عذاب قبر کے اثبات پر 6 صحیح احادیث اور ان پر منکرین کے اعتراضات کے جوابات
یہ اقتباش شیخ محمد ارشد کمال کی کتاب عذاب قبر کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

عذاب قبر احادیث کی روشنی میں

عذاب قبر کے متعلق بہت ساری احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں جنہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم نے روایت کیا ہے، مثلاً سیدہ عائشہ، ابو ہریرہ، عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر ، انس بن مالک، ابو سعید خدری، براء بن عازب، زید بن ثابت، اسماء بنت ابی بکر صدیق اور ہانی مولی عثمان رضوان اللہ علیھم اجمعین وغیرہم نے۔
ان احادیث کی تعداد تواتر کو پہنچ چکی ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں: فأما أحاديث عذاب القبر ومسألة منكر ونكير فكثيرة متواترة عن النبى صلى الله عليه وسلم یعنی عذاب قبر کی احادیث اور منکر و نکیر کے سوال (کی احادیث) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کثرت اور تواتر کے ساتھ (مروی) ہیں۔
(فتاوى شيخ الاسلام ابن تیمیه: 285/4 )
علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد تواترت الأخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ثبوت عذاب القبر ونعيمه اور تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر اور نعمت قبر کے ثبوت میں تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔
(شرح عقيده الطحاوية: 450 )
یہاں ہم صرف وہی احادیث نقل کریں گے جن پر منکر عذاب قبر فاضل صاحب نے اپنے 36 صفحات کے کتابچے میں اعتراضات کیے ہیں، البتہ اگر کوئی شخص ان تمام احادیث سے آگاہ ہونا چاہے تو وہ درج ذیل کتب دیکھ لے، احادیث و تفاسیر کی تمام کتب، اس کے علاوہ” التذكرة في أحوال الموتى وأمور الآخرة للقرطبی، إثبات عذاب القبر و سؤال الملكين للبيهقي، شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور للسيوطي، أحوال القبور وأحوال أهلها إلى النشور لابن رجب، كتاب الروح لابن قيم۔“

حدیث نمبر ①

عن ابن عباس قال: مر النبى صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال: إنهما ليعذبان وما يعذبان فى كبير، أما أحدهما فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم أخذ جريدة رطبة فشقها نصفين، فغرز فى كل قبر واحدة. قالوا: يا رسول الله لم فعلت هذا؟ قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں قبروں والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔“ پھر آپ نے ایک ہری ٹہنی لے کر اسے بیچ سے دو ٹکڑے کیا اور ہر قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: ”شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب ما جاء في غسل البول، رقم: 218)

اعتراض ➊ :

محمد فاضل صاحب اس حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث کئی لحاظ سے قرآن کے صریح خلاف ہے۔
قرآن میں عذاب قبر کا کہیں بھی اشارہ نہیں ۔
(عذاب قبر : 26)

جواب:

گزارش ہے کہ یہ حدیث کسی بھی لحاظ سے قرآن مجید کے خلاف نہیں، قرآن مجید نے تو عذاب قبر کے برحق ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔
ہم آپ سے انتہائی ہمدردی کے ساتھ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ بقول آپ کے قرآن میں عذاب قبر کا کہیں بھی اشارہ نہیں، اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمیں تو قرآن مجید میں عذاب قبر کی طرف کیے گئے اشارات مل گئے مگر آپ کو وہ نظر نہ آئے۔ یاد رکھیں کہ اگر کسی خبر کے متعلق نفی اور اثبات دونوں اکٹھے ہو جائیں تو اس صورت میں اثبات مقدم ہوتا ہے۔ مثلاً عمرو نے کہا کہ زید نے فلاں کام کیا ہے، جب کہ بکر اس کی نفی کرتا ہے، تو ایسی صورت میں عمرو کی بات کو ترجیح دی جائے گی، کیوں کہ بکر نے تو اپنے علم کے مطابق نفی کی ہے۔
یہاں بھی آپ کی طرف سے ہونے والی نفی پر ہمارا اثبات مقدم ہے۔ ان شاء اللہ
اگر آپ برا نہ محسوس کریں تو ہم آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ ذرا یہ تو بتائیں۔
کیا آپ نے مکمل قرآن مجید پڑھا بھی ہے؟
اگر پڑھا ہے تو کیا کسی مستند عالم دین سے پڑھا ہے؟
کیا آپ نے قرآن مجید کے اس مفہوم کو سمجھا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سمجھایا تھا؟ کیا آپ کسی مستند دلیل سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم نے بھی یہ کہا ہو کہ عذاب قبر کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے؟
میں مانتا ہوں کہ آپ کو اور آپ کے حواریوں کو قرآن مجید سے عذاب قبر کا اشارہ نہ ملا ہو، مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ اپنی کم علمی کی بنا پر یہ نعرے لگاتے پھریں کہ قرآن میں عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے۔

اعتراض ➋ :

وحی غیر متلو کی بات بھی نہیں کہی جاسکتی، کیوں کہ وہی غیر متلو کے ذریعے وحی متلو (قرآن) کے احکام پر عمل کرنے کے طریقے بتلائے اور سکھائے گئے ہیں۔
(ايضاً)

جواب:

الحمد لله، ثم الحمد لله شکر ہے کہ آپ نے حدیث کو وحی غیر متلو تو تسلیم کیا۔ اب جب کہ آپ نے حدیث رسول کو وحی غیر متلو تسلیم کر لیا ہے تو عذاب قبر کو بھی تسلیم کر لیں، کیونکہ عذاب قبر تو وحی متلو اور وحی غیر متلو دونوں سے ثابت ہے۔
کیا آپ اپنے اس دعوے کی کوئی ایک آیت یا حدیث دکھا سکتے ہیں جس میں یہ ہو کہ وحی غیر متلو کے ذریعے وحی متلو کے احکام پر صرف عمل کرنے کے طریقے بتلائے اور سکھلائے جاتے ہیں اور بس؟
کیا وحی غیر متلو کے ذریعے سے وحی متلو کے مجمل کی تفسیر نہیں کی جا سکتی؟ اگر نہیں تو کیوں؟نیز اگر کسی مکمل مسئلہ یا اس کے کسی جز کے بارے میں وحی متلو خاموش اور وحی غیر متلو سے بیان کر دے، تو کیا آپ اس کے بھی منکر ہوں گے؟ ذرا سوچیں کہ آپ کے یہ تمام الٹے سیدھے اعتراضات کہیں براہ راست خالق کائنات پر تو نہیں ہو رہے۔
یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے، اس کے فیصلوں پر ہم راضی ہیں، وہ اپنے نبی کو کوئی مسئلہ وحی متلو کے ذریعے سے بتا دے، یا وحی غیر متلو کے ذریعے سے بتا دے، ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے فیصلے پر اعتراض کریں۔ آپ کو یہ کس نے کہا کہ وحی غیر متلو کے ذریعے سے وحی متلو کے احکام پر عمل کرنے کے صرف طریقے ہی بتائے جاتے ہیں۔ کیا یہ بات وحی متلو نے بیان کی ہے؟ جی ہاں تو بار بار اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تمام مسائل میں، خواہ ان کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات اور معاملات سے ہو، وحی غیر متلو کی اطاعت کرو:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ ‎
”اور تمہیں جو کچھ بھی رسول دے، پس اسے لے لو، اور جس سے روکے پس (اس سے) رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت عذاب والا ہے۔“
(59-الحشر:7)

اعتراض ➌ :

یہ ٹہنیاں جب تک ہری رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی ، کی بات قرآن کے صریح خلاف ہے، کیوں کہ قرآن میں تو ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی تسبیح تعریف اور پاکی بیان کرنے میں ہر آن مصروف ہے۔(بنی اسرائیل : 44 ، الحديد : 1 ، الصف : 11 ، الجمعة : 1 ، التغابن : 1) ان سے قبر کی مٹی کے تمام ذرات کا ہر آن مصروف تسبیح و تعریف و پاکی بیان کرتے رہنا قطعی ثابت ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن نازل ہوا ہے وہ قرآن کے صریح خلاف ہرگز کوئی بات نہیں فرما سکتے۔
(عذاب قبر : 26)

جواب:

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو وحی کے ذریعے سے بتایا کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں گی، ان سے عذاب میں تخفیف رہے گی، یعنی عذاب کے ہلکا رہنے کی مدت ٹہنیوں کا ہری رہنا ہے، یہ ہے حدیث کا صحیح مفہوم۔ مگر فاضل صاحب کیا لکھتے ہیں کہ ”جب تک یہ ٹہنیاں ہری رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی، جس کی وجہ سے قبر والوں کے عذاب میں کمی رہے گی۔“
اس عبارت میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ الفاظ فاضل صاحب کے خود ساختہ ہیں، حدیث کے الفاظ اس طرح نہیں ہیں، اور پھر خاص کر تسبیح کی بات، یہ تو شارحین حدیث کا قول ہے، حدیث نہیں۔ اگر ہو بہو اسی طرح حدیث کے الفاظ ہیں تو پھر فاضل صاحب حوالہ پیش کریں۔ جب کہ آپ نے تو اپنے پورے کتا بچہ میں کہیں بھی حوالہ دینے کی زحمت نہیں اٹھائی، اور یہ سب اس لیے کہ اس سے ان کا خود ساختہ مفہوم نہیں نکلتا تھا۔ اپنے پاس سے الفاظ گھڑ کر لکھتے گئے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ فاضل صاحب کی عبارت پر دوبارہ غور کریں، لکھتے ہیں: جب تک یہ ٹہنیاں ہری رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی۔ اس عبارت میں خشک ٹہنیوں کے تسبیح نہ کرنے کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے خشک ٹہنیوں کے تسبیح کرنے کی نفی کی ہو۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر فرض کیا اس عبارت کو حدیث کے الفاظ مان بھی لیں تو پھر بھی اس کا مفہوم وہ نہیں بنتا جو فاضل صاحب نے بیان کیا ہے، اس میں تو صرف خبر دی گئی ہے کہ ان ہری ٹہنیوں کی تسبیح سے عذاب میں کمی رہے گی، دیگر ہری یا خشک ٹہنیوں کی تسبیح سے عذاب میں کمی نہیں ہوگی۔

اعتراض ➍ :

عذاب قبر کا معاملہ غیب کا ہے اور غیب کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر وحی کے، ذاتی طور پر نہیں ہوسکتا، چناں چہ آپ کے عالم الغیب ہونے کی قطعی نفی وتردید خود آپ کی زبانی قرآن میں موجود ہے۔
(ايضاً)

جواب:

الحمد للہ آپ نے عذاب قبر کو تسلیم کیا۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ عذاب قبر کا تعلق غیب سے ہے، اس میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ غیب کے معاملات اللہ تعالیٰ کے علاوہ ذاتی طور پر کوئی نہیں جانتا، ہاں اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے اگر کسی کو اس پر مطلع کر دے تو یہ الگ بات ہے۔
عالم برزخ کا تعلق بھی امور غیب سے ہے، اس میں پیش آنے والے حالات جتنے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو وحی کے ذریعے بتائے ہیں، آپ نے وہ اسی طرح امت تک پہنچا دیے ہیں، اپنی طرف سے ان میں ایک ذرہ برابر بھی کوئی کمی بیشی نہیں کی، لہذا امت پر واجب ہے کہ وہ ان تمام خبروں پر ایمان رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو وحی کے ذریعے سے بتا دی ہیں۔
جنت اور دوزخ کی خبروں کا تعلق بھی غیب سے ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو وحی کے ذریعے بتائیں، ایسے ہی قبر کے معاملات ہیں۔ اگر آپ کے اعتراض کو مدنظر رکھیں تو قرآن بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ کیا اسی اعتراض کی بنا پر آپ قرآن کے بھی منکر بنیں گے؟

اعتراض ➎ :

پیشاب سے عدم احتیاط کے معاملے میں نہ صرف قرآن خاموش ہے بلکہ احادیث بھی خاموش ہیں اس لیے یہ معاملہ محل غور ہی نہیں بلکہ محل نظر بھی ہے۔
(عذاب قبر : 27 )

جواب:

جس چیز کے متعلق قرآن خاموش ہو کیا آپ اس کا محض اس لیے انکار کریں گے کہ اس کے متعلق قرآن خاموش ہے؟ غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
آپ ان سے کہہ دیجیے! کہ جو وحی میری طرف آئی ہے اس میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام کی گئی ہو، مگر یہ کہ وہ مردار ہو، یا خون ہو بہایا ہوا، یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ وہ چیز اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے مشہور کر دی گئی ہو، پس جو شخص مجبور ہو جائے درآنحالیکہ وہ نہ تو (اللہ کے قانون کا) باغی ہو، اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو، پس بے شک تیرا رب بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
(6-الأنعام:145)
اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اعلان کر دیں کہ میرے پاس جو قرآن مجید کی وحی ہے اس میں تو میں صرف یہ چیزیں حرام پاتا ہوں، مردار، بہتا ہوا خون، خنزیر کا گوشت ، اور جو چیز غیر اللہ کے لیے مشہور کر دی جائے ۔
اب آپ خود غور کریں! کہ ان چار چیزوں کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں ایسی ہیں جو یقیناً فاضل صاحب کے نزدیک بھی حرام ہیں، مثلاً کتا، بلی، بھیڑیا، شیر، سانپ، بچھو، پیشاب، پاخانہ، آپ کے قانون کے مطابق تو یہ بھی حلال بنتی ہیں، کیونکہ ان کی حرمت کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کے متعلق قرآن ویسے ہی خاموش ہے جیسے پیشاب سے عدم احتیاط کے بارے میں خاموش ہے۔ففهم وتدبر
آپ کا یہ کہنا بھی مبنی بر جہالت ہے کہ پیشاب سے عدم احتیاط کے بارے احادیث خاموش ہیں۔ اس لیے کہ احادیث میں تو پیشاب سے عدم احتیاط کرنے والے کے لیے عذاب قبر کی بشارت ہے۔ ذیل میں چند احادیث پیش خدمت ہیں۔
عن عبد الرحمن بن حسنة قال: انطلقت أنا وعمرو بن العاص إلى النبى صلى الله عليه وسلم، فخرج ومعه درع ثم استتر بها، ثم بال، فقلنا: انظروا إليه يبول كما تبول المرأة: فسمع ذلك فقال: ألم تعلموا ما لقي صاحب بني إسرائيل؟ كانوا إذا أصابهم البول قطعوا ما أصابه البول منهم، فنهاهم، فعذب فى قبره .
سیدنا عبد الرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور عمرو بن العاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ نکلے اور ایک ڈھال سی جو آپ کے ساتھ تھی۔ کی آڑ کر کے پیشاب کرنے لگے، ہم نے کہا کہ دیکھو آپ ایسے پیشاب کرتے ہیں جیسے عورت پیشاب کرتی ہے، آپ نے یہ سن کر فرمایا: ”کیا تم نہیں جانتے جو حال بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ہوا تھا۔ ان (بنی اسرائیل) میں سے جب کسی کو پیشاب لگ جاتا تو وہ اس مقام کو کاٹ ڈالتے تھے، اس شخص نے انہیں اس سے منع کیا تو اسے قبر میں عذاب دیا گیا۔“
ابوداؤد، کتاب الطهارة، باب الاستبراء من البول، رقم: 22 الشیخ البانی اس کے موقوف ہونے کو شیح بتلاتے ہیں۔
عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكثر عذاب القبر من البول .
”سیدنا ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اکثر عذاب قبر پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔“
ابن ماجه، كتاب الطهارة، باب التشديد في البول، رقم: 348 الشیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

اعتراض ➏ :

چغلی پر جو عذاب دیا جائے گا اس کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے ملحوظ رہے کہ یہ عذاب حشر کے دن فیصلے کے بعد آخرت میں دیا جائے گا قبر یا برزخ میں نہیں ؟
(عذاب قبر : 27)

جواب:

آپ کتاب و سنت سے اپنے اس باطل دعویٰ کی دلیل پیش کر کے ثابت کریں کہ چغل خور کو برزخ میں عذاب نہیں ہوگا۔
گزشتہ سطور میں ہم یہ بتا چکے ہیں کہ اشد العذاب تو فیصلے کے بعد ہی قیامت والے دن ہوگا مگر ادنیٰ عذاب یہاں دنیا اور برزخ میں مجرموں کو دینا اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔
﴿وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾
اور ہم انہیں (قیامت کے) بڑے عذاب سے پہلے ہلکے عذاب کا مزہ بھی ضرور چکھائیں گے، شاید وہ (اپنی روش سے) باز آ جائیں۔
(32-السجدة:21)

اعتراض ➐ :

خارجی امور سے اللہ کے مقرر کردہ عذاب میں کمی یا تخفیف ہونے کی بات دراصل اللہ کی فرمانروائی قدرت و اختیار کے ناقص و کمزور ہونے پر دلیل ہے، اس لیے یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے۔
(عذاب قبر، ص: 27)

جواب:

جواب سے پہلے میں فاضل صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ ہر اعتراض کے آخر میں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث من گھڑت ہے، جھوٹی ہے، برائے مہربانی جس راوی نے یہ حدیث گھڑی ہے اس کا کوئی پتا بھی بتا دیا کریں۔ اگر آپ یہ ثابت کر دیں کہ فلاں راوی نے یہ حدیث گھڑی ہے تو یہ آپ کا امت پر احسان ہوگا۔
کیا آپ امام بخاری، امام مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی وغیرہم من المحدثین رحمہ اللہ علیہم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ حدیث گھڑی ہوگی؟ اگر آپ کے دماغ میں کسی شیطان نے یہ بات ڈال دی ہے تو پہلے اپنے دماغ کا علاج کروائیں، پھر محدثین کرام کے حالات پڑھیں، آپ کو پتا چلے گا کہ ان لوگوں نے حدیث کے لیے کتنی محنتیں کی ہیں۔
اب آتے ہیں آپ کے اعتراض کی طرف۔ تو گزارش ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ خود ہی کسی خارجی امر سے عذاب میں کمی یا تخفیف کر دے تو اس بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہوگا؟
اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کسی کو سزا دلوا سکتا ہے تو سزا میں کمی بھی کروا سکتا ہے، وہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ ” جو چاہے اسے کر گزرے۔“ اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے، اپنے بندوں سے جو چاہے کروا سکتا ہے، بندے تو اس کے حکم کے پابند ہیں، ہمارا یہ ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس کے حکم سے ہی کیا ہے۔ ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ .‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ.﴾

حدیث نمبر 2

عن أبى سعيد الخدري، عن زيد بن ثابت قال قال وسعيد: ولم أشهده من النبى صلى الله عليه وسلم ، ولكن حدثنيه زيد بن ثابت قال: بينما النبى صلى الله عليه وسلم فى حائط لبني النجار، على بغلة له، ونحن معه، إذ حادت به، فكادت تلقيه، وإذا أقبر ستة أو خمسة أو أربعة. قال: كذا كان يقول الجريري. فقال: من يعرف أصحاب هذه الأقبر؟ فقال رجل: أنا. قال: فمتى مات هؤلاء؟ قال: ماتوا فى الإشراك. فقال: إن هذه الأمة تبتلى فى قبورها، فلولا أن لا تدافنوا، لدعوت الله أن يسمعكم من عذاب القبر الذى أسمع منه، ثم أقبل علينا بوجهه فقال: تعوذوا بالله من عذاب النار فقالوا: نعوذ بالله من عذاب النار. فقال: تعوذوا بالله من عذاب القبر فقالوا: نعوذ بالله من عذاب القبر. فقال: تعوذوا بالله من الفتن، ما ظهر منها وما بطن قالوا: نعوذ بالله من الفتن، ما ظهر منها وما بطن. قال: تعوذوا بالله من فتنة الدجال قالوا: نعوذ بالله من فتنة الدجال.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود نہیں سنی، بلکہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سنی ہے وہ کہتے تھے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں ایک خچر پر جا رہے تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے، اتنے میں وہ خچر بھڑکی، پس قریب تھا کہ وہ آپ کو گرا دے، وہاں پر چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں، آپ نے فرمایا: ”کوئی جانتا ہے کہ یہ قبریں کن کن کی ہیں؟“ پس ایک شخص نے کہا میں جانتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”یہ کب مرے تھے؟“ اس آدمی نے کہا شرک کے زمانے میں۔ آپ نے فرمایا: ”قبروں میں اس امت کا امتحان ہوگا، پس اگر (اس بات کا ڈر) نہ ہوتا کہ تم مردے دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی قبر کا عذاب سنا دے جو (اس وقت) میں سن رہا ہوں۔“ پھر آپ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔“ صحابہ نے کہا: ہم پناہ مانگتے ہیں آگ کے عذاب سے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔“ انہوں نے کہا: ہم قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ”چھپے اور ظاہر فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔“ صحابہ نے کہا: ہم چھپے اور ظاہر فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو۔“ صحابہ نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے بھی اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
(مسلم، کتاب الجنة ونعيمها، باب عرض المقعد على الميت وعذاب القبر، رقم: 2867)

اعتراض ➊ :

فاضل صاحب نے صحیح مسلم کی اس حدیث کو بھی اعتراضات سے نہیں چھوڑا، کہتے ہیں: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر والوں پر عذاب ہونے کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کو نبی سے پہلے ہوا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے رسول کی اس سے زیادہ کچھ اور توہین ہو سکتی ہے؟
(عذاب قبر : 27 )

جواب:

فاضل صاحب! میں نے مکمل حدیث مع عربی متن کے بیان کر دی ہے، آپ اس میں ہمیں یہ دکھا دیں کہ خچر کو عذاب قبر کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہو گیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم بعد میں ہوا۔ ﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ﴾ (2-البقرة:24)

انسانی فطرت ہے کہ اگر اسے بغیر طلب کے ہی کوئی مسئلہ بتا دیا جائے تو وہ اسے اتنی اہمیت نہیں دیتا جتنی اہمیت اس مسئلہ کو دیتا ہے جس کی اسے طلب ہو۔ خچر کے بدکنے کو دیکھ کر ظاہری بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ تڑپ پیدا ہوئی ہوگی کہ معلوم تو کریں خچر نے آپ کے ساتھ ایسی حرکت کیوں کی ہے؟ لہذا آپ نے جب صحابہ کی تڑپ کو دیکھا تو بتا دیا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿‏ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ‎. لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ .فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ. إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ ‎.‏ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ . أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ.﴾
( پھر ایک موقعہ پر ) سلیمان علیہ سلام نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے: کیا بات ہے مجھے ہد ہد نظر نہیں آرہا ، کیا وہ کہیں غائب ہو گیا ہے؟ (ایسی بات ہوئی ) تو میں اسے سخت سزا دوں گا، یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا وہ میرے سامنے کوئی معقول وجہ پیش کرے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ( ہد ہد آ گیا اور ) کہنے لگا: میں نے وہ کچھ معلوم کیا ہے جو ابھی تک آپ کو معلوم نہیں ۔ میں سبا سے متعلق ایک یقینی خبر آپ کے پاس لایا ہوں، میں نے دیکھا کہ ایک عورت ان پر حکمرانی کرتی ہے، جسے سب کچھ عطا کیا گیا ہے اور اس کا تخت عظیم الشان ہے۔ میں نے (یہ بھی ) دیکھا کہ وہ خود اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں، اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو آراستہ کر کے انھیں راہ (حق) سے روک دیا ہے، لہذا وہ راہ ( حق ) نہیں پارہے ، اس اللہ کو سجدہ نہیں کرتے جو ان چیزوں کو نکالتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں پوشیدہ ہیں، اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم ظاہر کرتے ہو۔“
(27-النمل:20تا25)
ان آیات میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اہل سبا پر ایک عورت کا حکمرانی کرنا اور سورج کی پرستش کرنے کا علم اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر جناب سلیمان علیہ السلام کو نہیں تھا بلکہ آپ سے پہلے ایک چھوٹے سے پرندے ہد ہد کو ہوا، اور پھر یہ کہ اس پرندے نے بھری مجلس میں آکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے بر ملاطور پر کہا کہ مجھے ان باتوں کا علم ہے جن کا علم آپ کو نہیں ۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کے سامنے یہ بات کہہ کر آپ کی گستاخی کی ہے؟ اور کیا قرآن مجید نے یہ واقعہ بیان کر کے جناب سلیمان علیہ السلام کی (نعوذ باللہ) توہین کی ہے؟ یہاں جو جواب آپ کا ہوگا ہمارا بھی وہی جواب ہوگا۔
فاضل صاحب کے تمام اعتراضات قرآن مجید پر ہو رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کتاب و سنت پر اعتراض کر کے غیروں کے لیے چور دروازے کھول رہے ہیں؟

اعتراض ➋ :

قبرستانوں میں عموماً جانور چرتے پھرتے ہیں لیکن کبھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ کوئی جانور بدک کر قبرستان سے بھاگ نکلا ہو۔ اس لیے یہ حدیث بھی گھڑی ہوئی ہے۔
(ايضاً )

جواب:

ہمارے ہاں دیہاتوں میں بعض لوگ یوں کیا کرتے تھے کہ اگر کوئی جانور مثلاً گھوڑا، گدھا، بیل وغیرہ تنگ کرتا تو وہ اسے قبرستان میں باندھ آتے، جس سے جانور کے پسینے چھوٹ جاتے۔ پوچھنے پر وہ لوگ اپنے علم کے مطابق جواب دیتے کہ قبرستان میں ہوائی چیزیں (جنات، بھوت) رہتی ہیں جو جانوروں کو ڈراتے ہیں، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں علم دیا، احادیث پڑھیں، تو پتا چلا کہ قبرستان میں جانور جنات یا بھوتوں سے نہیں بلکہ قبر میں مردوں کو ہونے والے عذاب سے ڈرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے پسینے چھوٹ جاتے تھے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ جن لوگوں کے گھر ائیر پورٹ، ریلوے لائن یا کسی جی ٹی روڈ کے قریب ہیں وہ مسلسل شور شرابہ سننے کی وجہ سے اس کے عادی ہو چکے ہیں، گویا وہ ان کی شور سے دوستی ہو چکی ہے، لیکن اگر کوئی اجنبی شخص ان کے پاس مہمان چلا جائے تو اس بے چارے کو تو ساری رات نیند نہیں آتی، وہ پریشان ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ چند دن وہاں ٹھہرے تو وہ بھی ان کے ساتھ عادی بن جاتا ہے۔
خود میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، میں پہلے ایک گاؤں میں رہتا تھا، تعلیم کے سلسلے میں جب لاہور کا رخ کیا تو جہاں پر میں نے رہائش رکھی وہاں ساتھ ہی مارکیٹ تھی جس کے پاس سے ایک بڑا روڈ گزرتا تھا، جس پر مسلسل ٹریفک چلتی رہتی تھی، مجھے ابتدائی مہینوں میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا، نیند نہ آتی، اگر آتی تو ذرا سا ہارن بجنے پر پھر آنکھ کھل جاتی لیکن آہستہ آہستہ شہر میں رہ کر شور سننے کا عادی بن گیا، اب صورت حال یہ ہے کہ میری رہائش ایک جی ٹی روڈ کے بالکل قریب ہے، جہاں چوبیس گھنٹے ٹریفک کا ہجوم رہتا ہے، ہارن بجتے رہتے ہیں، کبھی کدھر سے گاڑی آرہی ہے، کبھی کدھر سے، مگر ہمیں اب کوئی پریشانی یا بے سکونی محسوس نہیں ہوتی، مہمان حضرات آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بڑی بہادری کی بات ہے کہ اتنے شور میں رہتے ہو، ہم کہتے ہیں کہ اب ہماری شور سے دوستی ہو گئی ہے۔ یہی حال جانوروں کا ہوتا ہے کہ وہ بھی قبرستانوں کے گردونواح میں رہ کر آوازیں سننے کے عادی بن جاتے ہیں، اس لیے وہ بدک کر قبرستانوں سے نہیں بھاگتے مگر جو جانور اجنبی ہوں، کبھی کبھی قبرستان کے پاس سے گزرتے ہوں وہ ڈر جاتے ہیں۔
ڈاکٹر ابو جابرحفظہ اللہ فرماتے ہیں:
دنیا میں جانور بھی دو قسم کے ہیں، ایک وہ شہری جانور جو سٹرک پر سائرن کی زبر دست آواز سے بھی متحرک نہیں ہوتے ۔ دوسرے تھر پار کر کے علاقے کے جانور جو دور سے کسی کار کی آواز سن کر ایسے بدحواس ہو کر اور گھبرا کر بھاگتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے، لہذا قبر کی آواز سے بھی ڈھیٹ قسم کے جانور تو نہیں بدکتے بلکہ یہ آوازیں ان کی روز مرہ کا معمول اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہے، جب کہ حساس قسم کے جانور اس سے بدکتے ہیں ۔
(ماه نامه الحدیث حضرو ، شماره نمبر : 18، ص: 45)

ممکن ہے بسا اوقات قبرستان میں جانور نہ بھی ڈرتے ہوں جس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں:
✿ اللہ تعالی جانوروں کو بھی اہل قبور کی چیخ و پکار جب سنانا چاہے تو وہ سنتے ہیں ورنہ نہیں۔
✿ ضروری نہیں کہ ہر وقت ہی اہل قبور عذاب کی وجہ سے چیخ و پکار میں مبتلا ر ہیں، بسا اوقات اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں کمی بھی کر سکتا ہے۔
✿ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی دفعہ انسان کو سزا دیتے وقت اس کا منہ وغیرہ بڑی سختی سے بند کر دیا جاتا ہے تا کہ آواز ہی نہ نکلے۔ اب سزا اسے ملتی ہے، اس کی مار پٹائی ہوتی ہے لیکن کوشش کے باوجود اس کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی، یعنی چیخ و پکار سزا کے لیے ضروری نہیں ۔

حدیث نمبر ③

عن أنس بن مالك أنه حدثهم، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن العبد إذا وضع فى قبره، وتولى عنه أصحابه، إنه ليسمع قرع نعالهم وفي رواية مسلم إذا انصرفوا .
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بندہ جب اپنی قبر میں دفن کیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھی واپس پلٹتے ہیں، تو وہ اپنے (پلٹنے والے) ساتھیوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔“
(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر، رقم: 1374 – مسلم، کتاب الجنة ونعيمها، باب العرض المقعد على الميت وعذاب القبر، رقم: 7217)

اعتراض ➊ :

یہ حدیث قرآن کے قطعی خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن میں تو یہ ہے کہ مردہ زندوں کی پکار نہیں سن سکتا۔
(ايضاً)

جواب:

حدیث میں صرف جوتوں کی آواز کا سننا آیا ہے، نہ کہ کسی کی پکار کا۔ آپ اعتراض کرنے سے پہلے کم از کم حدیث کو عربی عبارت سمیت اچھی طرح پڑھ تو لیا کریں۔
عام حالات میں مردہ زندوں کی آواز، پکار نہیں سن سکتا اور نہ ہی کسی زندہ میں اتنی ہمت ہے کہ وہ مردوں کو اپنی پکار سنا سکے۔ البتہ کسی خاص وقت میں اللہ تعالیٰ اگر مردے کو کسی کی آواز سنانا چاہے تو سنا سکتا ہے، اس کے لیے کوئی مشکل نہیں، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مردے کو ہر وقت اللہ تعالیٰ زندوں کی آواز و پکار سنائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ایسا کر سکتا ہے مگر وہ کرتا نہیں، کیونکہ اس کا قانون ہے کہ جب کوئی شخص اس دنیا سے چلا گیا تو اس کے اس دنیا والوں سے رابطے منقطع ہو گئے۔
حافظ محمد عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ علیہ فر ماتے ہیں:
یہ ایک اصولی مسئلہ ہے کہ جو بات خلاف قیاس ہو وہ اپنے مورد میں بند رہتی ہے ، یعنی جس محل میں وارد ہوگی اس سے دوسرے محل میں جاری نہ کی جائے گی ، مثلا نبی کے ہاتھ کوئی معجزہ ظاہر ہو تو اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اب نبی کو کلی اختیار ہے، جس وقت چاہے، کوئی بات کرے، بلکہ جس وقت جو بات اللہ نے نبی کے ہاتھ پر اس قسم کی ظاہر کی وہ اسی محل میں سمجھی جائے گی۔
آگے مزید فرماتے ہیں:
جب یہ بات سمجھ میں آگئی کہ جو بات خلاف قیاس ہو وہ مورد سماع میں بند رہے گی تو اب دیکھنا چاہیے کہ مردے کا سننا موافق قیاس ہے یا مخالف ، ظاہر ہے کہ یہ مخالف قیاس ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو مستغرق (یعنی گہری) نیند سو جائے وہ نہیں سنتا، حالاں کہ روح اندر موجود ہوتی ہے، تو مردہ کس طرح سن سکتا ہے؟ اگر مان لیا جائے کہ روح کو بدن کے ساتھ کچھ تعلق رہتا ہے تو بھی مردے کا سماع خلاف قیاس ہے اور عقل اس بات کے سمجھنے سے قاصر ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
جن احادیث میں سماع کا ذکر آیا ہے وہ اپنے اپنے محل پر بند رہیں گی ، مثلاً اگر کسی صحیح حدیث میں آیا ہو کہ مردے سلام سنتے ہیں یا جواب دیتے ہیں تو بے شک سلام کا سننا یا جواب دینا ثابت ہو جائے گا نہ کہ تمام باتوں کا، خواہ وہ سلام سن کر جواب دیتے ہوں یا فرشتے ان کو پہنچا دیتے ہوں ۔
(سماع موتی، ص: 22 ، تا 24)
حافظ محمد عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کی عبارت سے جو چیز واضح ہوئی وہ یہ کہ اصولی طور پر مردے نہیں سنتے لیکن اگر کسی صحیح حدیث میں سماع کا ذکر آ جائے تو وہ اپنے محل پر بند رہے گا ۔ اس لیے کہ جو بات خلاف قیاس ہو وہ اپنے مورد میں ہی بند رہتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ جوتوں کی آواز کے سننے کو ہم خلاف قرآن نہیں کہیں گے ، بلکہ اسے عام اصول سے مستثنیٰ قرار دیں گے مثلاً عام اصول یہی ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے ملے جلے نطفے سے پیدا کیا، مگر عیسی ، آدم اور حوا کی پیدائش اس عام اصول کے خلاف نہ ہوگی، بلکہ اسے اس عام اصول سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ اس کی مزید وضاحت آگے آئے گی ، ان شاء اللہ
اب آپ مذکورہ حدیث کے الفاظ پر غور کریں:
إذا وضع فى قبره جب مردہ اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے۔ مفہوم مخالف یہ بنا کہ قبر میں دفن کرنے سے پہلے اسے کچھ سنائی نہیں دیتا، بیوی، بچے، عزیز و اقارب دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہوتے ہیں مگر مردے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، اسے معلوم ہی نہیں کہ دنیا والے میرے ساتھ کیا کچھ کر رہے ہیں۔
وتولى عنه أصحابه دفن کرنے کے بعد جب اس کے ساتھی واپس پلٹتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جب تک ساتھی وہاں قبر پر کھڑے تھے، اس وقت تک تو آواز نہیں سن سکا، مگر جب چلنے لگے تو پھر ان کی آواز سنی اور آواز بھی کس چیز کی؟ فرمایا: قرع نعالهم اپنے ساتھیوں کے جوتوں کی آواز۔ غور کریں کہ جب وہ لوگ اس کے پاس تھے، قبر پر کھڑے تھے، اس وقت اس میں اتنی قوت سماعت نہیں تھی کہ ان کی آوازوں کو سن سکتا مگر اب جب کہ وہ چلنے لگے تو معمولی سی قوت سماعت چند لمحوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے دے دی، تا کہ اسے پتا چلے کہ تیرے وہ دوست یار جن کے ساتھ تو دنیا میں بڑا مست رہتا تھا، جن کی محفلیں تجھے یاد الہی سے غافل رکھتی تھی ،دیکھ آج وہ تجھے اس اندھیری کوٹھڑی میں بند کر کے جا رہے ہیں، نہ وہ تیری کسی پکار کو سن سکتے ہیں اور نہ ہی تو ان کی پکار کو سن سکتا ہے، وہ جا رہے ہیں، اگر یقین نہیں آتا تو ان کے قدموں کی آہٹ تجھے سنا دیتا ہوں، پھر اللہ تعالیٰ چند لمحوں کے لیے، واپس جانے والے ساتھیوں کے جوتوں کی آواز سنا دیتا ہے، تا کہ اس کی حسرت و ندامت میں مزید اضافہ ہو۔
چند لمحوں کے لیے جوتوں کی آواز کا سننا قرآن کے ہرگز خلاف نہیں، کیونکہ قرآن کا خطاب عام ہے جبکہ یہ ایک خاص وقت میں، خاص ساتھیوں کی، خاص آواز کا سننا ہے جو کہ اس عام سے مستثنیٰ ہے۔ قرآن مجید میں اس طرح کے کسی عام اصول سے کسی خاص چیز سے مستثنیٰ ہونے کی بکثرت دلیلیں موجود ہیں۔

مثلاً قرآن مجید میں ہے:

﴿قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ﴾ ”ہلاک کیا گیا انسان وہ کیسا ناشکرا ہے۔ “(80-عبس:17)
اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء کرام انسان تھے یا نہیں؟ اگر انسان تھے ؟ تو کیا وہ بھی ناشکرے تھے ؟ معلوم ہوا کہ یہاں عام انسانوں کی بات ہورہی ہے مگر خاص انسان اس سے مستثنیٰ ہیں، حضرات انبیاء کرام کا صابر و شاکر ہونا قرآن کے اس مقام کے ہرگز خلاف نہیں۔
➋ ‏ ﴿مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ‎. مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ .﴾
اسے (انسان کو ) اس (اللہ ) نے کس چیز سے پیدا کیا؟ نطفے سے اس کو پیدا کیا، پھر اس کی تقدیر مقرر کی۔
(80-عبس:18،19)
اب یہاں بھی آپ دیکھ لیں کہ فرمایا : انسان کو نطفے سے پیدا کیا، مگر آدم، حوا عیسی علیہم السلام اس عام حکم سے مستثنیٰ ہیں ۔
﴿ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ﴾ ”پھر اس کے لیے راستہ آسان کر دیا ۔“ (80-عبس:20)
مفسرین نے اس کے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔
● خیر اور شر کے راستے آسان کر دیے ، مگر دیکھ لیں کہ اس کے باوجود خیر بڑی مشکل سے ملتی ہے، صحابہ کرام مثلاً سلیمان فارسی ، صہیب رومی رضی اللہ عنہما وغیرہما نے خیر حاصل کرنے کے لیے کتنے کٹھن سفر کیے اور آج بھی یہی صورتِ حال ہے کہ خیر شر کے مقابلے میں مشکل سے ملتی ہے، مگر اللہ کا فرمان ہے کہ ہم نے آسان کر دی۔
● دوسرا مفہوم یہ کہ پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ سے باہر آنے کے تمام راستے آسان کر دیے۔ مگر اس کے باوجود بے شمار بچے ہسپتالوں میں بڑے خطرناک آپریشن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں، بسا اوقات بوقت پیدائش تکلیف کی وجہ سے موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ﴾ ”یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ۔ “(95-التين:4) سورت المومنون میں فرمایا: ﴿فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ﴾ ”برکتوں والا ہے وہ اللہ جوسب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“(23-المؤمنون:14)
مگر بے شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خوبصورت نہیں ہوتے ، کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوتا ہے، مثلاً : اندھا پن ، اپاہج ، پاگل اور دیگر معذور و مفلوج لوگ ۔
یہاں فاضل صاحب کا کیا جواب ہے؟ کیا یہاں بھی آپ حقیقت کے منکر ہوں گے؟
ابھی یہ چند مثالیں میں نے پیش کیں ہیں ورنہ اس طرح کی بے شمار امثلہ ایسی ہیں جو خود قرآن نے بیان کی ہیں، جہاں خطاب عام ہے مگر خاص اس سے مستثنیٰ ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے القليل كلمعدوم ”قلیل نہ ہونے کی طرح ہے۔ “
مزے کی بات یہ کہ نہ صرف منکرین عذاب قبر بلکہ ان کے بڑوں کے جو اعتراضات حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہیں، ٹھیک وہی اعتراضات قرآن مجید بھی فٹ بیٹھتے ہیں اس کے باوجود ان کی غلط ذہنیت ٹھکانے نہیں آتی ۔
آج یہ منکرین حدیث ، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے بودے اعتراضات کر کے اسے مشکوک بنانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں، کل دیکھنا یہی لوگ قرآن مجید پر بھی اعتراضات کریں گے ۔ یہ لوگ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کر کے براہ راست کو نین کے تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کو داغ دار کرنے کی ناکام کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور غیر مسلموں کے لیے چور دروازے کھول رہے ہیں، اللہ پاک ان کے شر سے ہمیں محفوظ فرمائے ، آمین ۔

حدیث نمبر ④

عن أنس بن مالك عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: العبد إذا وضع فى قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له: ما كنت تقول فى هذا الرجل محمد؟ فيقول: أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال: انظر إلى مقعدك من النار أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال النبى صلى الله عليه وسلم: فيراهما جميعا وأما الكافر أو المنافق فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس فيقال: لا دريت ولا تليت ثم يضرب بمطرقة من حديد ضربة بين أذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين .
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے ساتھی پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، پھر دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص (یعنی) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ دیکھ جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں۔ اور رہا کافر یا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں، میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا، وہی میں بھی کہتا رہا، پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ (کتاب و سنت کو) سمجھا اور نہ تو نے کچھ پڑھا، اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے کے ساتھ بڑے زور سے مارا جاتا ہے، اور وہ اتنے بھیانک طریقے سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا ارد گرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔“
(بخاری، کتاب الجنائز، باب الميت يسمع قرع النعال، رقم: 1338)

اعتراض :

فاضل صاحب نے صحیح بخاری کی اس حدیث کے الفاظ ثم يضرب بمطرقة من حديد سے بدک کر اسے خلاف قرآن قرار دے کر ٹھکرا دیا ہے۔ چناں چہ لکھتے ہیں:
”قبر میں مردے کو فرشتے گرز سے مارتے ہیں۔ حالان کہ گرز سے مارنے کی بات صرف دوزخ کے لیے مخصوص ہے ۔ “
(عذاب قبر: 29)

جواب:

حدیث میں ہے: ثم يضرب بمطرقة من حديد ”پھر اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے۔“
قرآن کہتا ہے: ﴿وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ﴾ ” اور ان کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہیں۔“ (22-الحج:21) اب اس میں خلاف قرآن والی کون سی بات ہے، نیز یہ کہاں آیا ہے کہ لوہے کے گرز صرف دوزخ ہی میں مارنے کے لیے استعمال ہوں گے قبر میں نہیں؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ لوہے کے گرزوں سے قبر میں بھی منکرین حق کی پٹائی ہو اور پھر جہنم میں بھی،دونوں مقامات پر لوہے کے گرزوں سے ان کو مارا جائے ، کیوں کہ اس کی دلیل کتاب وسنت میں موجود ہے، جب کہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ قبر میں لوہے کی گرزوں سے نہیں مارا جائے گا۔
فاضل صاحب کے ان بے تکے اعتراضات کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں، وہاں ایک وجہ ان کی جہالت بھی ہے کہ ہر بات بغیر سوچے سمجھے یہ کہ کر ٹھکرا دیتے ہیں کہ یہ خلاف قرآن ہے۔ یہ ہم آگے چل کر بتا ئیں گے کہ خلاف قرآن کسے کہتے ہیں؟

حدیث نمبر ⑤

عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا قبر الميت أو قال أحدكم آتاه ملكان أسودان أزرقان يقال لأحدهما المنكر وللآخر النكير فيقولان ما كنت تقول فى هذا الرجل فيقول ما كان يقول هو عبد الله ورسوله أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله فيقان قد كنا نعلم أنك تقول هذا ثم يفسح له فى قبره سبعون ذراعا فى سبعين ثم ينور له فيه ثم يقال له نم فيقول أرجع إلى أهلي فأخبرهم فيقولان نم كنومة العروس الذى لا يوقظه إلا أحب أهله إليه حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك وإن كان منافقا قال سمعت الناس يقولون فقلت مثله لا أدري فيقولان قد كنا نعلم أنك تقول ذلك فيقال للأرض التئمي عليه فتلتئم عليه فتختلف فيها أضلاعه فلا يزال فيها معذبا حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میت دفن کی جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی ایک دفن کیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ کے کیری (نیلگوں) آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں جن میں سے ایک کو ”منکر“ کہا جاتا ہے اور دوسرے کا نام ”نکیر“ ہے۔ وہ دونوں (میت سے) پوچھتے ہیں اس شخص (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں تم کیا کہتے تھے؟ (جو تمہارے ہاں بھیجا گیا ) مومن آدمی وہی جواب دیتا ہے جو کچھ وہ دنیا میں (حضرت محمد صلی اللہ روم کے بارے میں) کہتا تھا، یعنی وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں( چنانچہ مومن کہتا ہے)میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ دونوں فرشتے کہتے ہیں ہمیں معلوم تھا تم یہی جواب دو گے۔ پھر اس کی قبر ستر در ستر ہاتھ(35X35 میٹر) فراخ کر دی جاتی ہے۔ قبر کو روشن کر دیا جاتا ہے۔ پھر اسے کہا جاتا ہے (سو جا) آدمی کہتا ہے میں اپنے اہل و عیال کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں تا کہ انہیں (اپنے نیک انجام کی) خبر دوں۔ جواب میں فرشتے کہتے ہیں( ممکن نہیں اب) تم دلہن کی طرح سو جاؤ۔ جسے اس کے گھر والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہستی( یعنی خاوند) کے علاوہ اور کوئی نہیں جگاتا۔ (مومن سو جاتا ہے) حتی کہ (قیامت کے روز) اللہ تعالیٰ اسے اس کی خواب گاہ سے جگائے گا۔ اگر مرنے والا منافق ہو تو (فرشتوں کے سوال کے جواب میں) کہتا ہے میں نے لوگوں کو ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں) کچھ کہتے سنا تھا پس میں بھی وہی کچھ کہتا تھا، اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ فرشتے کہتے ہیں ہمیں معلوم تھا کہ تو جواب میں یہی کچھ کہے گا۔ پھر زمین کو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) حکم دیا جاتا ہے اسے جکڑ لے۔ قبر اسے جکڑ لیتی ہے۔ منافق کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں پیوست ہو جاتی ہیں اور وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کی قبر سے اٹھا کھڑا کرے گا۔“
(ترمذی، ابواب الجنائز، باب عذاب القبر، رقم: 1071 الشیخ الألباني نے اسے حسن کہا ہے)

اعتراض :

مردے کو قبر اس قدر دباتی ہے کہ اس کی دونوں پسلیاں آپس میں مل جاتی ہیں۔ لیکن قرآن میں تو سترگز لمبی زنجیر سے جکڑ کر انتہائی تنگ جگہ دوزخ میں ڈالے جانے کی بات بیان ہوئی ہے۔
(عذاب قبر : 29 )

جواب:

﴿ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ﴾ پھر اسے ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر ہاتھ کی ہے جکڑ دو۔(69-الحاقة:32)
اب فاضل صاحب خود ہی بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان کا یہ حشر برزخ میں ہوگا یا حشر میں؟
اگر برزخ میں ہے تو پھر بات ہی ختم۔ کیونکہ زنجیروں میں جکڑا جانا بھی عذاب ہے، لہذا اس سے عذاب قبر ثابت ہوا جس کے آپ منکر ہیں۔
اور اگر حشر میں ہے تو پھر بھی یہ عذاب قبر کے مخالف نہیں۔ پسلیوں کا ادھر ادھر ہونا قبر میں ہے، جبکہ زنجیروں میں جکڑا جانا حشر میں ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ زنجیروں میں جکڑا جانا دونوں مقامات میں ہو، تو اس صورت میں بھی قرآن اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں رہتا۔ویسے راجح یہی ہے کہ زنجیروں میں جکڑا جانا حشر کے دن ہے اور پسلیوں کا ادھر اُدھر ہونا قبر میں ہے۔

حدیث نمبر ⑥

وعن البراء بن عازب رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول ربي الله فيقولان له ما دينك فيقول ديني الإسلام فيقولان ما هذا الرجل الذى بعث فيكم فيقول هو رسول الله فيقولان له وما يدريك فيقول قرأت كتاب الله فآمنت به وصدقت فذلك قوله ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾ الآية قال فينادي مناد من السماء أن صدق عبدي فأفرشوه من الجنة وألبسوه من الجنة وافتحوا له بابا إلى الجنة ويفتح قال فيأتيه من روحها وطيبها ويفسح له فيها مد بصره وأما الكافر فذكر موته قال ويعاد روحه فى جسده ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان من ربك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان له ما دينك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان ما هذا الرجل الذى بعث فيكم فيقول هاه هاه لا أدري فينادي مناد من السماء أن كذب فافرشوه من النار وألبسوه من النار وافتحوا له بابا إلى النار قال فيأتيه من حرها وسمومها قال ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه زاد فى حديث جرير ثم يقيض له أعمى أصم معه مطرقة من حديد لو ضرب بها جبل لصار ترابا فيضربه بها ضربة يسمعها ما بين المشرق والمغرب إلا الثقلين فيصير ترابا ثم تعاد فيه الروح .
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، وہ اس کو بیٹھاتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے۔ (پھر) وہ اس سے دریافت کرتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے۔ (پھر) وہ دریافت کرتے ہیں یہ کون شخص تھا جو تم میں بھیجا گیا؟ وہ جواب دیتا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں۔ وہ اس سے دریافت کرتے ہیں تجھے کیسے معلوم ہوا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ اللہ کا قول کہ ”جو لوگ ایمان لائے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے“ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (پھر) آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے، جنت میں اس کا بستر بچھاؤ اور جنت کا (ہی) اسے لباس پہناؤ اور جنت کی جانب اس کا دروازہ کھول دو۔ چنانچہ (اس کے لیے) دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو جنت کی باد نسیم اور خوشبو پہنچتی ہے اور اس کی قبر (کی جگہ) تا حد نظر کشادہ کر دی جاتی ہے۔ اور کافر کی موت کا ذکر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، وہ میت کو بٹھا کر اس سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے ، میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ (پھر) اس سے دریافت کرتے ہیں جو شخص تم میں بھیجا گیا وہ کون تھا؟ وہ جواب دیتا ہے،میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ (اس پر) آسمان سے منادی آواز لگاتا ہے اس نے غلط بیانی کی ہے، اس کا آگ سے بستر تیار کرو، اس کو آگ کا لباس پہناؤ اور دوزخ کی جانب اس کا دروازہ کھول دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو آگ کی گرمی اور اس کی باد سموم پہنچے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس کی قبر اس پر تنگ ہو جائے گی یہاں تک کہ اس کی پسلیاں مختلف ہو جائیں گی۔ (جریر کی حدیث میں یہ اضافہ ہے) پھر اس پر اندھا بہرا فرشتہ مقرر کیا جائے گا جس کے پاس لوہے کا ہتھوڑا ہوگا، اگر اس کو کسی پہاڑ پر بھی مارا جائے تو پہاڑ مٹی بن جائے۔ چنانچہ وہ اس کو اس شدت کے ساتھ مارے گا کہ اس کی آواز انسانوں اور جنوں کے علاوہ مشرق مغرب میں موجود سب سنیں گے (اس سے) وہ مٹی بن جائے گا۔ پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے۔
(ابو داؤد، کتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، رقم: 4753)

اعتراض :

قبر یا برزخ میں منکر نکیر كا من ربك ( تیرا رب کون ہے ) من نبيك ( تیرانی کون ہے ) ما دينک ( تیرا دین کیا ہے ) کے سوالات کرنا اور ان کے صحیح یا غلط جوابات پر اس کو آخری ٹھکانا جنت یا دوزخ دکھایا جانا، خاص و عام کی زبان پر ہے جو ہر لحاظ سے غیر صحیح ہے کیوں کہ دنیا امتحان گاہ۔
اور مدت حیات ، وقت امتحان ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ﴾ ” اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ آپ کو موت آجاوے۔ “ (15-الحجر:99) سب کا مسلمہ ہے کہ سوال وجواب امتحان حال ہی میں اور دوران امتحان ہی لیے اور دیے جاتے ہیں جن کے مطابق نتیجہ نکلنے کی ایک تاریخ مقرر ہوتی ہے۔
(عذاب قبر : 30 )

جواب:

یاد رہے کہ اصل امتحان گاہ تو قبر اور برزخ ہی ہیں باقی دنیا کو جو امتحان گاہ کہا جاتا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے سکولوں کالجوں میں سالانہ امتحان سے قبل ٹیسٹ ہوتے ہیں۔
مثال: سکول میں جب بچہ داخل ہوتا ہے تو سارا سال امتحان کی تیاری کرتا ہے۔ تیاری کے لیے چھوٹے چھوٹے امتحان (ٹیسٹ) بھی دیتا ہے۔ اس کے بعد ایک وقت آتا ہے جب اس کا سالانہ امتحان ہوتا ہے۔ وہ امتحان میں وہی لکھتا ہے جس کی اس نے سارا سال تیاری کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر تیسرا مرحلہ آتا ہے جہاں رزلٹ آتا ہے، پاس ہونے والا خوش اور فیل ہونے والا پریشان ہوتا ہے۔ یہ تین مرحلے ہیں: پہلا مرحلہ سارا سال تیاری کا جس میں ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ امتحان دینے کا اور تیسرا مرحلہ نتیجہ بولنے کا۔ ایسے ہی دنیا کا معاملہ ہے جسے دارالعمل کہتے ہیں۔ ہر انسان اپنی اگلی زندگی کے لیے تیاری کرتا ہے، کوئی اچھی تیاری کرتا ہے اور کوئی بری۔
برزخ دارالامتحان ہے وہاں بندے کا امتحان ہوتا ہے۔جس میں پہلا سوال یہ ہوتا ہے: من ربك دوسرا سوال من نبيك، اور تیسرا سوال ما دينک ۔ اب ان سوالوں کے درست جواب وہی شخص دے سکتا ہے جس نے دار العمل میں تیاری اچھی کی تھی۔
دنیا میں امتحان کے بعد انسان کو اپنی کارکردگی کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ میں پاس ہوں گا یا فیل۔ اگر پیپر اچھے کیے ہوں گے تو وہ خوش رہتا ہے، بسا اوقات اسے پاس ہونے پر ملنے والے انعامات بھی دکھا دیے جاتے ہیں جس سے اس کی خوشی میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور یہی خوشی اس کے لیے راحت و لذت بنتی ہے۔ مگر جس نے پیپر اچھے نہیں دیے، اسے خود ہی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ میں فیل ہو جاؤں گا اسی وجہ سے وہ پریشان رہتا ہے اور یہی پریشانی اس کے لیے عذاب ہوتی ہے۔ ایسے ہی قبر میں سوال و جواب کے بعد کامیاب ہونے والے کو پہلے ہی سے پاس ہونے کی خوشخبری سنادی جاتی ہے اور ناکام ہونے والے کو فیل ہونے کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ کیونکہ وہاں کا یہی قانون ہے اور پھر جس طرح دنیا میں رزلٹ آنے سے پہلے ہی اچھے پیپر دینے والا ایک قسم کی راحت اور برے پیپر دینے والا ایک قسم کی سزا میں مبتلا رہتا ہے۔ ایسے ہی قبر میں بھی ہوتا ہے، اور روز محشر جب اصل نتیجہ بولے گا تو پاس ہونے والے کو دائیں ہاتھ میں رزلٹ کارڈ دے کر جنت میں اور فیل ہونے والے کے بائیں ہاتھ میں رزلٹ کارڈ دے کر جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔
﴿وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے