا مالک اس کا وارث بنے گا۔ اسے عصبہ سببی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إنما الولاء لمن أعتق
”ولاء آزاد کرنے والے کے لیے ہے۔“
(صحيح البخاري، البيوع، باب الشراء والبيع مع النساء، ح 2156، وصحيح مسلم، العتق، باب بيان إن الولاء لمن أعتق، ح 1504)
ملاحظہ:
① عصبات میں سے عصبہ بالنفس کی پہلی قسم (بیٹے کی جہت) وراثت میں سب سے مقدم ہوتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو دوسری، پھر تیسری اور پھر چوتھی کا اعتبار کیا جائے گا۔
② وراثت میں اس عصبہ کو مقدم کیا جائے گا جو درجہ میں میت کے زیادہ قریب ہو گا۔ مثلاً بیٹا پوتے سے زیادہ حق دار ہو گا۔
③ قوی قرابت والا ضعیف سے مقدم ہو گا۔ مثلاً حقیقی بھائی، پدری بھائی سے مقدم ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن أعيان بني الأم يتوارثون دون بني العلات
”یقینا حقیقی بہن بھائی وارث ہوں گے پدری بھائیوں کے علاوہ۔“
( مسند أحمد: ج 1 ص 79، وجامع الترمذي، الفرائض، باب ما جاء في ميراث الإخوة من الأب والأم، ح 2095)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے