عرفات میں خضر علیہ السلام کا تشریف لانا؟
سوال
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر سال خشکی اور تری والے (اشخاص) مکہ میں آکر جمع ہوتے ہیں۔ تری اور خشکی والوں سے مراد الیاس علیہ السلام اور خضر علیہ السلام ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا سر مونڈتے ہیں۔‘‘
(غنیۃ الطالبین ص 406)
کیا یہ روایت صحیح ہے؟
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس روایت کی جو سند نقل کی گئی ہے، وہ درج ذیل ہے:
’’اخبرنا ناهبة الله ابن المبارک، قال: انبانا الحسن بن احمد بن عبدالله المقری، قال: اخبرنا الحسین بن عمران المؤذن، قال: حدثنا ابوالقاسم الفامی، قال: حدثنا ابو علی الحسن بن علی، قال: حدثنا احمد بن عمار: انبانا محمد بن مہدی، قال: حدثنی ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس رضی الله عنهما‘‘(الغنیۃ الطالبی طریق الحق، عربی ج 2 ص 39، غنیۃ الطالبین عربی اردو ج 2 ص 446، 447)
روایت کی حیثیت: موضوع (من گھڑت)
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے، اور اس کے پہلے راوی ھبۃ اللہ بن المبارک السقطی کے بارے میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں:
◈ محدث محمد بن ناصر رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ثقہ ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
’’لاوالله، حدث بواسط عن شیوخ لم یرهم فظهر کذبه عندهم‘‘
نہیں! اللہ کی قسم (وہ ثقہ نہیں)، اس نے واسط میں ایسے شیوخ سے حدیثیں بیان کیں جنھیں اس نے نہیں دیکھا تھا، تو اس کا جھوٹ وہاں کے لوگوں پر ظاہر ہوگیا۔
(المنتظم لابن الجوزی 17؍144)
◈ محدث السمعانی نے کہا:
’’ولم یکن موثوقا به فیما ینقله‘‘
اور وہ اپنی (بیان کردہ) نقل میں قابل اعتماد نہیں تھا۔
(الانساب ج 3 ص 264)
◈ شجاع الذہلی نے اس کو سخت ضعیف قرار دیا۔
◈ ابن النجار نے اس کو "متھافت۔۔۔ضعیف” یعنی ٹوٹا گرا ہوا اور ضعیف کہا۔
(المستفاد من ذیل تاریخ بغداد 19؍250)
◈ محمد بن ناصر اسے اس کے لقب "سقطی” کی مانند ساقط سمجھتے تھے اور فرمایا:
’’السقطی لاشی، هو مثل نسبه من سقط المتاع‘‘
سقطی کچھ چیز نہیں ہے۔ وہ اپنے نسب کی طرح گمشدہ سامان ہے۔
(المستفاد ص 250)
سند کے دیگر راوی:
◈ الحسن بن احمد بن عبداللہ المقری، ابوالقاسم الفامی، ابوعلی الحسن بن علی اور احمد بن عمار:
ان راویوں کی تعیین اور تحقیق مطلوب ہے۔
◈ حسین بن عمران المؤذن اور محمد بن مہدی کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔
لہٰذا اس سند میں مجہول راویوں کا مجموعہ شامل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا تجزیہ:
◈ حافظ ابن حجر کے مطابق، اس روایت کی سند میں محمد بن مہدی اور ابن جریج کے درمیان مہدی بن ہلال کا واسطہ ہے:
(دیکھئے الاصابہ 1؍438 ترجمۃ الخضر، اللآلی المصنوعہ 1؍167)
◈ مہدی بن ہلال کے بارے میں:
▪ یحییٰ بن سعید القطان نے کہا:
’’یکذب فی الحدیث‘‘
وہ حدیث میں جھوٹ بولتا تھا۔
(الجرح والتعدیل 8؍336 وسندہ صحیح)
▪ یحییٰ بن معین نے فرمایا:
’’مہدی بن ہلال کذاب‘‘
مہدی بن ہلال جھوٹا ہے۔
(تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری: 3491)
راوی احمد بن عمار کے بارے میں:
◈ ابن حجر نے نقل کیا:
’’قال ابن الجوزی: احمد بن عمار متروک عندالدار قطنی‘
‘احمد بن عمار، دارقطنی کے نزدیک متروک ہے۔
(الاصابہ 1؍438)
خلاصہ کلام:
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔
اس کی دوسری موضوع اور منکر اسناد کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ کیجئے:
◈ الموضوعات لابن الجوزی (1؍195، 196)
◈ الکامل لابن عدی (2؍740 دوسرا نسخہ 3؍175)
◈ اللآلی المصنوعہ (1؍167)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب