عذر کی صورت میں نماز کی ادائیگی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

عذر کی صورت میں نماز کی ادائیگی

کیونکہ عذر کے سوا وقت پر نماز ادا کرنا فرض ہے جیسا کہ حدیث نبوی ہے کہ :
صل الصلاة لوقتها
[مسلم 648]
”نماز اس کے وقت پر ادا کرو۔“
مزید تفصیل آگے آئے گی ۔
(نوویؒ) علماء کا اتفاق ہے کہ اس وقت ( طلوع آفتاب یا غروب آفتاب) تک جان بوجھ کر تاخیر کرنا جائز نہیں۔
[شرح مسلم 115/3]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح ومن أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر
[بخاري 579 ، كتاب مواقيت الصلاة : باب من أدرك من الفجر ركعة ، مسلم 608 ، أبو داود 412 ، ترمذي 186 ، نسائي 257/1 ، ابن ماجة 1122 ، دارمي 277/1 ، أبو عوانة 358/1 ، شرح معاني الآثار 90/1 ، بيهقي 367/1]
”طلوع آفتاب سے پہلے جس نے نماز فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے صبح کی نماز پا لی اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت پالی اس نے نماز عصر پالی۔“
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من أدرك مـن الــعـصـر ســجـدة قبل أن تغرب الشمس أو من الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدركها
[احمد 78/6 ، مسلم 609 ، كتاب المساجد و مواضع الصلاة : باب من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك تلك الصلاة ، نسائي 273/1 ، ابن ماجة 700 ، بيهقي 378/1 ، أبو عوانة 374/1]
”جس شخص نے غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت ( یہاں سجدہ سے مراد رکعت ہے ) پا لی یا طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے اسے یعنی نماز عصر یا نماز فجر کو پالیا۔“
معلوم ہوا کہ نماز فجر اور نماز عصر کی ایک ایک رکعت ان کے اوقات ختم ہونے سے پہلے حاصل کر لینا ایسا ہی ہے جیسے کہ مکمل نماز حاصل کر لی ہے۔
(شافعیؒ ، احمدؒ) اس کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) یہ صرف نماز عصر کے ساتھ خاص ہے لہذا طلوع آفتاب سے نماز فجر باطل ہو جائے گی خواہ ایک رکعت پہلے پا لی ہو ( ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے لیکن گذشتہ احادیث سے ممانعت والی حدیث کی تخصیص ہو جاتی ہے)۔
[الأم للشافعي 156/1 ، المغنى 516/2 ، كشاف القناع 257/1 ، شرح فتح القدير 417/1]
(راجح) یقینا امام شافعیؒ کا موقف ہی رائج ہے کیونکہ گذشتہ صحیح احادیث اس پر شاہد ہیں ۔
(ابن حجرؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[فتح البارى 250/2]
(شوکانیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[نيل الأوطار 482/1]
(عبدالرحمن مبارکپوریؒ) یہی موقف رکھتے ہیں ۔
[تحفة الأحوذى 581/1]
(ابن قیمؒ) انہوں نے اس بات کو ثابت کیا ہے اور مخالفین کا قاطع رد کیا ہے۔
[أعلام الموقعين 341/2-344]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے