عذاب قبر کے اثبات پر 13 قرآنی آیات اور ان پر منکرین کے اعتراضات کے جوابات
یہ اقتباش شیخ محمد ارشد کمال کی کتاب عذاب قبر کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

عذاب قبر قرآنِ مجید کی روشنی میں

پہلی آیت

➊ ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ‎﴾
اور اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے۔
(2-البقرة:154)
اس آیت میں شہداء کی جس زندگی کا ذکر ہوا ہے یقیناً وہ برزخ ہی کی زندگی ہے اور برزخ ایک مستقل جہان ہے جو موت سے لے کر قیامت تک کے لیے ہے۔ برزخی زندگی ہر انسان کے لیے ہے، خواہ وہ شہید ہو یا غیر شہید۔
علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
إن الحياة فى البرزخ ثابتة لكل من يموت من شهيد أو غيره
یقیناً برزخی زندگی ہر مرنے والے کے لیے ثابت ہے، شہید ہو یا کوئی اور ہو۔
(تفسیر روح المعانی: 2/ 21)
امام قرطبی اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں: ويكون فيه دليل على عذاب القبر
اور اس آیت میں عذاب قبر پر بھی دلیل ہے۔
(تفسير القرطبی، جز : 2، ص: 168 )
یاد رہے کہ برزخی زندگی اپنی تمام صورت میں تو سب کے لیے ہے لیکن قرآن مجید نے شہداء کی تعظیم و تکریم کے لیے خصوصیت سے ان کو أحياء کہا ہے۔ سورۃ آل عمران میں فرمایا:
﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ. فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ. يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ.﴾
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں انھیں مردہ مت سمجھو، بلکہ وہ تو اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق دیے جاتے ہیں۔ اللہ نے اپنا فضل جو انھیں عطا کیا ہے وہ اس سے بہت خوش ہیں، اور ان لوگوں کی بابت بھی خوشیاں منا رہے ہیں جو اب تک ان سے نہیں ملے، ان کے پیچھے ہیں۔ یہ کہ نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ اللہ کی نعمت اور فضل سے خوش ہو رہے ہیں اور بے شک اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
(3-آل عمران:169-171)
یہاں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اپنے راستے میں شہید ہونے والوں کو زندہ کہا ہے اور ساتھ ہی انھیں ملنے والے انعامات کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ سب کچھ برزخ میں ہے، کیونکہ انھیں یہ نعمتیں مل رہی ہیں اور ظاہر ہے کہ ابھی قیامت نہیں آئی۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملے اور پوچھا: جابر! کیا بات ہے؟ میں تمھیں شکسہ خاطر دیکھ رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والد (جنگ احد میں) شہید ہو گئے اور قرض اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گئے۔ آپ نے فرمایا: کیا میں تمھیں یہ بشارت نہ دوں کہ اللہ تعالیٰ سے ان کی کیسے ملاقات ہوئی؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ضرور بتلائیے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی سے کلام نہیں کرتا مگر پردے کے پیچھے سے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر اس سے آمنے سامنے باتیں کیں اور پوچھا: ”کچھ آرزو کرو جو میں تمھیں عطا کروں۔“ تیرے باپ نے کہا: اے میرے رب! مجھے دوبارہ زندگی عطا کر دے، تاکہ میں دوسری مرتبہ تیری راہ میں شہید ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یہ بات طے ہو چکی ہے کہ لوگ دوبارہ دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے۔
راوی کہتا ہے یہ آیت اسی کے بارے میں نازل ہوئی۔
ترمذی، کتاب التفسير ، باب ومن سورة آل عمران، رقم: 3010 الشیخ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ہیں، ان کے لیے عرش الہی میں قندیلیں لٹکتی ہیں، یہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں، پھر ان قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں۔ ان کے رب نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا: کیا تمھیں کسی چیز کی خواہش ہے؟ تو انھوں نے کہا: ہمیں کسی چیز کی خواہش نہیں، ہم تو جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے تین بار یہی سوال کیا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ اب جواب دیے بغیر کوئی چارہ نہیں تو کہا: اے پروردگار! ہم یہ چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحیں واپس دنیا میں لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں پھر جہاد کریں اور پھر شہید ہوں۔
(مسلم، كتاب الامارة، باب في بيان ان ارواح الشهداء في الجنة وانهم احياء عند ربهم يرزقون، رقم: 1887)
شہداء کی اس زندگی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے لا تشعرون فرمایا ہے، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ تم شہداء کی اس حیات کو محسوس نہیں کر سکتے، اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کیسی ہے، اور نہ ہی تم اپنے حواس یعنی ناک، کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں کے ذریعے سے ان کا حال معلوم کر سکتے ہو، کیونکہ وہ تو اب برزخ کے معاملات میں سے ہے جبکہ برزخ کے معاملات کا علم وحی الہی کے بغیر ناممکن ہے۔
لا تشعرون برزخ کی حیات شعور میں آنے والی نہیں، اس لیے کہ جسم الگ ہے اور روح الگ ہے، اور بسا اوقات تو جسم کو پرندے اور درندے کھا جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اسے حیات کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انھیں وہاں رزق بھی دیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ہمارے شعور سے باہر ہے۔
معلوم ہوا کہ عالم برزخ ہماری عقل و شعور میں نہیں آ سکتا۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہی بتا دی ہے۔ اب خواہ مخواہ اس کی کیفیت جاننے کی کوشش کرنا اور یہ کہنا کہ یہ حیات عقل میں نہیں آتی، کم از کم کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔
﴿بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ﴾ کے شہداء کو مردہ مت کہو، کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، لیکن وہ زندگی ایسی ہے جس کا ہم شعور نہیں پا سکتے، مگر شعور نہ پانے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثابت شدہ حقائق تو نہیں بدل سکتے۔
سورۃ آل عمران کی مذکورہ بالا آیات میں شہداء کی اسی برزخی زندگی اور انھیں وہاں ملنے والی نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد آخر میں فرمایا: ﴿وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ اور اللہ تعالیٰ یقیناً مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا، یعنی جس طرح شہداء پر اللہ تعالیٰ نے عالم برزخ میں اپنی نعمتیں نازل کی ہیں، ان کے اجر و ثواب کو ضائع نہیں کیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر مومن کو برزخ میں اپنی نعمتوں سے نوازے گا اور ان کے اجر کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔
یہاں أجر المؤمنين کے الفاظ بھی قابل غور ہیں:
اولاً: اللہ تعالیٰ نے یہاں أجر الشهداء یا أجر المقتولين نہیں فرمایا۔
ثانیاً: المؤمنين پر الف لام استغراق کا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کسی بھی مومن کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا۔ وہ شہید ہو یا غیر شہید۔
جس طرح شہداء اور عام مومنوں کو برزخ میں اجر و ثواب ملے گا، اس کے برعکس کافروں، فاجروں، منکرین قرآن و سنت کو قبر میں عذاب بھی ہوگا۔

دوسری آیت:

② ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ‎﴾
اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں قول ثابت (کلمہ طیبہ) پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے، اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
(14-إبراهيم:27)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کلمہ طیبہ پر ایمان والوں کو اس دنیا میں بھی ہر طرح کی آزمائشوں میں ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت کی بھی ہر مشکل گھڑی میں انھیں ثابت قدمی نصیب فرمائے گا۔ ان شاء اللہ
تمام مفسرین، محدثین اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ خود صاحب قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی منقول ہے۔ چنانچہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إذا أقعد المؤمن فى قبره أتي ثم شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فذلك قوله يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت
مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں، پھر وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ تو یہی مطلب ہے ( اللہ تعالیٰ کے) قول ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ .. مَا يَشَاءُ﴾ کا۔
(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فى عذاب القبر، رقم: 1369)
امام محمد بن بشار رحمہ اللہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: يثبت الله الذين آمنوا نزلت فى عذاب القبر کہ یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(ايضاً )
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے:
المسلم إذا سئل فى القبر يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فذلك قوله يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت
مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوگا تو وہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد يثبت الله الذين آمنوا کا یہی مطلب ہے۔
( بخاری، کتاب التفسير ، باب قوله يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت، رقم: 4699 )
امام الربيع رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ بے شک یہ امت ( محمد یہ ) بھی اپنی قبروں میں سوال کی جائے گی ، پھر اللہ تعالٰی مومن کو اس کی قبر میں سوالات کے وقت ثابت قدم رکھے گا۔
(تفسير الطبری، جز: 13، ص : 252 )
امام قتادہ رحمہ اللہ اور مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے۔
(ايضاً )
القول الثابت سے مراد کلمہ طیبہ ہے۔ الحياة الدنيا سے مراد یہی دنیا کی زندگی ہے جو آج ہم بسر کر رہے ہیں۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو آنے والی آزمائشوں میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ وفي الآخرة سے مراد وہ زندگی ہے جو مرنے کے بعد شروع ہوگی۔ جیسا کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن بندے کی موت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وإن العبد المؤمن إذا كان فى انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة بے شک مومن بندہ جب دنیا سے کوچ کرنے لگتا ہے اور آخرت کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ (الحدیث)
(مسند احمد: 4 / 288 )
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
فجمع الله ريقي وريقه فى آخر يوم من الدنيا وأول يوم من الآخرة
پس اللہ نے میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے دن جمع کر دیا۔
(بخارى، كتاب المغازی، باب مرض النبي علل ووفاته، رقم: 4451)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بیوی، جس کا نام صفیہ بنت ابی عبید تھا، وہ اپنے کھیتوں میں رہا کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنی موت کو قریب دیکھ کر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پیغام بھیجا جس میں یہ لکھا ہوا تھا: إني فى آخر يوم من أيام الدنيا وأول يوم من الآخرة بے شک میں ایام دنیا کے آخری دن میں ہوں اور آخرت کے پہلے دن میں ہوں۔
نسائی، کتاب المواقيت باب الوقت الذي يجمع فيه المسافر بين الظهر والعصر، رقم: 88 الشیخ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
ان تمام احادیث میں موت کے بعد آنی والی زندگی کو آخرت کہا گیا ہے۔
ڈاکٹر ابو جابر عبد اللہ دامانوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ان تمام احادیث سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں موت کے بعد کے لیے آخرت کا نام ایک جانی پہچانی حقیقت تھی۔ قرآن و حدیث میں مرنے کے بعد کے لیے اور قیامت کے دن کے لیے آخرت کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ البتہ بعض اہل علم نے مرنے کے بعد سے قیامت تک کے احوال کے لیے برزخی زندگی اور عالم برزخ کی اصطلاح ایجاد کی ہے تاکہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کے وقفہ اور قیامت کے دن دونوں میں فرق واضح ہو جائے۔ ورنہ مرنے کے بعد کے لیے آخرت کی اصطلاح ہی استع مال کرنا زیادہ درست ہے۔
(عقيده عذاب قبر، ص : 43)
معلوم ہوا کہ آخرت سے مراد صرف قیامت ہی نہیں بلکہ عالم برزخ بھی آخرت ہی کا ایک حصہ ہے۔ بلکہ آخرت کی گھاٹیوں میں سے پہلی گھاٹی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:
إن القبر أول منزل من منازل الآخرة
بے شک قبر آخرت کی گھاٹیوں میں سے پہلی گھاٹی ہے۔
ترمذی، کتاب الزهد، باب، رقم: 2308 الشیخ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ في الآخرة کے متعلق رقمطراز ہیں:
آخرت سے مراد عالم برزخ ہے اور قرائن بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قیامت میں قول ثابت پر قائم رہنا کون سی بڑی بات ہوگی جبکہ ہر چیز اس وقت واضح اور نمایاں ہوگی۔ اس لیے اس آیت میں آخرت سے عالم برزخ کے سوا اور کچھ مراد نہیں ہو سکتا، اور حدیث میں تصریحاً بیان ہے کہ قبر یعنی برزخ آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل ہے۔
(سيرة النبيﷺ از شبلی نعمانی: 343/4 حذیفه اکیڈمی )
اب جب یہ ثابت ہو گیا کہ عالم برزخ بھی آخرت ہی کا حصہ ہے تو پھر حق تو یہ تھا کہ اس آیت پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ کیا جاتا اور اس آیت کو عذاب قبر کے متعلق نص صریح تسلیم کر لیا جاتا۔ مگر منکرین عذاب قبر نے اس آیت پر طرح طرح کے اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ ذیل میں ہم دور جدید کے منکرین عذاب قبر کے سرخیل فاضل صاحب کے 36 صفحات پر مشتمل رسالہ ”عذاب قبر“ میں اس آیت پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اعتراض ① : اس آیت میں دنیا اور آخرت میں ثابت قدمی کا ذکر ہے۔ برزخ میں ثابت قدمی کا ذکر نہیں۔ لہٰذا برزخ میں ثابت قدمی کیسے مراد لی جا سکتی ہے؟
جواب: گزشتہ سطور میں ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ عالم برزخ پر بھی لفظ آخرت کا اطلاق ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی آخرت ہی کا حصہ ہے اور آخرت کی گھاٹیوں میں سب سے پہلی گھاٹی ہے۔
دوسری بات یہ کہ عدم ذکر سے عدم شی لازم نہیں آتی۔ قرآن مجید نے برزخ میں ثابت قدمی کی کب نفی کی ہے؟
اعتراض ② : برزخ عارضی اور عبوری ہے اور آخرت حقیقی و ابدی ہے۔ دونوں ایک نہیں ہو سکتے۔
جواب: ہم کون سا یہ کہتے ہیں کہ آخرت کا اطلاق صرف برزخ ہی پر ہوتا ہے، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ برزخ بھی آخرت ہی کا حصہ ہے۔ اسے آخرت کا مقدمہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
اگر آپ برزخ اور آخرت دونوں کو ایک نہیں مانتے لازماً آپ نے فرق ہی کرنا ہے، تو کریں۔ مرنے کے بعد سے قیامت تک کے احوال کو عالم برزخ کا لفظ دیں۔ لیکن کیا آپ کے اس فرق سے عالم برزخ عالم آخرت سے خارج ہو جائے گا؟
جو شخص مر گیا وہ اپنے سفر آخرت پر نہیں چلا جاتا؟ غور کریں جو آدمی کراچی جا رہا ہو، ابھی وہ کراچی نہیں پہنچا، راستے میں ہی ہے، کیا اس کے گھر والے یہ نہیں کہتے کہ وہ کراچی چلا گیا ہے؟
اگر کسی مومن کو عارضی اور عبوری جگہ میں ثابت قدمی کی ضرورت پڑ جائے تو کیا وہاں اسے ثابت قدمی نہیں مل سکتی؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اس کی وجہ بتائیں۔
کیا یہ فانی دنیا آخرت کے مقابلے میں عارضی نہیں؟ جس کے لیے في الحياة الدنيا یعنی دنیا میں ثابت قدمی کا ذکر ہے۔
یاد رہے کہ عالم برزخ کے مقابلے میں عالم دنیا کچھ بھی نہیں۔ اگر عالم دنیا میں ثابت قدمی کی ضرورت پڑ سکتی ہے تو عالم برزخ جو کہ اس کے مقابلے میں بڑا اور لمبا جہان ہے، وہاں اس کی ضرورت کیوں نہیں پڑ سکتی؟ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میت کو دفن کر کے فارغ ہو جاتے تو قبر پر کھڑے ہو کر فرماتے: استغفروا لأخيكم ثم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسأل اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کے لیے بھی دعا کرو، کیونکہ اب وہ سوال کیا جا رہا ہے۔
ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت الانصراف، رقم: 3221 الشیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

تیسری آیت:

➌ ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
جس کسی نے بھی نیک عمل کیا، مرد ہو یا عورت، لیکن وہ مومن ہو تو اسے ہم یقیناً نہایت پاکیزہ زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں ضرور دیں گے۔
(16-النحل:97)
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جس کسی نے بھی اچھے اعمال کیے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہو تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہم اسے حیات طیبہ بھی دیں گے اور اچھے اعمال کا بدلہ بھی۔
ایک جگہ نحيين اور دوسری جگہ نجزين فرمایا۔ نحيي اور نجزي دونوں مضارع کے صیغے ہیں، مضارع حال اور مستقبل دونوں کے لیے آتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ حیات طیبہ اور اچھے اعمال کا بدلہ کہاں ملے گا؟ دنیا، برزخ یا قیامت کو؟ ظاہر ہے کہ یہاں کسی خاص عالم کا ذکر نہیں ہوا بلکہ مطلق ارشاد ہے۔ تو اگر گرائمر کی رو سے بھی ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں میں مومنوں کو حیات طیبہ اور جزائے حسنہ عطا کرے گا۔ حال یعنی دنیا، اور مستقبل یعنی برزخ اور قیامت جسے آخرت سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی تمام جہانوں میں حیات طیبہ اور جزائے حسنہ ملے گی۔
دنیا میں حیات طیبہ سے مراد پاک زندگی میں حلال روزی، قناعت، سچی عزت، سکون، اطمینان، دل کی تونگری، اللہ کی محبت اور لذت سبھی چیزیں شامل ہیں۔ مطلب یہ کہ ایمان اور عمل صالح سے اخروی زندگی ہی نہیں بلکہ دنیوی زندگی بھی نہایت سکھ اور چین سے گزرے گی۔
(اشرف الحواشي، ص: 334، حاشیه: 10)
آخرت میں حیات طیبہ کیسی ہوگی؟ اس کی اصل حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہے۔ البتہ یہ بات اٹل ہے کہ وہ اس دنیا کی زندگی سے بہتر ہوگی۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
بہر حال مومن قانت کی پاک اور مزے دار زندگی یہیں سے شروع ہو جاتی ہے۔ قبر میں پہنچ کر اس کا رنگ اور زیادہ نکھر جاتا ہے۔ آخر انتہا اس حیات طیبہ پر ہوتی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے: حيات بلا موت، وغنى بلا فقر، وصحة بلا سقم، وملك بلا هلك وسعادة بلا شقاوة
(تفسیر عثمانی ص: 368، حاشيه : 4 )
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حیات طیبہ روح اور جسم دونوں کو ملتی ہے۔ کیونکہ آیت ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ۔۔﴾ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حیات طیبہ عمل صالح کرنے والوں کو ملتی ہے اور عمل صالح جسم اور روح دونوں مل کر کرتے ہیں۔ لہٰذا حیات طیبہ میں بھی جسم و روح کا شریک ہوتا ہے۔

چوتھی آیت:

➍ ﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾
اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم مرگ کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا کر یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ، نکالو اپنی جانیں۔ آج تمھیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس وجہ سے کہ تم اللہ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ کی آیات سے تکبر کرتے تھے۔
(6-الأنعام:93)
علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رقمطراز ہیں:
وفي هذا دليل على عذاب القبر ونعيمه
اور اس (آیت) میں عذاب قبر اور اس (میں ملنے والی) نعمتوں پر دلیل ہے۔
(تفسير السعيدي)
علامہ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ”احوال القبور واحوال اھلھا الی النشور“ میں اثبات عذاب قبر کے لیے اس آیت کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ ایسے طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی ”کتاب الروح“ میں اس آیت کو عذاب قبر کی دلیل قرار دیا ہے۔
فرشتے جب ظالموں کی روح قبض کرتے ہیں تو انھیں کہتے ہیں کہ تم اپنی جانیں نکال کر ہمارے حوالے کرو۔ فرشتوں کا یہ خطاب بطور زجر و توبیخ کے ہے، ورنہ کسی انسان کے بس میں یہ کہاں کہ وہ خود بخود اپنی جان نکال کر فرشتوں کے حوالے کرے اور پھر بالخصوص کافر اور ظالم لوگ؟
دوسری بات فرشتے یہ کہتے ہیں کہ آج کے دن تمھیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو ظالموں کے لیے آخرت میں ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ابھی سے اس کی ابتدا ہو رہی ہے۔ کیونکہ اب تم آخرت کی طرف روانہ ہو چکے ہو۔
یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جزا و سزا کا سلسلہ مرتے ہی شروع ہو جاتا ہے، فرشتے جب روح قبض کر رہے ہوتے ہیں اسی وقت سے آخرت کا عذاب شروع ہو جاتا ہے۔
سورۃ الانفال میں ہے: ﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ﴾
اور اگر تو دیکھے کہ جس وقت فرشتے کافروں (کی روحوں) کو قبض کرتے ہیں ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مار مارتے ہیں اور( کہتے ہیں) تم جلنے کا مزہ چکھو۔
(8-الأنفال:50)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:
بعض مفسرین نے اسے جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کی بابت قرار دیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کی طرف آتے تو مسلمان ان کے چہروں پر تلواریں مارتے، جس سے بچنے کے لیے وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو فرشتے ان کی پشتوں پر تلواریں مارتے۔ لیکن یہ آیت عام ہے جو ہر کافر اور مشرک کو شامل ہے، اور مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے ان کے منہوں اور پشت پر مارتے ہیں۔
(تفسیر احسن البیان، ص: 239، حاشیه : 4 )
سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ کا ایسا ہی ایک اور ارشاد بھی ہے:
﴿فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ﴾
کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی جان قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مار ماریں گے۔
(47-محمد:27)
مولانا عبد الرحمن رحمہ اللہ ان آیات کے متعلق فرماتے ہیں:
تفسیری اختلاف اپنی جگہ پر، تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قبض روح کے ساتھ اللہ کے نافرمان عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ میت کا جسم خواہ آگ میں جلا کر راکھ کر دیا جائے اور اس راکھ کو ہوا میں اڑا دیا جائے یا سمندر میں بہا دیا جائے۔ لیکن عالم برزخ، قبر کی کلفت اور راحت میت کے اپنے اعمال کے مطابق اس کی روح اور جسم کو ضرور دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو بغیر اسباب کے انسان کو بنا سکتا ہے تو بنائے ہوئے انسان کو مار دینا، اس کی موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنا، جسم کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر لینا اور اس کے اجزاء بدن جہاں کہیں بھی منتشر ہوں انھیں روح کے ساتھ قیامت سے پہلے عالم برزخ میں تکلیف و آرام میں مبتلا کرنا اس کے لیے کیا مشکل ہے؟
(عالم برزخ، ص: 110، 111)
تفسیر اشرف الحواشی میں ہے کہ آج سے مراد وہ دن ہے جس میں ان پر عذاب قبر کی ابتدا ہوگی، اس آیت میں عذاب قبر کی طرف صاف اشارہ ہے۔
(اشرف الحواشي، ص: 168، حاشیه : 4 )
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
اليوم آج سے مراد قبض روح کا دن ہے اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبدأ قبر ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آج تمھیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے یعنی دنیا کی زندگی کے بعد اور آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیانی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے۔ چاہے اسے کسی درندے نے کھا لیا ہو یا اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہو گئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو، یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔
(تفسیر احسن البیان، ص: 181، حاشیه : 5)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اليوم مرنے کے وقت سے غیر متناہی مدت تک۔
(تفسیر مظهری: 188/4 ، ایچ ایم سعید کمپنی)
اعتراض ① : محمد فاضل صاحب اس آیت پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لفظ اليوم سے وفات کا دن مراد لے کر اس کو عذاب قبر کے ثبوت میں پیش کرنا صحیح نہیں، کیونکہ اليوم کا لفظ قیامت اور حشر کے لیے متعدد جگہ استعمال ہوا ہے، مثلاً سورت الحاقة (35)، المعارج( 44)، المرسلات (13 ، 14، 35)، النباء: (17 ، 18، 35، 38، 40)، النازعات:( 35، 46)، عبس : (34) میں تو بالخصوص قیامت اور حشر ہی کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اليوم کی وضاحت يوم الفصل، يوم التغابن، يوم العظيم، يوم الدين، يوم الحساب کے ذریعے قرآن میں موجود ہے، چناں چہ اسی دن سے ڈرایا گیا ہے۔ [ مریم : 39، انفطار : 15، 19،18،17] اليوم سے حشر کا دن مراد لینے میں کوئی اشکال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ حشر کے دن فیصلے کے بعد ہی جزا دینے کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان وضاحتوں کی موجودگی میں اليوم سے قبر یا برزخ مراد لینا تاویل نہیں بلکہ تحریف ہے۔
(عذاب قبر، ص: 18)
جواب: پہلی بات تو یہ کہ آپ نے جن سورتوں کے حوالے دیے ہیں ان میں سے المرسلات آیت (13، 14 ،35) سورۃ النباء آیت( 17، 40،18) اور سورۃ عبس آیت( 34) میں اليوم نہیں بلکہ يوم کا لفظ ہے۔ الف لام کے بغیر۔ لفظ يوم کو اليوم بنا دینا یہ صرف آپ ہی کا کمال ہے۔ يوم الفصل ، يوم التغابن ، يوم العظيم ، يوم الدين اور يوم الحساب ہماری بحث سے خارج ہیں۔ بات صرف لفظ اليوم کی ہے۔
یاد رہے کہ اليوم سے حشر کا دن صرف وہاں مراد ہوتا ہے جہاں کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جو یہ بتائے کہ یہاں اليوم سے مراد قیامت کا دن ہے۔ جیسا کہ سورت المعارج آیت 44 اور النباء آیت 39 میں قرینہ موجود ہے جو اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ یہاں اليوم سے مراد قیامت ہی کا دن ہے۔
مگر جہاں کوئی ایسا قرینہ نہ پایا جائے تو وہاں اليوم سے وہی دن مراد ہوگا جس کی بات ہو رہی ہے۔
اگر ہمارے بیان کردہ جواب کو آپ تسلیم نہیں کرتے تو پھر ذرا بتائیں کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی اليوم کا لفظ آیا ہے کیا اس سے مراد صرف حشر اور قیامت ہی کا دن ہے؟
ہر جگہ اليوم سے قیامت کا دن مراد لینا سراسر جہالت ہے۔ مثلاً:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا، اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا، اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔
(5-المائدة:3)
فاضل صاحب اور ان کے ہموا بتائیں ! کیا یہاں اليوم سے مراد قیامت کا دن ہے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر مطلب یہ ہوا کہ تمہارا دین اسلام اب نا مکمل اور ناقص ہے، قیامت کے دن ہی مکمل ہوگا۔فيا للعجب قیامت کے دن مکمل کرنے کا کیا فائدہ۔
اور اگر جواب نفی میں ہے تو ماننا پڑے گا کہ سورۃ المائدہ میں اليوم سے مراد دنیا سے رخصت ہونے کا دن ہے۔
ایسے ہی ایک اور مثال: ﴿الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ﴾ (المائدة:5) آج کے دن پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں۔
بتائیے کہ یہاں اليوم سے کون سا دن مراد ہے؟
معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں جہاں اليوم سے مراد قیامت کا دن ہے وہاں اس کے ساتھ کوئی قرینہ موجود ہے۔ لیکن جہاں اليوم کا لفظ مطلق ہو وہاں اس کا معنی آج کا دن (جس دن کی بات ہو رہی ہو) ہے۔
دوسری بات یہ کہ اگر یہاں اليوم تجزون عذاب… سے مراد قیامت ہی کا دن ہو تو پھر اسے جان کنی کے وقت ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ثم يوم القيامة تجزون عذاب الهون ہونا چاہیے تھا۔
اعتراض ② : عذاب الهون کے الفاظ سورۃ الأحقاف آیت( 20) اور سورۃ الجاثية آیت (9) میں دوزخ ہی کے عذاب کے لیے آئے ہیں، البتہ سورۃ حم السجدۃ کی آیت (7) امیں عذاب الهون کے الفاظ دنیا کے عذاب کے لیے آئے ہیں، لیکن عذاب قبر یا برزخ کے لیے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہیں، مندرجہ بالا سے واضح ہو جاتا ہے کہ عذاب قبر یا برزخ کی تائید میں یہ آیت پیش نہیں کی جاسکتی۔
(عذاب قبر : 18)
جواب: فاضل صاحب کے اعتراض سے معلوم ہوا کہ عذاب الهون دنیا میں بھی ہو سکتا ہے اور قیامت کو بھی ہو سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ برزخ میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ آپ نے کہا کہ عذاب الهون کے الفاظ دنیا کے عذاب کے لیے ہیں لیکن قبر یا برزخ کے لیے قرآن میں کہیں بھی نہیں، ذرا بتلائیے! کہ کیا عدم ذکر سے عدم شی لازم آتی ہے؟
سورۃ الأحقاف میں اليوم تجزون عذاب الهون سے مراد عذاب آخرت ہے کیونکہ کلام کا سیاق و سباق اس بات پر دلالت کر رہا ہے۔ سورۃ حم السجدہ میں عذاب الهون سے مراد دنیا کا عذاب ہے اس پر بھی سیاق کلام کی دلالت ہے۔ بالکل اسی طرح یہاں بھی کلام کا سیاق و سباق یہ بتا رہا ہے کہ اليوم تجزون عذاب الهون کو جان کنی کے وقت ذکر کرنے کا مطلب یہی ہے کہ آج کے دن ہی سے رسوا کن عذاب شروع ہو رہا ہے جس کی ہلکی سی جھلک سورۃ الانفال آیت( 50) اور سورہ محمد آیت (27) میں بیان کر دی گئی ہے۔

پانچویں آیت:

➎ ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ.‏ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ .‏ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ.﴾
بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر (اس بات پر) قائم رہے۔ ان کے پاس فرشتے آتے ہیں (اور کہتے ہیں) خوف نہ کھاؤ اور نہ ہی غم کرو بلکہ اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیے گئے ہو۔ ہم تمہارے دوست تھے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی (رہیں گے)، اور تمہارے لیے اس (جنت )میں( وہ سب کچھ ہے) جو تمہارے دل چاہیں گے اور جو تم مانگو گے (یہ سب کچھ بطور تمہاری) مہمان نوازی ہے اللہ بخشنے والے مہربان کی طرف سے۔
(41-فصلت:30 تا 32)
ان آیات میں مستقیم الحال لوگوں کے لیے فرشتوں کے نزول اور ان کی طرف سے ملنے والی خوشخبریوں کا ذکر ہے۔ یہ خوشخبریاں کہاں ملتی ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: في الحياة الدنيا وفي الآخرة دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی۔ آخرت کہ جس کی ابتدا موت کی آخری سانس سے ہوتی ہے جس میں عالم برزخ اور عالم حشر دونوں شامل ہیں جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم ثابت کر آئے ہیں کہ عالم برزخ بھی عالم آخرت ہی کا حصہ ہے۔ تینوں جہانوں (دنیا، برزخ، حشر) میں فرشتوں کی طرف سے یہ بشارتیں ملتی ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقال زيد بن أسلم يبشرونه عند موته وفي قبره وحين يبعث… وهذا القول يجمع الأقوال كلها وهو حسن جدا وهو الواقع
زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ ملائکہ مستقیم الحال لوگوں کو موت کے وقت اور قبر میں اور قبر سے اٹھتے وقت (فرشتے) خوشخبریاں سناتے ہیں اور یہ قول تمام اقوال کو جامع ہے اور بہت ہی اچھا ہے اور واقع اور حقیقت کے مطابق ہے۔
(تفسير ابن كثير : 479/5 دار الكتب )
امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تین مقامات پر بشارت ملے گی: مرتے وقت، قبر کے اندر اور قبر سے اٹھتے وقت۔
(تفسير القرطبی، جز 25، ص: 313 )
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ایسے مستقیم الحال بندوں پر موت کے قریب اور قبر میں پہنچ کر اور اس کے بعد قبروں سے اٹھنے کے وقت اللہ کے فرشتے اترتے ہیں جو تسلی دیتے ہیں اور جنت کی بشارتیں سناتے ہیں۔ کہتے ہیں اب تم کو ڈرنے اور گھبرانے کا کوئی موقع نہیں رہا۔
(تفسیر عثمانی، ص: 638 ، حاشیه : 4)
سید احمد حسن محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
مسند امام احمد اور ابوداؤد کے حوالے سے براء بن عازب (رضی اللہ عنہ) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ نیک لوگوں کی قبض روح کے وقت رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور نیک لوگوں کو اللہ کی رضا مندی اور مغفرت کی خوشخبری سناتے ہیں۔ مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح روایت ہے کہ قبر کے سوال و جواب کے بعد اللہ کے فرشتے نیک لوگوں کو ان کا جنت کا ٹھکانا دکھا کر یہ خوشخبری سنا دیتے ہیں کہ قیامت کے دن اسی ٹھکانے میں رہنے اور بسنے کے لیے تم کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ ان آیات میں نیک لوگوں کے پاس فرشتوں کے اترنے کا جو ذکر ہے یہ حدیثیں اس کی گویا تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ قبض روح کے وقت اور قبر میں دفن کرنے کے بعد اللہ کے فرشتے نیک لوگوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو طرح طرح کی خوشخبری سنا کر جنت کا ٹھکانا بھی ان کو دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں تمہاری زندگی میں بھی تمہارے نیک عمل لکھنے کے لیے اللہ کے فرشتے تمہارے رفیق تھے اور اب بھی تمہارے رفیق ہیں اور جنت کا ٹھکانا تمہیں دکھاتے ہیں جس میں اللہ غفور الرحیم نے مہمانوں کی خاطر داری کی طرح تمہارے لیے سب کچھ تیار کر رکھا ہے۔
(احسن التفاسير : 131/6، 132 )
سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ ألا تخافوا ولا تحزنوا کے متعلق فرماتے ہیں: یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہل ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں ۔۔ خواہ کتنی ہی بالادست اور چیرہ دست ہوں ان سے ہرگز خوفزدہ نہ ہوں اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں تمہیں سہنی پڑیں ان پر کوئی رنج نہ کرو۔ کیونکہ آگے تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت بیکار ہے۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو وہاں تمہارے لیے کسی خوف کا مقام نہیں ہے کیونکہ وہاں جنت تمہاری منتظر ہے اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے تمہیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں ہم تمہارے ولی و رفیق ہیں۔ عالم برزخ اور میدان محشر میں جب فرشتے یہی کلمات کہیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہاں تمہارے لیے چین ہی چین ہے، دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا غم نہ کرو اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کا خوف نہ کھاؤ اس لیے کہ ہم تمہیں اس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔
(تفهيم القرآن: 6/4-455 )

چھٹی آیت:

➏ ﴿الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ .‏ فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ . وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ ۚ قَالُوا خَيْرًا ۗ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ. جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْزِي اللَّهُ الْمُتَّقِينَ . الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ.﴾
وہ لوگ جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے فرشتے جب ان کی روح قبض کرنے لگے اس وقت انھوں نے صلح کی بات ڈالی کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے۔ کیوں نہیں! اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے جو کچھ تم کرتے تھے۔ پس اب تو ہمیشگی کے طور پر تم جہنم کے دروازوں سے (جہنم میں داخل ہو جاؤ) پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا۔ اور پرہیزگاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اچھے سے اچھا۔ جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور یقیناً آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے اور کیا ہی خوب پرہیزگاروں کا گھر ہے۔ ہمیشگی والے باغات جہاں وہ جائیں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں جو کچھ یہ طلب کریں گے وہاں ان کے لیے موجود ہوگا۔ پرہیزگاروں کو اللہ تعالیٰ اسی طرح بدلے عطا کرتا ہے۔ وہ جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں، کہتے ہیں کہ تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔ جاؤ! جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے۔
(16-النحل:28 تا 32)
سورۃ النحل کی یہ پانچ آیات ہیں۔ سب سے پہلے آیت نمبر 28 ہے جس میں کافروں کی موت کا تذکرہ ہوا ہے کہ جب فرشتے ان کی روحوں کو قبض کرتے ہیں تو وہ صلح کی بات ڈالتے ہیں یعنی بڑی عاجزی و انکساری کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم تو برائی نہیں کرتے تھے، فرشتے جواباً کہتے ہیں کہ تم برائی کیسے نہیں کرتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تو وہ سب کچھ ہے جو تم ظلم و زیادتیاں کیا کرتے تھے۔
آیت نمبر 29 میں کافروں کو مرنے سے پہلے ہی عذاب کی وعید سنانے کا ذکر ہے یعنی اسی وقت فرشتے انھیں جہنم کے عذاب کی وعید سنا دیتے ہیں۔
آیت نمبر 30 اور 31 میں پرہیزگاروں کا ذکر ہوا ہے کہ انھیں اس دنیا میں ہی بتا دیا جاتا ہے کہ آخرت کا گھر بہتر ہے اور پرہیزگاروں کے لیے ہی ہے، آخرت کا گھر کیا ہی اچھا گھر ہے کہ جن میں ہر طرف باغات ہیں نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔
آیت نمبر 32 میں فرشتوں کا موت کے وقت پرہیزگاروں کے پاس آنے اور انھیں اس دنیا میں ہی جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری دینے کا ذکر ہے۔

حاصل کلام

یہ کہ فرشتے انسان کو مرتے وقت ہی سے اس کے انجام سے آگاہ کر دیتے ہیں، بدکاروں کو ﴿فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ﴾ اور پرہیزگاروں کو ﴿ادْخُلُوا الْجَنَّةَ﴾ کہتے ہیں اور پھر عذاب و ثواب بھی مرنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ آیت نمبر 28 اور 29 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مرتے ہی ان کی روحیں جہنم رسید ہوئیں اور جسموں پر قبر میں جہنم کی گرمی اور اس کی لپک آنے لگی، قیامت کے دن روحیں جسموں سے مل کر نار جہنم میں گئیں اب نہ موت نہ تخفیف۔
(تفسير ابن كثير اردو: 3/ 138 قدوسیه)
امام قرطبی رحمہ اللہ ﴿فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اى يقال لهم ذلك عند الموت، وقيل هو بشارة لهم بعذاب القبر اذهو باب من ابواب جهنم للكافرين
یعنی یہ بات انھیں موت کے وقت کہی جائے گی اور کہا گیا ہے کہ یہ ان کے لیے عذاب قبر کی بشارت ہے کیونکہ قبر بھی جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے کفار کے لیے۔
(تفسير القرطبی، جز 10 ، ص: 91)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ ان کی موت کے فوراً بعد ان کی روحیں جہنم میں چلی جاتی ہیں اور ان کے جسم قبر میں رہتے ہیں (جہاں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جسم و روح میں بعد کے باوجود ان میں ایک گونہ تعلق پیدا کر کے (روح اور جسم کے تعلق والی بات حافظ صاحب کی ہے، میرا متفق ہونا ضروری نہیں۔) [مصنف ] ان کو عذاب دیتا ہے اور صبح و شام ان پر آگ پیش کی جاتی ہے) پھر جب قیامت برپا ہوگی تو ان کی روحیں ان کے جسموں میں لوٹ آئیں گی اور ہمیشہ کے لیے یہ جہنم میں داخل کر دیے جائیں گے۔
(تفسیر احسن البیان، ص: 352، حاشیه : 5 )

انسان کو موت کے وقت ہی سے اس کے اچھے یا برے انجام سے آگاہ کر دیا جاتا ہے

ذیل میں اسی سلسلے کی چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو موت کے وقت ہی سے اس کے اچھے یا برے انجام سے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔

حدیث نمبر ①

عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل صالحا قالوا: أخرجي أيتها النفس الطيبة كانت فى الجسد الطيب أخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها فيقال من هذا فيقولون فلان فيقال مرحبا بالنفس الطيبة كانت فى الجسد الطيب ادخلي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السماء التى فيها الله عز وجل وإذا كان الرجل السوء قال أخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت فى الجسد الخبيث أخرجي ذميمة وأبشري بحميم وغساق وآخر من شكله أزواج فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج إلى السماء فلا يفتح لها فيقال من هذا فيقال فلان فيقال لا مرحبا بالنفس الخبيثة كانت فى الجسد الخبيث ارجعي ذميمة فإنها لا تفتح لك أبواب السماء فيرسل بها من السماء ثم تصير إلى القبر
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرشتے روح قبض کرنے کے لیے جب مرنے والے کے پاس آتے ہیں تو نیک اور صالح ہونے کی صورت میں فرشتے کہتے ہیں: ”اے پاک روح! تو پاک جسم میں تھی اب تو جسم سے نکل آ تو تعریف کے لائق ہے، اللہ کی رحمت سے خوش ہو جا، تیرے لیے جنت کی نعمتیں ہیں، تیرا رب تجھ سے راضی ہے۔ فرشتے مرنے والے کو مسلسل ایسے ہی کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ روح جسم سے نکل آتی ہے، پھر جب روح نکل آتی ہے تو فرشتے اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں، آسمان کے دروازے اس کے لیے کھولے جاتے ہیں اور پوچھا جاتا ہے یہ کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں یہ فلان آدمی ہے۔ جواب میں کہا جاتا ہے اس پاک روح کے لیے خوش آمدید ہے( دنیا میں) یہ پاک جسم میں تھی، (اے پاک روح آسمان کے دروازے میں) خوشی خوشی داخل ہو جا، تیرے لیے اللہ کی رحمت کی بشارت ہے، جنت کی نعمتوں سے خوش ہو جا اور راضی ہونے والے رب (سے ملاقات) کی تجھے مبارک ہو۔ ہر آسمان کے دروازے سے گزرتے ہوئے اسے مسلسل یہی خوشخبریاں دی جاتی ہیں حتیٰ کہ وہ روح عرش تک پہنچ جاتی ہے۔ مرنے والا اگر برا آدمی ہو تو فرشتے کہتے ہیں: اے خبیث روح! نکل اس جسم سے تو خبیث جسم میں تھی نکل اس جسم سے ذلیل ہو کر اور بشارت ہو تجھے کھولتے پانی کی، پیپ کی اور بعض دوسرے عذابوں کی۔ فرشتے روح نکلنے تک مسلسل یہی کہتے رہتے ہیں، پھر اسے لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں، آسمان کا دروازہ اس کے لیے نہیں کھولا جاتا۔ آسمان کے فرشتے پوچھتے ہیں یہ کون ہے؟ جواب میں کہا جاتا ہے یہ فلان شخص ہے، آسمان کے فرشتے کہتے ہیں اس خبیث روح کے لیے جو خبیث جسم میں تھی کوئی خوش آمدید نہیں، اسے ذلیل کر کے واپس بھیج دو۔ آسمان کے دروازے ایسی خبیث روح کے لیے نہیں کھولے جاتے چنانچہ فرشتے اسے آسمان سے نیچے پھینک دیتے ہیں اور وہ قبر میں لوٹ آتی ہے۔
ابن ماجه ، كتاب الزهد، باب ذكر الموت والاستعداد له، رقم: 4262 الشيخ الباني نے صحیح کہا ہے۔

حدیث نمبر ②

عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن المؤمن إذا احتضر أتته ملائكة الرحمة بحريرة بيضاء فيقولون أخرجي راضية مرضية عنك إلى روح الله وريحان ورب غير غضبان فتخرج كأطيب ريح المسك حتى أنهم ليناوله بعضهم بعضا يشمونه حتى يأتوا به باب السماء فيقولون ما أطيب هٰذه الريح التى جاءتكم من الأرض فكلما آتوا سماء قالوا ذلك حتى يأتوا به أرواح المؤمنين قال فلهم أفرح به من أحدكم بغائبه إذا قدم عليه قال فيسألون ما فعل فلان قال فيقولون دعوه حتى يستريح فإنه كان فى غم الدنيا فإذا قال لهم أما آتاكم فإنه قد مات قال فيقولون ذهب به إلى أمه الهاوية قال وأما الكافر فإن ملائكة العذاب تأتيه فيقول أخرجي ساخطة مسخوطا عليك إلى عذاب الله وسخطه فيخرج كأنتن ريح جيفة فينطلقون به إلى باب الأرض فيقولون ما أنتن هٰذه الريح كلما أتوا على الأرض قالوا ذلك حتى يأتوا به أرواح الكفار
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشم (کا کفن) لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں (اے روح!) اللہ کی رحمت، جنت کی خوشبو اور اپنے خوش ہونے والے رب کی طرف اس حالت میں اس جسم سے نکل کہ تو اپنے رب سے راضی ہے اور تیرا رب تجھ سے راضی ہے۔ مومن آدمی کی روح جب جسم سے نکلتی ہے تو اس سے بہترین مشک جیسی خوشبو آ رہی ہوتی ہے یہاں تک کہ فرشتے ایک دوسرے سے لے کر اس کی خوشبو سونگھتے ہیں اور جب آسمان کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو آسمان کے فرشتے آپس میں کہتے ہیں یہ کیسی عمدہ خوشبو (والی روح) ہے جو زمین سے تمہارے پاس آ رہی ہے۔ فرشتے جیسے ہی اگلے آسمان پر پہنچتے ہیں تو اس آسمان کے فرشتے بھی اسی طرح کہتے ہیں یہاں تک کہ (لانے والے فرشتے) اس روح کو اہل ایمان کی روحوں کی جگہ (علّیین) میں لے آتے ہیں۔ جب وہ روح پہنچتی ہے تو (پہلے سے موجود) روحوں کو اتنی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی ایک کو اپنے بھائی کے ملنے پر ہو سکتی ہے چنانچہ بعض روحیں (نئی آنے والی روح سے) پوچھتی ہیں فلان آدمی کس حال میں ہے؟ پھر وہ آپس میں کہتی ہیں اسے ذرا چھوڑ دو، آرام کرنے دو، یہ دنیا کے مصائب و آلام میں مبتلا تھا۔ (ستانے کے بعد) وہ روح جواب دیتی ہے کیا وہ روح تمہارے پاس نہیں آئی؟ وہ آدمی تو فوت ہو چکا ہے جس پر وہ( افسوس سے )کہتے ہیں وہ اپنی ماں ہاویہ (یعنی جہنم) میں لے جایا گیا ہے۔ کافر آدمی کے پاس عذاب کے فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں اے غمزدہ اور مغضوب روح! نکل اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضی کی طرف۔ کافر کی روح جب جسم سے نکلتی ہے تو اس سے اس قدر (غلیظ )بدبو آتی ہے جس قدر کسی مردار سے (غلیظ )بو آتی ہے فرشتے اسے لے کر زمین کے دروازے کی طرف آتے ہیں تو (زمین کے دروازے کے محافظ )فرشتے کہتے ہیں کس قدر گندی بو ہے یہ، جیسے ہی فرشتے اگلی زمین کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو اس زمین کے دروازے کے محافظ فرشتے بھی ایسا ہی کہتے ہیں حتیٰ کہ عذاب کے فرشتے اسے کفار کی روحوں کی معین جگہ (یعنی سجین )میں لے آتے ہیں۔
(مستدرك حاكم، كتاب الجنائز، باب حال قبض روح المومن وقبض روح الكافر، 352/1 – 353 قال الذهبي عن ابي هريرة عن النبي ع بنحوه والكل صحيح )

حدیث نمبر ③

عن أبى هريرة رضى الله عنه قال إذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها قال حماد فذكر من طيب ريحها وذكر المسك قال ويقول أهل السماء روح طيبة جاءت من قبل الأرض صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه فينطلق به إلى ربه عزوجل ثم يقول انطلقوا به إلى آخر الأجل قال وإن الكافر إذا خرجت روحه قال حماد وذكر من نتنها وذكر لعنا ويقول أهل السماء روح خبيثة جاءت من قبل الأرض قال فيقال انطلقوا به إلى آخر الأجل قال أبو هريرة رضى الله عنه فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم ريطة كانت عليه على أنفه هكذا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں (راوی) حماد کہتے ہیں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روح کی خوشبو اور مشک کا ذکر کیا اور کہا کہ آسمان والے فرشتے (اس روح کی خوشبو پاکر )کہتے ہیں کوئی پاک روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تجھ پر رحمت کرے اور اس جسم پر بھی جسے تو نے آباد کر رکھا تھا پھر فرشتے اپنے رب کے حضور اس روح کو لے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اسے قیامت قائم ہونے تک (اس کی معین جگہ یعنی علّیین میں) پہنچا دو۔ حدیث کے راوی نے کافر کی روح کے نکلنے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روح کی بدبو اور اس پر (فرشتوں کی) لعنت کا ذکر کیا۔ آسمان کے فرشتے کہتے ہیں کوئی ناپاک روح ہے جو زمین کی طرف سے آ رہی ہے پھر (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) حکم ہوتا ہے اسے قیامت قائم ہونے تک (اس کی معین جگہ یعنی سجین میں) لے جاؤ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافر کی روح کی بدبو کا ذکر فرمایا تو( نفرت سے) اپنی چادر کا دامن اس طرح اپنی ناک پر رکھ لیا (اور پھر اپنی چادر ناک پر رکھ کر دکھائی۔)
(مسلم، كتاب الجنة ونعيمها، باب عرض المقعد على الميت وعذاب القبر، رقم: 7221 )

ساتویں آیت:

➐ ﴿فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ. النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ .﴾
پس اسے اللہ نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھ لیا جو انھوں نے سوچ رکھی تھیں اور فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا۔ آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح و شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی( حکم ہوگا) کہ آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔
(40-غافر:45،46)
یہ آیات عذاب قبر کے اثبات میں نص صریح اور مضبوط شہادت ہیں اس بات کا اعتراف منکرین عذاب قبر کو بھی ہے۔ چناں چہ فاضل صاحب اپنے 36 صفحات کے کتابچہ میں لکھتے ہیں کہ: ان آیات کو عذاب برزخ کی سب سے اہم وقوی ترین دلیل قرار دیا جاتا ہے۔
(عذاب قبر، ص: 20)
عذاب قبر کے اثبات میں نص صریح ہونے کی ان آیات میں دو بڑی واضح دلیلیں ہیں۔
● قیامت قائم ہونے سے پہلے قوم فرعون کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے اور قیامت سے پہلے انھیں جس عذاب پر پیش کیا جا رہا ہے وہی عذاب قبر ہے۔ یاد رہے کہ آگ پر پیشی آل فرعون کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس میں تمام مجرمین شامل ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے: إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة وإن كان من أهل النار فمن أهل النار فيقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة
بے شک جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح و شام دکھایا جاتا ہے، اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں ، اور اگر وہ دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں، پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھ کو اٹھائے گا۔
بخاری، کتاب الجنائز، باب الميت يعرض عليه مقعده بالغداة والعشى: 1379۔ مسلم، کتاب الجنة من اليه کے الفاظ کا اضافہ ہے، یعنی تجھے جنت یا جہنم کی طرف اٹھایا جائے گا۔
معلوم ہوا کہ صبح و شام آگ پر پیشی صرف آل فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جن کے کرتوت فرعون اور آل فرعون جیسے ہوں۔
● دوسری دلیل اس آیت میں یہ ہے کہ قیامت کے دن فرشتوں سے کہا جائے گا کہ قوم فرعون کو زیادہ سخت عذاب میں داخل کرو۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس سے پہلے جو ان کو کم عذاب دیا گیا تھا وہ عذاب برزخ تھا۔ کیونکہ روز محشر تو انھیں ﴿أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ ہوگا۔ اس سے پہلے والا عذاب اتنا سخت نہیں اسی لیے اسے ﴿سُوءُ الْعَذَابِ ‎ ‏ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا﴾ کہا اور پھر بعد میں ﴿أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ قیامت سے قبل جو عذاب دیا گیا تھا وہ تھا تو عذاب ہی مگر قیامت کے سخت عذاب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔
امام فخر الدین الرازی اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں:
احتج اصحابنا بهذه الآية على اثبات عذاب القبر. قالوا: الاية تقضي عرض النار عليهم غدوا وعشيا، وليس المراد منه يوم القيمة؛ لأنه قال: ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ وليس المراد منه ايضا: الدنيا؛ لان عرض النار عليهم غدوا وعشيا ماكان حاصلا فى الدنيا فثبت ان هذا العرض انما حصل بعد الموت وقبل يوم القيمة، وذلك يدل على اثبات عذاب القبر فى حق هولاء واذا ثبت فى حقهم ثبت فى حق غيرهم؛ لانه لا قائل بالفرق
ہمارے ساتھیوں (اساتذہ کرام ) نے اس آیت سے عذاب قبر کی دلیل پکڑی ہے، انھوں نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ان (آل فرعون ) پر صبح و شام آگ پیش کرنے کا تقاضا کرتی ہے، اور اس (پیشی ) سے مراد نہ تو قیامت کا دن ہے، کیوں کہ اس کے لیے ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو ( حکم ہوگا ) کہ آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کرو) فرمایا ہے۔ اور نہ ہی اس سے مراد دنیا ( کا دن) ہے، کیوں کہ صبح و شام ان پر آگ کی پیشی دنیا میں حاصل نہیں ہوئی۔ پس ثابت ہو گیا کہ بے شک یہ پیشی صرف اور صرف موت کے بعد اور قیامت سے پہلے ہی حاصل ہوگی۔ اور یہ (آیت) ان فرعونیوں کے بارے میں عذاب قبر کے برحق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ جب ان ( فرعونیوں ) کے بارے میں (عذاب قبر ) ثابت ہو گیا تو دوسروں کے بارے میں بھی ثابت ہو گیا۔ اس لیے کہ ( اللہ تعالیٰ) کا فرمان سب کے لیے یکساں ہے۔
(تفسير كبير بحواله تحفة الاحوذي: 266/9 جديد)
امام حسن بن محمد نیساپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي الآية دلالة ظاهرة على اثبات عذاب القبر، لان تعذيب يوم القيمة يجيء فى قوله: ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ﴾
اس آیت میں اثبات عذاب قبر کی واضح دلیل ہے، کیوں کہ قیامت کے دن عذاب دینے کا (ذکر تو ) اس فرمان میں ہے: ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ﴾
(بحواله تحفة الاحوذي: 266/9 جديد)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہر صبح و شام ان کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں۔ قیامت تک انھیں یہ عذاب ہوتا رہے گا اور قیامت کے دن ان کی روحیں جسم سمیت جہنم میں ڈال دی جائیں گی اور اس دن ان سے کہا جائے گا کہ اے آل فرعون! سخت، درد ناک اور بہت تکلیف دہ عذاب میں چلے جاؤ۔ یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے بہت بڑی دلیل ہے۔
(تفسير ابن كثير اردو: 529/4 )
علامہ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ذهب الجمهور ان هذا العرض هو فى البرزخ: ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ يدل دلالة واضحة على ان ذلك العرض هو فى البرزخ .
جمہور کا مذ ہب ( یہ ) ہے کہ بے شک ( آگ پر ) یہ پیشی برزخ ہی میں ہے ۔ ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ واضح طور پر دلالت کر رہا ہے کہ بے شک یہ ( آگ پر ) پیش کیا جانا برزخ ہی میں ہوتا ہے۔
(تفسیر در منثور : 4 / 495 قديم)
امام سدّی اور ہذیل بن شرحبیل رحمہما اللہ فرماتے ہیں:
هو انكم لما هلكوا جعلت ارواحهم فى اجواف طير سود، فهي تعرض على النار كل يوم مرتين، تغدوا وتروح الى حتى تقوم الساعة.
بے شک جب وہ ہلاک ہوئے تو ان کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹوں میں رکھ دی گئیں، پھر انہیں روزانہ صبح وشام دو مرتبہ آگ پر پیش کیا جاتا ہے، قیامت تک ( یہ ہوتا رہے گا)۔
(تفسير الثعلبی: 8/ 278 احياء التراث )
حضرت عکرمہ اور محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذه الآية تدل على عذاب القبر، لان الله تعالى ميز عذاب الاخرة، فقال: ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾
یہ آیت عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے عذاب آخرت کا الگ سے بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾
(ايضاً)
سید قطب شہید رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والنص يلهم أن عرضهم على النار غدوا وعشيا وهو فى الفترة من بعد الموت إلى قيام الساعة وقد يكون هذا هو عذاب القبر
اور( یہ) نص بتا رہی ہے کہ ان کا صبح و شام آگ پر پیش کیا جانا یہ موت اور قیامت کے درمیان کا زمانہ ہے اور یہی عذاب قبر ہے۔
(تفسير ظلال القرآن: 384/5)
ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رقمطراز ہیں:
دنیا میں نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ سمندر میں ڈبو دیے گئے اور قبر اور برزخ میں صبح و شام یعنی ہر وقت ان کی روحوں کو آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور جب قیامت آئے گی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ فرعون اور فرعونیوں کو شدید ترین عذاب میں ڈال دو۔
سیوطی نے کرمانی کی کتاب العجائب کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ آیت عذاب قبر کی سب سے بڑی دلیل ہے، اس لیے کہ آیت میں روحوں کو عذاب دیا جانا روز قیامت کے عذاب سے پہلے بتایا گیا ہے۔
عذاب قبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ کہتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آگاہ رہو! تم لوگ قبروں میں آزمائشوں میں ڈالے جاؤ گے ۔ (احمد و مسلم ) اور بخاری نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عذاب قبر حق ہے ۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔
(تفسير تيسير الرحمن: 2 / 1324 )
حافظ صلاح الدین یوسف رقمطراز ہیں:
اس آگ پر برزخ میں یعنی قبروں میں وہ لوگ روزانہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں جس سے عذاب قبر کا اثبات ہوتا ہے جس کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں۔احادیث میں تو بڑی وضاحت سے عذاب قبر پر روشنی ڈالی گئی ہے، مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال و جواب میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : نعم عذاب القبر حق ”ہاں قبر کا عذاب حق ہے۔“(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر، رقم: 1372 ) اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا: ” جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو ( قبر میں ) اس پر صبح وشام اس کی جگہ پیش کی جاتی ہے، یعنی اگر وہ جنتی ہے تو جنت اور جہنمی ہے تو جہنم اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیری اصل جگہ ہے جہاں قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے بھیجے گا ۔
(صحیح بخاری، باب الميت يعرض عليه مقعده بالغداة والعشى، رقم: 1379)
اس کا مطلب ہے کہ منکرین عذاب قبر قرآن و حدیث دونوں کی صراحتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔
(تفسير احسن البیان، ص: 618، حاشیه : 9)
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان غرق ہو کر مرنے والوں میں سے صرف فرعون کی لاش کو اللہ نے بچالیا باقی سب لوگوں کی لاشیں سمندر میں آبی جانوروں کی خوراک بن گئیں یا سمندر کی تہہ میں چلی گئیں۔ فرعون کی لاش کو سمندر کی موجوں نے اللہ کے حکم سے کنارے پر پھینک دیا تا کہ عامتہ الناس اس خدائی کا دعویٰ کرنے والے شہنشاہ کا حشر دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ اور یہ مدتوں ساحل سمندر پر پڑی رہی اور گلی سڑی نہیں ، بلکہ جوں کی توں قائم رہی۔ کہتے ہیں کہ اس کے مردہ جسم پر سمندر کے نمک کی دبیز تہہ چڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا جسم گلنے سڑنے سے محفوظ رہا۔ اب ان غرق ہونے والوں کی لاشیں خواہ سمندر کی تہہ میں ہوں یا آبی جانوروں کے پیٹ میں یا فرعون کی لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑی ہو، ان سب کی ارواح غرق ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں چلی گئی تھیں۔ غرق ہونے کے دن سے لے کر قیامت تک ان ارواح کو ہر روز صبح و شام اس دوزخ پر لاکھڑا کیا جاتا ہے۔ جس میں وہ قیامت کے دن اپنے جسموں سمیت داخل ہونے والے ہیں۔ ان کی موت سے لے کر قیامت تک کے عرصہ میں جسے اصطلاحی زبان میں عالم برزخ کہا جاتا ہے . صرف آگ پر پیشی ہوتی ہے اور صرف ارواح کی ہوتی ہے۔(مولانا صاحب کی ذاتی رائے ہے میرا متفق ہونا ضروری نہیں۔) [مصنف ] لیکن قیامت کے دن وہ آگ میں داخل ہوں گے اور جسموں سمیت داخل ہوں گے۔ اس لحاظ سے عالم برزخ کا عذاب قیامت کے عذاب کی نسبت بہت ہلکا اور قیامت کا عذاب عالم برزخ کے مقابلہ میں شدید تر عذاب ہے۔ اس آیت میں عالم برزخ کے عذاب یا عذاب قبر کی ٹھیک ٹھیک صراحت موجود ہیں۔
(تيسير القرآن: 84/4، حاشيه : 60)
تفسیر اشرف الحواشی میں ہے:
علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ عالم برزخ (قبر) میں کفار کو عذاب ہو رہا ہے۔ قرآن کی بعض دوسری آیات میں بھی اس کے متعلق اشارات ملتے ہیں اور حدیث میں بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”موت کے بعد ہر آدمی کو صبح و شام جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اور اس کی دلیل میں یہی آیت تلاوت فرمائی۔
اسی تفسیر میں مزید لکھا ہوا ہے:
علماء اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر بر حق ہے اور اس کا انکار بدعت ہے۔
(اشرف الحواشی، ص: 564، حاشیه : 5)
پیر کرم علی شاہ لکھتے ہیں :
اس آیت سے اہل سنت نے عذاب قبر کا اثبات کیا ہے۔ قبر سے مراد صرف وہ گڑھاہی نہیں جس میں کسی کو دفن کیا جاتا ہے. کیوں کہ قبر تو کسی کو نصیب ہوتی ہے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوتی بلکہ اس سے مراد عالم برزخ ہے۔ مرنے کے بعد روز قیامت سے پہلے کے وقت کو عالم برزخ کہتے ہیں۔ آل فرعون کو دیے جانے والے دو عذابوں کا یہاں ذکر ہورہا ہے۔ ایک وہ جس میں قیامت سے پہلے وہ مبتلا ہیں ۔ دوسرا وہ جو قیامت کے بعد انہیں دیا جائے گا۔
(تفسير ضياء القرآن : 310/4 )
سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
یہ آیت اس عذاب برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذاب قبر کے عنوان سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرما رہا ہے۔ ایک کم تر درجہ کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آل فرعون کو اب دیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انھیں صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے وہ دوزخ جس میں آخر ہمیں جانا ہے۔ اس کے بعد جب قیامت آ جائے گی تو انھیں وہ اصلی اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے یعنی وہ اسی دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انھیں غرقاب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا۔ اور یہ معاملہ صرف فرعون اور آل فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے کر قیامت تک وہ انجام بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے اور تمام نیک لوگوں کو اس انجام نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔
(تفهيم القرآن: 413/4)
الشیخ ابو محمد عبد الحق الحقانی الدہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
النار يعرضون صبح و شام آتش جہنم کے سامنے کیے جاتے ہیں۔
صبح و شام سے مراد خاص یہی دو وقت نہیں بلکہ دوام مراد ہے۔ اس کو محاورہ میں صبح و شام سے تعبیر کرتے ہیں اور آگ کے سامنے لائے جانے سے مراد اس کا دکھایا جانا ہے یا کمتر عذاب ہونا بہ نسبت آخرت کے۔ بعض کہتے ہیں آگ میں داخل ہونا مراد ہے۔ بولتے ہیں عرضهم على السيف اذا قتلهم ( تلوار پر پیش کیا انھیں جب قتل کیا)
آگے مزید لکھتے ہیں :
یہ آیت صاف دلیل ہے کہ مرنے کے بعد عذاب قبر ہوگا اور ثواب بھی ۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، برخلاف معتزلہ کے ، وہ حشر کے روز جزا و سزا ہونا کہتے ہیں، اور اس درمیانی زمانہ کو خالی قرار دیتے ہیں، بدلیل قولہ تعالٰى ﴿مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا﴾ ، اس کو خواب کا زمانہ کہتے ہیں ۔ مرقدنا کے معنی ہم سورۃ یسین کی تفسیر میں بیان کر آئے ہیں ، علاوہ اس آیت کے اہل سنت کے عقیدہ کے اثبات کے لیے بے شمار صحیح حدیثیں بھی وارد ہیں۔
(تفسیر حقانی: 6 / 189 )
شارح صحیح بخاری مولانا داؤد راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس آیت میں عذاب دارین کا صریح ذکر ہے اس کے سوا اور کسی کا احتمال ہی نہیں، دارین سے مراد قبر کا عذاب اور پھر قیامت کے دن کا عذاب ہے۔
(صحیح بخاری مترجم: 2/ 415)
مولانا ابوالحسن سیالکوٹی رحمہ اللہ امام قرطبی کے حوالے سے رقمطراز ہیں:
جمہور علماء اس پر ہیں کہ یہ ان کو آگ کے سامنے کرنا برزخ میں واقع ہوتا ہے کہ مراد اس سے قبر ہے۔ اس دلیل سے کہ وہ قیامت کے عذاب کے مقابلے واقع ہوا ہے۔سو ضروری ہے کہ وہ عذاب قیامت سے پہلے ہو۔ برزخ اور قبر کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ۔ پس
اس آیت سے قبر کا عذاب ثابت ہوا۔
(فيض الباری : 2150/2 ، پاره: 5)
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ آیت دلیل ہے عذاب قبر کی اور احادیث کی روایات متواترہ اور اجماع امت اس پر شاہد ہیں۔
(معارف القرآن: 603/7)
قرآن مجید نے فرعون اور اس کی آل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے تینوں جہانوں کے عذابوں کا ذکر کیا ہے۔

◈دنیا کا عذاب

فرعون اور آل فرعون پر دنیا میں جو عذاب آئے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾
اور البتہ تحقیق ہم نے آل فرعون کو قحط سالی اور پھلوں کی کم پیداواری میں مبتلا کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
(7-الأعراف:130)
﴿أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ . وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ ۖ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ.﴾
آخر ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون کا عذاب ایک ایک کر کے مختلف وقتوں میں نشانیوں کے طور پر بھیجا پھر بھی وہ اکڑے ہی رہے کیونکہ وہ تھے ہی مجرم لوگ۔ اور جب ان پر کوئی عذاب آن پڑتا تو کہتے موسیٰ! تیرے پروردگار نے تجھ سے جو (دعا قبول کرنے کا) عہد کیا ہوا ہے تو ہمارے لیے دعا کر، اگر تو ہم سے عذاب کو دور کر دے گا تو ہم یقیناً تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ روانہ کر دیں گے۔
(7-الأعراف:133،134)
ان آیات میں فرعونیوں پر مختلف اوقات میں آنے والے مختلف عذابوں کا ذکر ہے مثلاً قحط سالی، پھلوں کی پیداوار میں کمی، طوفان یعنی سیلاب یا بارش کی کثرت، کہ جس سے ہر چیز غرق ہو گئی ، ٹڈیوں کا عذاب ، ٹڈیوں کا حملہ فصلوں کی ویرانی کے لیے مشہور ہے۔ یہ ٹڈیاں ان کے غلوں اور پھلوں کی فصلوں کو کھا کر چٹ کر جاتیں ، قمل جوئیں جو انسان کے جسم، کپڑے، اور بالوں میں ہو جاتی ہیں۔ قمل کا لفظ چچڑی، مچھر ، اور سری، پر بھی بولا جاتا ہے، مینڈکوں کا عذاب، ہر طرف مینڈک ہی مینڈک حتی کہ کھانا کھانے لگتے تو مینڈک کو دکر برتن میں آ گرتا ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
طوفان کی وجہ سے وہ بھوکے مرنے لگے، پھر ٹڈیوں کا عذاب آیا تو درخت تو کیا گھر کی چوکٹیں اور دروازوں تک وہ کھا گئیں، مکانات گرنے لگے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ایک پتھر پر لکڑی ماری جس میں سے بے شمار چھڑیاں نکل پڑیں اور پھیل گئیں۔ کھانا پینا، سونا بیٹھنا سب بند ہو گیا۔ پھر مینڈکوں کا عذاب آیا جہاں دیکھو مینڈک ہی مینڈک نظر آنے لگے۔ پھر خون کا عذاب آیا نہریں، تالاب، کنویں، گھڑے وغیرہ غرض بجائے پانی کے خون ہی خون سب چیزیں ہو گئیں۔
(تفسير ابن كثير اردو : 394/2)
پھر آخر میں جب فرعونیوں کی ظلم و زیادتیاں حد سے بڑھ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں رات یہاں سے نکل جائے چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ جب فرعون کو اس صورت حال کا پتہ چلا تو وہ بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت موسیٰ علیہ السلام کے تعاقب میں نکل پڑا آخر فرعون کے لشکر نے بنی اسرائیل کو سمندر کے کنارے پر جا پکڑا۔
اب صورت حال یہ تھی کہ دونوں لشکروں میں صرف اتنا فاصلہ رہ گیا تھا کہ جس سے دونوں لشکر ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ بنی اسرائیل سمندر کے کنارے پر کھڑے تھے، پیچھے سے فرعون کا لشکر تیز رفتار گھوڑوں پر سواران کی طرف چلا آرہا تھا۔ بنی اسرائیل اس صورتِ حال کو دیکھ کر سخت گھبرائے ، آگے سمندر پیچھے فرعون کا لشکر ، گویا دونوں طرف موت ہی موت کھڑی نظر آ رہی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنا عصا سمندر پر مار، موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر میں راستے بنا دیے جس سے وہ پار ہونے لگے انھیں دیکھ کر فرعون بھی اپنے لشکر سمیت انھیں راستوں پر چل پڑا۔ جب بنی اسرائیل سمندر پار کر گئے اور فرعون کا لشکر عین سمندر میں آ گیا تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو چلنے کا حکم دے دیا۔ فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت پانی میں غرق ہو گیا۔ یہ تھے فرعون اور اس کی آل پر دنیا میں آنے والے چند عذاب جو قرآن مجید نے بیان کیے ہیں۔ پانی میں غرق ہوتے ہی عالم برزخ کا عذاب شروع ہو گیا۔

◈ برزخ کا عذاب

عالم برزخ کے عذاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ . النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا﴾
اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ وہ آگ ہے کہ جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں۔
(40-غافر:45،46)
امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يعرضون عليها صباحا ومساء، يقال لهم: يا آل فرعون هذه منازلكم توبيخا ونقمة وصغارا لهم
صبح و شام آگ پر پیش کیے جاتے ہیں اور انھیں جھڑکنے کے لیے سزا کے طور پر بطور رسوائی یہ کہا جاتا ہے کہ اے آل فرعون! یہ تمہارے ٹھکانے ہیں۔
(تفسير الثعلبي: 8/ 278 احياء التراث )
حضرت میمون بن میسرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كان أبو هريرة إذا أصبح ينادي: أصبحنا والحمد لله وعرض آل فرعون على النار، فلا يسمعه أحد إلا يتعوذ بالله من النار
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب صبح کرتے تھے تو پکارا کرتے: ہم نے صبح کی اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں اور آل فرعون آگ پر پیش کیے گئے ہیں۔ پس جو کوئی بھی آپ رضی اللہ عنہ کی آواز سنتا وہ آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا۔
(احوال القبور لابن رجب، ص: 45 بيروت )
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
أرواح آل فرعون فى أجواف طير سود فيعرضون على النار كل يوم مرتين فيقال لهم: هذه منازلكم فذلك قوله تعالى ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا﴾
آل فرعون کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹوں میں ہیں۔ پس وہ روزانہ دو مرتبہ آگ پر پیش کیے جاتے ہیں۔ پھر انھیں کہا جاتا ہے کہ یہ تمہاری منزلیں ہیں، پس یہی اللہ تعالیٰ کے قول ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا﴾ کی۔
(احوال القبور لابن رجب، ص: 45 بيروت)
اعتراض ① : منکرین عذاب قبر کا اس آیت پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ آل فرعون صبح و شام حشر تک صرف آگ کے سامنے پیش کیے جاتے رہیں گے، آگ میں ڈالے نہیں جائیں گے۔ آگ کے سامنے پیش کیا جانا اور آگ میں ڈالا جانا یہ دونوں کسی طرح مساوی ہو سکتے ہیں؟
(عذاب قبر : 20)
جواب: اس عبارت میں فاضل صاحب نے آل فرعون کا برزخ میں آگ پر پیش کیا جانا تو تسلیم کر لیا ہے، فلله الحمد. اب بات صرف یہ ہے کہ کیا آگ پر پیشی عذاب ہے یا نہیں؟
آل فرعون کا صبح و شام حشر تک آگ کے سامنے پیش کیا جانا تو خود قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آگ پر آل فرعون کی یہ پیشی محض انھیں أهلا وسهلا کہنے کے لیے کی جاتی ہے؟ شاید منکرین عذاب قبر کے دل میں یہ خیال ہو کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہوں گے کہ جاؤ بھئی! آل فرعون کو آگ کے پاس لے جاؤ کیونکہ یہ بیچارے سمندر کے ٹھنڈے پانی میں ڈبوئے گئے تھے جس کی وجہ سے انھیں سردی لگ گئی تھی، لہٰذا انھیں آگ کے پاس لے جاؤ تاکہ یہ آگ سیک لیں اور ان کی سردی دور ہو۔ فيا للعجب!
فرعون اور آل فرعون دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانیاں کریں، بنی اسرائیل پر ظلم و زیادتیاں کریں جبکہ اللہ تعالیٰ انھیں قبروں میں مزے سے آگ سیکنے دے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ویسے منکرین عذاب قبر کو کافروں فاجروں سے بڑی ہمدردی ہے، اسی لیے تو کبھی وہ یہ کہتے ہیں کہ آگ پر پیش کیا جانا عذاب نہیں، کبھی کہتے ہیں کہ اگر برزخ کا عذاب تسلیم کر لیا تو اس سے ناانصافی لازم آئے گی کہ ایک قوم نوح کے دور سے عذاب میں مبتلا رہے اور ایک قوم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے۔
کیا آگ پر پیش ہونا عذاب نہیں؟ کیا جب ہم اس دنیا کی آگ کے (جو کہ دوزخ کی آگ سے انہتر(69) گنا کم حرارت والی ہے) کے سامنے بیٹھتے ہیں اس کی تپش محسوس نہیں ہوتی؟ اور پھر اگر گرمی کا موسم ہو تو آگ کی طرف تو دیکھا بھی نہیں جاتا، چہ جائیکہ آگ پر پیش کیا جائے۔
گوشت کو روسٹ کرنے کے لیے آگ ہی پر پیش کیا جاتا ہے، پھر دیکھ لیں کہ گوشت کا کیا حال ہوتا ہے۔ تو جب ہماری دنیا کی آگ کا یہ حال ہے تو آخرت کی آگ جو کہ اس سے انہتر (69) گنا زیادہ ہے اس پر پیش ہونے والوں کا کیا حشر ہوتا ہوگا؟
علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ ایک ایسے ہی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: آگ پر پیش ہونا تو خود عذاب ہے، کیونکہ جہنم کے صرف پانی کا یہ حال ہے کہ ﴿وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ﴾ (18-الكهف:29) اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا جو چہرے بھون دے گا۔
پس جب جہنم کے پانی کی گرمی اور تیزی اتنی ہے کہ اس کے قریب سے منہ جل جائے گا تو پھر آگ کا کیا کہنا، پیش ہونا تو خود عذاب ہے۔
(عذاب قبر کی حقیقت، ص: 30)
اعتراض ② : أشد العذاب کی بنا پر یہ قیاس کر لینا کہ اشد العذاب سے پہلے برزخ میں ہلکا یا کم عذاب ہو رہا ہے، یہ نہ صرف من گھڑت ہے بلکہ قرآن کے بھی خلاف ہے۔
(عذاب قبر : 20)
جواب: اس میں من گھڑت کون سی بات ہے؟ آگ پر پیشی کو اگر آپ عذاب نہیں مانتے تو کیا آپ کے نہ ماننے سے حقیقت بدل سکتی ہے؟ آگ پر پیش ہونا تو بذات خود عذاب ہے۔ جو لوگ آگ کی بھٹی پر کھڑے ہو کر کام کرتے ہیں اور پھر خاص کر جب سخت گرمی ہو تو کبھی ان سے جا کر پوچھیے گا کہ کیا آگ کے سامنے کھڑے ہونے سے تکلیف ہوتی ہے یا نہیں؟ اور پھر یاد رہے کہ یہ دنیا کی آگ کا حال ہے، جہنم کی آگ اس سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ ایک آدمی کو آگ پر پیش کیا جائے اور دوسرے کو آگ میں ڈال دیا جائے، بتائیے کہ سخت عذاب کس کو ہوگا اور ہلکا کس کو ہوگا؟ یہاں کوئی بھی عقل مند یہ نہیں کہے گا کہ عذاب تو فقط جلنے والوں کو ہی ہو رہا ہے دوسرے کو نہیں۔ ایسا کوئی بھی نہیں کہے گا، اس لیے کہ وہ آگ کے بالکل قریب ہے اور پھر اگر اسے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہو کہ اس کے بعد تیری باری بھی آنے والی ہے تو بھی اسی طرح آگ میں جلے سڑے گا۔
اسی طرح ﴿أشد العذاب﴾ کی بنا پر کوئی اس مقام پر یہ کہے کہ ﴿أشد العذاب﴾ قیامت والے دن ہوگا جبکہ اس سے پہلے برزخ میں کم یا ہلکا عذاب ہوگا تو اس میں قرآن مجید کی مخالفت کیسے ہوگی؟
کیا قرآن مجید نے ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا﴾ یعنی آگ پر پیشی کے عذاب ہونے کی نفی کی ہے؟
ہمارا آپ کو مشورہ ہے کہ پہلے آپ مخالفت کی تعریف پڑھیں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ مخالفت کیا چیز ہے اور کیسے ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جو بھی بات آپ کے اپنے من کو نہ بھائے اس پر من گھڑت اور خلاف قرآن کا فتویٰ اور جو بات اپنے من پسند کی ہو گو وہ من گھڑت اور خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو وہ آپ کے نزدیک عین اسلام ہے جس کی ایک مثال عذاب قبر کا انکار ہے۔
اعتراض ③ : آگ کے سامنے پیش کیا جانا اگر واقعی ہی عذاب ہوتا تو خود آیت ہی میں عذاب أدنى یا عذاب أصغر یا عذاب خفیف کی ضرور صراحت ہوتی چنانچہ آگ کے سامنے پیش کیے جانے کو اللہ تعالیٰ نے جب عذاب نہیں فرمایا ہے تو ہمارا اس کو عذاب قبر یا عذاب برزخ قرار دے لینا ہر لحاظ سے غلط ہی ہے۔
(ایضاً)
جواب: چند لمحوں کے لیے مان لیا جائے کہ آگ پر پیشی عذاب نہیں، اب منکرین عذاب قبر ہی بتائیں کہ اسے کیا نام دیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے آگ پر پیشی کو سوء العذاب کہا ہے کیونکہ آگے والا جملہ ﴿لنَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا﴾ سوء العذاب سے بدل بن رہا ہے۔ (تفسیر الثعلبی : 277/8 بیروت) اور گرائمر سے ادنیٰ سا بھی تعلق رکھنے والا شخص سمجھتا ہے کہ بدل اور مبدل منہ دونوں ایک ہی ہوتے ہیں بلکہ بدل مقصود ہوتا ہے۔
اعتراض ④ : غور کیجیے مقدمہ عدالت میں پیش ہونے کے بعد فیصلہ تک ملزم جیل ہی میں رکھا جاتا ہے جس کو مجرم اپنے جرم کی سزا نہیں سمجھتا اور نہ قید کی اس مدت کو ملحوظ رکھتے ہوئے عدالت جرم کی سزا میں کوئی کمی کرتی ہے جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ فیصلہ تک قید کی یہ مدت ایک عبوری حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ہمارے مفسرین و علماء اس قبر کی مدت کو جرم کی سزا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ آل فرعون کو حشر تک صبح و شام آگ کے سامنے لانے کی بات کو عذاب قبر یا عذاب برزخ قرار دے رہے ہیں۔
(ايضاً )
جواب: اول تو یہ مثال ہی غلط ہے کیونکہ ہماری اس دنیا کو آخرت کی دنیا پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ہمارے ہاں جو قوانین ہیں وہ آخرت کی دنیا کے قوانین جیسے ہرگز نہیں ہو سکتے۔ مثلاً اسی مثال کو آپ لے لیجیے کہ ہماری عدالتیں تو فیصلے سے قبل ملنے والی سزا کو سزا نہیں مانتیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں تو فیصلے سے پہلے ملنے والی سزا کو سزا ہی کہا جاتا ہے جس کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔ اور پھر یہ بات بھی سراسر غلط ہے کہ مجرم کو جو سزا فیصلے سے پہلے ملتی ہے وہ اسے سزا نہیں سمجھتا۔ مجرم تو عدالت کے فیصلے سے پہلے بھی ایک قسم کی سزا ہی میں ہوتا ہے۔ حوالات میں بند رہنا بھی ایک قسم کی سزا ہے اور پھر بسا اوقات حوالات میں مجرم کی چھترول بھی ہوتی ہے۔ اسے کون سزا نہیں کہتا؟
مجرم اپنے جرم کی ملنے والی سزا جو کہ حوالات کی سزا سے بڑی ہوتی ہے اور ابھی وہ اسے ملی بھی نہیں اس کا تصور کر کے پریشان رہتا ہے۔ آئندہ ملنے والی سزا کا تصور کر کے پریشان رہنا بھی ایک طرح کی سزا ہی ہوتی ہے۔
سزا دو قسم کی ہوتی ہے: ذہنی سزا اور جسمانی سزا۔ حوالات میں پولیس والے مجرم کو اگر جسمانی سزا نہ بھی دیں تو بھی وہ ذہنی سزا کا ضرور مریض ہوگا۔ اپنے جرم اور پھر اس پر ملنے والی سزا کا تصور کر کے وہ ذہنی سزا کا ضرور شکار ہوگا۔
مجرم کو جب پولیس نے گرفتار کر لیا تو گویا وہ اپنے انجام کی طرف روانہ ہو گیا۔ اصل سزا تو عدالت میں فیصلے کے بعد ہی شروع ہوگی مگر اس سے پہلے بھی اس کو مختلف قسم کی سزائیں ملتی ہیں۔ مجرم کا اپنے اہل و عیال سے دور رہنا اور ساری دنیا سے بے نیاز ہو کر ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں بند رہنا بھی سزا ہی ہے۔ اگر سمجھ میں نہیں آتا تو خود رہ کر دیکھ لو یا پھر ان سے پوچھ لو جو اس طرح کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔
اعتراض ⑤ : فیصلے سے پہلے عذاب دینے کا ایسا الزام اللہ تعالیٰ پر عائد کر رہے ہیں جس سے دنیا کی تمام عدالتیں بری ہیں۔
(ايضاً، ص : 21 )
جواب: گزارش ہے کہ فیصلے کے دن سے پہلے مجرموں کو عذاب دینا اللہ تعالیٰ پر الزام نہیں بلکہ اس کا قانون ہے۔ یہ بات اس نے خود اپنی آخری کتاب میں بیان کی ہے۔ فرمایا: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾
خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لیے کہ انھیں ان کی بعض کرتوتوں کا اللہ تعالیٰ مزہ چکھا دے، بہت ممکن ہے کہ وہ باز آ جائیں۔
(الروم:41)
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿‏ لَّهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ﴾
ان کفار کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہے، انھیں اللہ کے غضب سے بچانے والا کوئی بھی نہیں۔
(الرعد:34)
سورۃ الانعام میں فرمایا:
﴿قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ﴾
آپ کہہ دیجیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا یہ کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑکا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے۔ آپ دیکھئے تو سہی ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں شاید وہ سمجھ جائیں۔
(6-الأنعام:65)
سورۃ العنکبوت میں سابقہ اقوام مثلاً نوح، ہود، صالح اور شعیب علیہم السلام کی قوموں پر آنے والے مختلف عذابوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾
پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زور آور سخت آواز نے دبوچ لیا اور بعض کو ان میں سے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور بعض کو ان میں سے ہم نے ڈبو دیا۔ اللہ تعالیٰ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
(29-العنكبوت:40)
قرآن مجید میں اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ اگر قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہے تو پھر یہ تمام قومیں اللہ تعالیٰ کے سامنے کہہ سکتی ہیں کہ اے اللہ! جب تو نے حساب و کتاب کا ایک دن مقرر کیا ہوا تھا تو پھر اس سے پہلے تو نے ہمیں کیوں عذاب میں مبتلا کیا؟
غور کریں کہ آج اگر دنیا میں کسی شخص پر عذاب نازل ہو تو آپ کیا کہیں گے؟
کیا یہ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے (نعوذباللہ) اس پر ظلم کیا ہے؟
کیا یہی جو قومیں ہم سے پہلے ہلاک ہوئیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب نے پکڑ لیا کیا اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم کیا ہے؟ حساب و کتاب کا دن تو قیامت ہی ہے لیکن عذاب دنیا میں بھی ہو رہا ہے آخر کیوں؟ یہاں جو جواب منکرین عذاب قبر ہمیں دیں گے ہمارا بھی وہی جواب ہوگا۔
معلوم ہوا کہ قیامت سے قبل عذاب کا ہونا اللہ تعالیٰ پر الزام نہیں بلکہ اس کا یہ قانون ہے کہ جس مجرم کو جب چاہے سزا دے لے۔

آٹھویں آیت:

➑ ﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ﴾
اور کچھ تمہارے گرد و پیش والوں میں اور کچھ مدینہ والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق کی حد کمال کو پہنچے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے، انھیں ہم ہی جانتے ہیں۔ عنقریب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔
(9-التوبة:101)
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مدینہ منورہ اور اس کے ارد گرد دیہاتوں میں کچھ ایسے منافق ہیں جو اس قدر ہوشیار و چالاک ہیں اور ان کا نفاق اتنا گہرا اور پراسرار ہے کہ وہ اپنے نفاق کو ظاہر ہی نہیں ہونے دیتے۔ تاہم وہ اپنے نفاق پر پوری مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ عام مسلمان تو کیا خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنی پیغمبرانہ فراست کے باوجود انھیں نہیں پہچان سکتے۔ ان کے نفاق کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جو دلوں کے ارادوں اور رازوں تک سے واقف ہے۔ ان منافقوں کو ہم دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر اس دوسرے عذاب کے بعد یہ ایک ایسے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے جو پہلے تمام عذابوں سے بڑا ہوگا۔
﴿سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ﴾
عنقریب ہم انھیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ ایک بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
یہاں ﴿عَذَابٍ عَظِيمٍ﴾ سے مراد بالاتفاق قیامت کا عذاب ہے جبکہ دو مرتبہ عذاب سے دنیا اور قبر کا عذاب مراد ہے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ﴿مَّرَّتَيْنِ﴾ سے مراد دنیا اور قبر کا عذاب ہے، امام قتادہ رحمہ اللہ اور ابن جریج رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے۔
(تفسير الطبري: 455/6 بيروت)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے فلان! تو نکل جا تو منافق ہے اور اے فلان! تو بھی نکل جا تو منافق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے لوگوں کو مسجد سے نکل جانے کا حکم فرمایا۔ ان کا نفاق مسلمانوں پر کھل گیا۔ یہ پورے رسوا ہوئے۔ یہ تو مسجد سے نکل کر جا رہے تھے اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آ رہے تھے۔ یہ ان سے ذرا کترا گئے یہ سمجھ کر کہ شاید نماز ہو چکی ہے اور یہ لوگ فارغ ہو کر جا رہے ہیں اور میں غیر حاضر رہ گیا۔ وہ لوگ بھی آپ سے شرمائے یہ سمجھ کر کہ ان پر بھی ہمارا حال کھل گیا ہوگا۔ اب مسجد میں آ کر دیکھا کہ ابھی نماز تو ہوئی نہیں۔ تو ایک شخص نے آپ کو کہا لیجیے! خوش ہو جائیے! آج اللہ نے منافقوں کو خوب شرمندہ اور رسوا کیا ہے۔ یہ تو تھا پہلا عذاب جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں مسجد سے نکلوا دیا اور دوسرا عذاب عذاب قبر ہے۔
(تفسير ابن كثير :اردو: 606/2)
شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
روى الطبرى وابن ابى حاتم والطبراني فى الاوسط ايضا من طريق السدي عن ابي مالك عن ابن عباس قال: خطب رسول الله يوم الجمعة، فقال: اخرج يا فلان فانك ،منافق، فذكر الحديث، وفيه ففضح الله المنافقين، فهذا العذاب الأول. والعذاب الثاني عذاب القبر … رويا ايضا من طريق سعيد بن ابي عروبة عن قتاده نحوه. ومن طريق محمد بن ثور عن معمر عن الحسن ﴿سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ﴾ عذاب الدنيا وعذاب القبر. وعن محمد بن اسحق قال: بلغنى فذكر نحوه. وقال الطبرى بعد ان ذكر اختلافا عن غير هولاء والاغلب ان احد المرتين عذاب القبر والأخرى تحتمل احد ما تقدم ذكره من الجوع او السبي او القتل او الازلال او غير ذلك
امام طبری، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے اوسط میں امام سدی عن ابی مالک کی سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن خطبہ میں فرمایا اے فلان! تو نکل جا بے شک تو منافق ہے۔ پھر (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے )مکمل حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی (بیان) تھا کہ اللہ نے منافقوں کو رسوا کیا پس یہ پہلا عذاب تھا اور دوسرا عذاب قبر کا عذاب ہے۔اسی طرح ان دونوں ( ابن ابی حاتم اور طبرانی) نے سعید بن ابی عروبہ کے واسطے سے حضرت قتادہ سے بھی اسی طرح بیان کیا ہے۔ اور محمد بن ثور عن معمر کے واسطے سے حضرت حسن بصری سے بھی ﴿سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ﴾ (کی تفسیر ) دنیا کا عذاب اور قبر کا عذاب بیان کی ہے۔ نیز محمد بن اسحاق سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ امام طبری نے ان (ائمہ مفسرین) کے علاوہ سے بھی ان کے اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرمایا: کہ زیادہ غالب بات یہی ہے کہ ایک عذاب، عذاب قبر ہے اور دوسرا عذاب، دنیا میں بھوک، گرفتاری قبل، ذلت اٹھانے یا کسی اور نوع کا عذاب ہے۔
(فتح البارى، ص : 296/7،3 دار السلام )
مولانا عبد الرحمن عاجز مالیر کوٹلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
اس میں سے ایک تو اس دنیائے فانی کی ذلت و رسوائی ہے جس سے منافقوں کو دوچار ہونا پڑا اور دوسرا مرنے کے بعد کا عذاب قبر ہے۔ کیونکہ بہت سے منافقین کو اس دنیا میں ایک ہی عذاب دیا گیا دو نہیں۔ اس کے برعکس بعض منافقین کو کئی بار بار ذلت و رسوائی سے دوچار ہونا پڑا۔ اب اگر ہر مرتبہ کی ذلت کو ایک بار کا عذاب کہیں تو انھیں دنیا میں دو مرتبہ کے بجائے کئی مرتبہ عذاب ہو گیا۔ اس لیے ان کے حق میں دو مرتبہ عذاب دینے کی بات بے معنی ہو جاتی ہے۔ البتہ دنیا کی ساری رسوائیوں کو ایک عذاب اور قبر کی سختیوں اور گرفتوں کو دوسرا عذاب قرار دیں تو یہ عین تاریخی شہادت اور واقعات کے مطابق ہے۔
(عالم برزخ، ص : 11607)
عصر حاضر کے عظیم سکالر جناب مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس آیت میں جس بڑے عذاب کا ذکر ہے وہ قیامت کا عذاب ہے اور اس سے پہلے جو دو مرتبہ عذاب دیا جائے گا ان میں پہلی مرتبہ کا عذاب تو دنیا کا عذاب ہوا جو ان کی منافقت کا پول کھلنے یا اس قسم کی کسی اور سزا کی شکل میں تھا۔ لیکن دوسری مرتبہ کا عذاب اگر قبر کا عذاب نہیں ہے تو پھر کون سا عذاب ہے؟ اس کی وضاحت فرمادیجیے کیونکہ منافقین میں سے کسی کو بھی دنیا میں دو مرتبہ عذاب دیا جانا ثابت نہیں۔
(انکار حدیث حق یا باطل، ص: 87)

نویں آیت:

➒ ﴿مِّمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًا﴾
اور وہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈبو دیے گئے پھر آگ میں ڈال دیے گئے پس نہ پایا انھوں نے اپنے لیے اللہ کے سوا کوئی مدد کرنے والا۔
(71-نوح:25)
اللہ تعالیٰ نے سیدنا نوح علیہ السلام کو جس قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا وہ قوم کفر و شرک میں اس انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ انھیں توحید کی دعوت دینا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف تھا۔ لیکن جناب نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور فرمایا کہ میں تو تمھیں صرف اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ لہٰذا تم اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت نہ کرو ورنہ مجھے خدشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دردناک عذاب تمھیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ قوم پر آپ کی تبلیغ کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ الٹا انھوں نے نہ صرف آپ کی دعوت کو جھٹلایا بلکہ آپ کو زندگی کے ہر موڑ پر تنگ کرنے اور آپ سے مسخرا پن کرنے کو اپنا معمول بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ قانون ہے کہ جب کوئی قوم ظلم و زیادتی، بغاوت و سرکشی کی انتہا کو پہنچ جائے تو وہ اس کی گرفت سے نہیں بچ سکتی۔ اسی طرح جب قوم نوح کی ہلاکت کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک تنور میں سے پانی جوش مار کر نکلنے لگا۔ آسمان سے بارش ہونے لگی زمین سے بھی پانی نکل رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا۔ پانی کے اس طوفان سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی نوح علیہ السلام اور ان لوگوں کو جو آپ پر ایمان لائے تھے بچا لیا باقی ساری قوم پانی میں غرق کر دی۔ اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿مِّمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾ قوم نوح اپنے گناہوں کی وجہ سے غرق کر دی گئی پھر آگ میں ڈال دی گئی۔ گناہوں کی وجہ سے پانی میں ڈبو دیا جانا یقیناً اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا۔ منکرین عذاب قبر پر افسوس ہے کہ اللہ تعالیٰ تو فرمائے
﴿مِّمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾ جبکہ یہ لوگ اب بھی یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ روز محشر میں حساب و کتاب کے بعد ہی عذاب ہونا ہے اس سے پہلے کوئی عذاب نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ پانی میں ڈبو دیے گئے اور پھر آگ میں داخل کر دیے گئے یعنی غرق ہوتے ہی آتش برزخ میں جھونک دیے گئے۔ یہ آیت بھی عذاب قبر کے وقوع اور عالم برزخ کے وجود پر دلالت کرتی ہے۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فأدخلوا نارا هي نار البرزخ والمراد عذاب القبر ومن مات فى ماء أو نار أو أكلته السباع أو الطير مثلا أصابه ما يصيب المقبور من العذاب
پھر وہ آگ میں داخل کیے گئے یہ برزخ کی آگ ہے اور مراد قبر کا عذاب ہے اور جو کوئی بھی پانی میں ڈوب کر یا آگ میں جل کر مر جائے یا اسے درندے یا پرندے کھا جائیں تو اس کو بھی وہی عذاب ہوتا ہے جو قبر میں دفن شدہ مردوں کو ہوتا ہے۔
(تفسیر روح المعانی: 15/ 135)
امام فخر الدین الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تمسك أصحابنا فى إثبات عذاب القبر بقوله ﴿أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾ وذلك من وجهين الأول أن الفاء فى قوله ﴿فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾ تدل على أنه حصلت تلك الحالة عقيب الإغراق فلا يمكن حملها على عذاب الآخرة وإلا بطلت دلالة هذه الفاء الثاني أنه قال ﴿فَأُدْخِلُوا﴾ على سبيل الخبر عن الماضي وهذا إنما يصدق لو وقع ذلك
ہمارے ساتھیوں نے اللہ تعالیٰ کے قول ﴿أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾ سے عذاب قبر کا اثبات پکڑا ہے اور اس کی دو جہیں ہیں۔ اول تو یہ کہ فأدخلوا کی فاء اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حالت پانی میں غرق ہونے کے فوراً بعد ہی کی بات ہے پس یہ ممکن ہی نہیں کہ اس آیت کو عذاب آخرت( یعنی قیامت) پر محمول کیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے فاء کا مفہوم باطل ہو جائے گا۔ دوم أدخلوا ماضی کی خبر ہے اور یہ اسی وقت صادق آسکتی ہے جب یہ واقع ہو چکا ہو۔
(تفسير كبير: 19/ 145 )
قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں:
آگ سے مراد ہے عالم برزخ یعنی قبر کی آگ کیونکہ قبر یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے کوئی گڑھا۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم نوح عالم برزخ میں عذاب قبر میں مبتلا کر دی گئی کیونکہ فاء کا مفہوم ہے فوراً کسی فعل کے بعد واقع ہو جانا۔
(تفسیر مظهری اردو: 12/ 109)
علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
بظاہر پانی میں ڈبو دیے گئے لیکن فی الحقیقت برزخ کی آگ میں پہنچ گئے۔
(تفسیر عثمانی، ص: 758، حاشیه: 7 )
اشرف الحواشی میں ہے: مرتے ہی ان پر آگ کا عذاب شروع ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جسے احادیث میں عذاب قبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(اشرف الحواشي، ص: 682 ، حاشیه : 12)
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جب یہ طوفان آیا تو اس قوم کے معبودان کے کسی کام نہ آسکے بلکہ وہ بھی ان کے ساتھ غرق ہو گئے اور غرق ہونے کے ساتھ ہی انھیں جہنم میں داخل کر دیا گیا۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے برزخ یا عذاب قبر کا ثبوت قرآن سے مہیا ہوتا ہے۔
(تيسير القرآن: 529/4 )
استاذ العلماء حافظ عبد السلام بھٹوی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:
﴿فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾ ” پس آگ میں داخل کیے گئے۔ “فاء سے ظاہر ہو رہا ہے کہ غرق ہوتے ہی انھیں آگ میں داخل کر دیا گیا تھا یعنی قیامت کے دن جہنم میں جانے سے پہلے برزخ و قبر میں ہی وہ آگ میں داخل کر دیے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے متعلق فرمایا :
﴿وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ النَّارُ﴾
اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا جو آگ ہے اس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔
(40-غافر:46،45)
خلاصہ یہ کہ نوح کی قوم اور آل فرعون کو پہلے پانی میں غرق کیا گیا۔ پانی کے عذاب کے بعد اس کا الٹ یعنی آگ کا عذاب شروع ہو گیا پھر قیامت کے دن جہنم کے ﴿أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ میں داخل کیے جائیں گے۔
یہ آیت اور سورہ مومن کی آیت عذاب قبر کی زبردست دلیلیں ہیں۔
(تفسير القرآن الكريم، ص: 103)
علامہ غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
قرآن مجید میں ہے ﴿أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾ قوم نوح غرقاب ہونے کے فوراً بعد آگ میں داخل کر دی گئی۔ قیامت کے بعد جو عذاب ہوگا وہ غرق ہونے کے فوراً بعد نہیں ہوگا بلکہ وہ عرصہ ہائے دراز کے بعد ہوگا اس لیے جس عذاب کا یہاں ذکر ہے وہ قبر میں ہی ہو سکتا ہے۔
(شرح صحیح مسلم: 7/7-706)
مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عالم برزخ یعنی قبر میں رہنے کے زمانے میں بھی مردوں پر عذاب ہوگا اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ جب قبر میں بدعمل کو عذاب ہوگا تو نیک عمل والوں کو ثواب اور نعمت بھی ملے گی۔ احادیث صحیحہ متواترہ میں قبر کے اندر عذاب و ثواب ہونے کا بیان اس کثرت اور وضاحت سے آیا ہے کہ انکار نہیں کیا جا سکتا اس لیے اس پر امت کا اجماع اور اس کا اقرار اہل سنت والجماعت کی علامت ہے۔
(معارف القرآن : 567/8)
الشیخ ابو محمد عبد الحق الحقانی فرماتے ہیں:
فأدخلوا کی فاء اور صیغہ ماضی سے اہل سنت والجماعت نے ثابت کیا ہے کہ حشر سے پہلے بھی مومن و کافر کو ثواب و عذاب اس کے اعمال و ایمان سے ملتا ہے۔
(تفسیر حقانی: 229/8)
اعتراض ① : فاضل صاحب کے بے تکے اعتراضات سے یہ آیت بھی نہ بچ سکی چنانچہ لکھتے ہیں: فأدخلوا (پس داخل کیے گئے) ماضی کا صیغہ ہونے کی بنا پر آگ میں ڈالے گئے کا مفہوم لیا گیا ہے حالانکہ مستقبل کی بات کو یقینی اہل بنانے کے لیے صیغہ ماضی کا استعمال قرآن میں متعدد جگہ ہوا ہے۔ اس لیے صیغہ ماضی عذاب قبر کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس سے قرآن میں تضاد بیانی ثابت ہوتی ہے۔
(عذاب قبر : 16)
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام توجیہات مجازی ہیں۔ جب اصل کلام میں حقیقت ہے تو پھر خواہ مخواہ حقیقی معنی چھوڑ کر مجاز کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں کیونکہ عذاب قبر نہ صرف قرآن مجید سے بلکہ کثیر احادیث سے ثابت ہے اور پھر سلف صالحین کا بھی اس پر اجماع ہے۔
فأدخلوا پر فاء عاطفہ ہے۔ جہاں ترتیب اور تعقیب بتانا مقصود ہو یعنی یہ کام پہلے کام کے بعد ہوا اور اس کے فوراً بعد ہوا تو یہ فاء استعمال ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ ان کے غرق ہونے کے بعد ﴿فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾ انھیں آگ میں ڈال دیا گیا۔ اگر یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہوتا کہ قیامت کے روز ان کو واصل جہنم کیا جائے گا تو فأدخلوا کے بجائے ثم فأدخلوا ہوتا۔
اعتراض ② : فاضل صاحب کا خیال ہے کہ یہاں فأدخلوا صیغہ ماضی عذاب قبر کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس سے قرآن مجید میں تضاد بیانی ہوتی ہے یعنی حشر کے دن فیصلہ کے بعد جزا دیے جانے کے خلاف ہے۔ صیغہ ماضی (داخل کیے گئے) کی بجائے مستقبل( داخل کیے جائیں گے) کے معنی لینے سے قرآن میں کوئی اشکال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
(ايضاً)
جواب: فاضل صاحب اگر ہر کسی کو قیامت کے دن فیصلے کے بعد ہی سزا ملنی ہے یعنی آپ کے بقول قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہے تو پھر یہ بتائیے کہ کیا پانی میں غرق کیا جانا عذاب ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ کیا یہ سزا بھی مل چکی ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو یہ حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ قوم نوح اس دنیا سے مدتوں پہلے غرق ہو چکی ہے۔
اور اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ بڑا عذاب تو حشر ہی کے دن سے شروع ہوگا جبکہ اس کے علاوہ اور کئی قسم کے عذابوں کا قیامت سے پہلے ملنا قرآن مجید کی تضاد بیانی نہیں صاف بیانی اور حقیقت بیانی ہے۔ نیز کیا أغرقوا کا معنی بھی مستقبل (غرق کیے جائیں گے) میں کریں گے جبکہ وہ دنیا ہی میں غرق کیسے جا چکے ہیں۔
مثال: اگر کوئی آدمی جرم کرے تو پولیس اسے پکڑتی ہے۔ عدالت میں فیصلہ سنانے سے پہلے بھی اس مجرم کو مختلف قسم کی سزائیں ملتی ہیں لیکن مجرم کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ میری اصل سزا تو عدالت کے فیصلے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ یہ سب سزائیں عارضی ہیں۔ حوالات میں بند رہنا اور وہاں پر ملنے والی طرح طرح کی سزاؤں کا کوئی بھی عقل مند انسان انکار نہیں کرتا۔
اعتراض ③ : آیت کے لفظ نارا سے صرف دوزخ کی آگ ہی مراد ہو سکتی ہے کیونکہ آگ کا ذکر دوزخ کے ساتھ مخصوص ہے۔
جواب: ہم کب کہتے ہیں کہ یہ آگ دوزخ کی آگ کے علاوہ کوئی اور آگ ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ برزخ کی آگ بھی دوزخ کی آگ ہی کا حصہ ہے اور پھر برزخ ہی کی آگ نہیں بلکہ ہماری اس دنیا کی جو آگ ہے یہ بھی دوزخ ہی کی آگ کا ایک حصہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ناركم هٰذه التى يوقد ابن آدم جزء من سبعين جزءا من حر جهنم قالوا والله إن كانت لكافية يا رسول الله قال فإنها فضلت عليها بتسعة وستين جزءا كلها مثل حرها
تمہاری یہ( دنیا کی )آگ جسے ابن آدم جلاتا ہے جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول( انسانوں کو جلانے کے لیے یہی) کافی تھی۔ آپ نے فرمایا لیکن وہ تو دنیا کی آگ سے انہتر (69) درجہ زیادہ گرم ہے اور اس کا ہر حصہ اس دنیا کی آگ کے برابر ہے۔
(مسلم، كتاب الجنة ونعيمها، باب جهنم اعاذنا الله منها، رقم: 7165)
اعتراض ④ : عذاب قبر کی حدیث میں بھی آگ کے عذاب کا ذکر نہیں ہے۔
جواب: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ کافر جب قبر میں ہونے والے سوالات کے جوابات دینے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اس کے لیے آگ کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانا ہے اور دوسرے عذاب جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے تیار کر رکھے ہیں۔
(صحيح ابن حبان، كتاب الجنائز، فصل في احوال الميت في قبره، رقم: 3103 طبع جدید)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
فنادى مناد من السماء أن كذب فافرشوا له من النار، وافتحوا له بابا إلى النار، فيأتيه من حرها وسمومها ويضيق عليه قبره حتى تختلف أضلاعه، وياتيه رجل قبيح الوجه، قبيح القياب، منتن الريح، فيقول ابشر بالذى يسوءك هذا يومك الذى كنت توعد، فيقول من انت؟ فوجهك الوجه يجيء بالشر، فيقول أنا عملك الخبيث فيقول رب لا تقم الساعة .
آسمان سے منادی کی آواز آتی ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے، اس کے لیے آگ کا بستر بچھا دو اور اس کے لیے (جہنم کی) آگ کی طرف سے ایک دروازہ کھول دو۔ چناں چہ (جہنم کی) آگ کی گرم اور زہریلی ہوا اسے آنے لگتی ہے اور اس پر اس کی قبر کو تنگ کر دیا جاتا ہے، حتی کہ اس کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں پیوست ہو جاتی ہیں، پھر اس کے پاس ایک بدصورت، گندے کپڑوں والا ، بدترین، بد بو والا شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ تجھے برے انجام کی بشارت ہو۔ یہ ہے وہ دن جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ کافر کہتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا تو چہرہ ہی ایسا ہے جو ( میرے پاس) شر لے کر آیا ہے۔ وہ جواب میں کہتا ہے: میں تیرے گندے اعمال ہوں ، تب کافر کہتا ہے: میرے رب ! قیامت قائم نہ کرنا۔
(مسند احمد: 4/ 288 )
یہ چند حدیثیں بطور اشارہ ہم نے ذکر کی ہیں ورنہ کئی احادیث میں آگ کے عذاب کا ذکر ہے البتہ اگر منکرین عذاب قبر کی آنکھوں پر انکار کی پٹی بندھی ہو تو اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔
ؔ؎ آنکھیں گر بند ہوں تو دن بھی رات ہے
اس میں قصور کیا ہے بھلا آفتاب کا
اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ ضروری نہیں عذاب صرف آگ ہی سے دیا جائے بلکہ جس طرح دنیا میں عذاب کی مختلف قسمیں ہیں ایسے ہی آخرت میں بھی عذاب کی مختلف قسمیں ہوں گی جیسا کہ صحیح مسلم میں وآخر من شكله أزواج (حدیث پیچھے گزر چکی ہے) (اور اس قسم کے دوسرے کئی عذاب) کے الفاظ ہیں۔ اگر منکرین عذاب قبر نے کوئی ایسی حدیث پڑھی ہو جس میں آگ کے عذاب کا ذکر نہ ہو تو کیا اس سے دوسرے عذابوں کی نفی ہو جائے گی؟ معلوم ہوا کہ منکرین عذاب قبر کا یہ کہنا کہ کسی حدیث میں بھی آگ کے عذاب کا ذکر نہیں سراسر غلط اور مبنی بر جہالت ہے۔

دسویں آیت:

➓ ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ. قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا. قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ.﴾
اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا پس بے شک اس کے لیے تنگ زندگی ہوگی اور ہم اس کو قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ اور وہ کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا حالانکہ اس سے پہلے تو میں بلا شبہ دیکھنے والا تھا؟ وہ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری نشانیاں آئیں تو نے ان کو فراموش کر دیا اور اسی طرح آج کے دن تجھے فراموش کر دیا جائے گا۔
(20-طه:124تا 126)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو شخص میرے ذکر سے اعراض کرے گا اسے تنگ زندگی ملے گی جبکہ روز قیامت وہ اندھا کر کے اٹھایا جائے گا اپنے اس انجام کے متعلق وہ اللہ تعالیٰ سے پوچھے گا کہ اے میرے پروردگار! میرا یہ حشر کیوں ہوا ہے حالانکہ دنیا میں تو میں ٹھیک ٹھاک تندرست تھا میری آنکھیں بھی ٹھیک تھیں مگر آج مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا یہ مجھے اندھا کیوں کیا گیا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تیرا یہ حشر اس وجہ سے ہوا ہے کہ تیرے پاس ہماری آیات پہنچی تھیں مگر تو نے ان سے روگردانی کی۔ دنیا میں تو نے میری آیات کے ساتھ ایسا کیا لہٰذا آج تیرے ساتھ بھی ایسا کیا جا رہا ہے۔
ذکر سے مراد ایک تو وہ معروف ذکر ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ﴾
پس تم مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد کروں گا اور میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو۔
(2-البقرة:152)
نماز پڑھنا سبحان الله، الحمد لله، الله أكبر، لا إلٰه إلا الله وغیرہ یہ سب ذکر کی قسمیں ہیں۔
اور قرآن مجید بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ بے شک ہم نے ہی ذکر( قرآن) کو نازل کیا ہے اور بے شک ہم خود ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (15-الحجر:9)
یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ذکر کہا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ذکر سے تعبیر فرمایا گیا ﴿قَدْ أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ‎۔‏ رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ﴾
یقیناً اللہ نے تمہاری طرف ذکر نازل کیا ہے (یعنی )رسول جو تم پر اللہ تعالیٰ کی آیات تلاوت کرتا ہے۔
(64-الطلاق:10،11)
یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ذکر کا لفظ بولا گیا ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض نے کہا ہے ذکر سے مراد یہاں رسول ہے چنانچہ ساتھ ہی فرمایا ہے رسولا تو یہ بدل اشتمال ہے چوں کہ قرآن کے پہنچانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں تو اس مناسبت سے آپ کو لفظ ذکر سے یاد کیا گیا ہے۔ حضرت امام ابن جریر بھی اسی مطلب کو درست بتلاتے ہیں۔
(تفسير ابن كثير اردو: 446/5)
جب رسول کو ذکر سے تعبیر فرمایا گیا ہے تو اس رسول کی بات( حدیث )بھی ذکر ہوئی۔ حاصل کلام یہ کہ جس کسی نے بھی قرآن یا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ اس کو تنگی کی زندگی دے گا۔
اب یہاں سوال ہے کہ یہ تنگی کی زندگی کس جہان میں ملے گی؟ دنیا، برزخ یا آخرت؟ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی تو مراد ہو نہیں سکتی کیونکہ اس کے لیے تو الگ سے ﴿وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾ کہا گیا ہے۔
اب باقی دو جہان دنیا اور برزخ ہیں۔ مذکورہ آیت میں یہ تفصیل کہیں نہیں ہے کہ تنگ زندگی دنیا میں ملے گی یا آخرت میں۔
اگر ہم اس کو مطلق رکھیں تب بھی یہ آیت عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے منہ موڑنے والے کی دنیاوی زندگی بھی تنگی میں گزرے گی اور برزخی زندگی بھی تنگی ہی کی ہوگی دکھوں تکلیفوں اور طرح طرح کے عذابوں والی زندگی۔
اور اگر صرف دنیا کی زندگی ہی مراد لیں تو یہ ایک ایسی بات ہوگی جو کہ بالکل یہ دلیل ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس ہم صرف برزخ کی زندگی ہی مراد لیں تو یہ غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ دنیا میں بے شمار اللہ تعالیٰ کے باغی اور نافرمان لوگ ایسے گزرے ہیں جنھوں نے بڑی ٹھاٹھ کی زندگی بسر کی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بے شمار ایسے لوگ بھی گزرے ہیں بلکہ آج بھی موجود ہیں جو بڑے متقی اور پرہیزگار تھے مگر ان کا جینا تنگی کا جینا تھا۔ قدم قدم پر مصیبتیں آزمائشیں بلکہ جتنا کوئی زیادہ متقی اور ولی اللہ تھا اس پر اتنی ہی زیادہ مصیبتیں اور مشقتیں آتی ہیں۔ مثلاً :
فرعون اللہ تعالیٰ کا نافرمان تھا مگر دنیا میں بڑی عیش و عشرت کی زندگی بسر کر کے گیا ایسے ہی ہامان قارون نمرود اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے کئی نافرمان۔ جبکہ اس کے برعکس حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کے رفقاء کی یہ حالت تھی کہ دو وقت کی روٹی بھی اچھی طرح میسر نہیں آتی تھی کئی کئی دن ان کے چولہوں میں آگ تک نہیں جلتی تھی۔ آج بھی دیکھ لیں کہ اللہ کے باغی بڑی ٹھاٹھ کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کی عرصہ حیات دن بدن تنگ کیا جا رہا ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ خود صاحب قرآن جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معيشة ضنكا کو عذاب قبر سے تعبیر فرمایا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کا سفر آخرت بیان کر کے کافر کے متعلق فرمایا:
وإن الكافر إذا أتي من قبل رأسه لم يوجد شيء ثم أتىٰ عن يمينه فلا يوجد شيء ثم أتىٰ عن شماله فلا يوجد شيء ثم أتي من قبل رجليه فلا يوجد شيء فيقال له اجلس فيجلس خائفا مرعوبا فيقال له أرأيتك هذا الرجل الذى كان فيكم ماذا تقول فيه وماذا تشهد به عليه فيقول أى رجل فيقال الذى كان فيكم فلا يهتدي لاسمه حتىٰ يقال له محمد فيقول ما أدري سمعت الناس قالوا قولا فقلت كما قال الناس فيقال له علىٰ ذلك حييت وعلىٰ ذلك مت وعلىٰ ذلك تبعث إن شاء الله ثم يفتح له باب من أبواب النار فيقال له هذا مقعدك من النار وما أعد الله لك فيها فيزداد حسرة وثبورا ثم يفتح له باب من أبواب الجنة فيقال له ذلك مقعدك من الجنة وما أعد الله لك فيه لو أطعته فيزداد حسرة وثبورا ثم يقيض عليه قبره تختلف فيه أضلاعه فتلك المعيشة الضنك التى قال اللہ ﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾
اور بے شک کا فر کو ( عذاب دینے کے لیے فرشتے ) اس کے سر کی طرف سے آتا ہے وہ (ایمان اور عمل صالح کی ) کوئی رکاوٹ نہیں پاتا، پھر وہ اس کی دائیں طرف سے آتا ہے، پس وہ کوئی رکاوٹ نہیں پاتا، پھر وہ اس کی بائیں جانب سے آتا ہے (ادھر بھی ) وہ کوئی رکاوٹ نہیں پاتا، پھر وہ اس کے پاؤں کی جانب سے آتا ہے (ادھر بھی) وہ کوئی رکاوٹ نہیں پاتا، پھر اس (کافر) کو کہا جاتا ہے، بیٹھ جا! پس وہ خوف زدہ اور سہمہ ہوا بیٹھ جاتا ہے۔ وہ (فرشتے) اس سے پوچھتے ہیں : جو شخص تم میں ( بھیجا گیا ) تھا اس کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟ اور اس کے بارے میں تو کیا گواہی دیتا ہے؟ پس وہ (کافر) جواب دیتے ہوئے پوچھتا ہے؟ کونسا آدمی؟ وہ (فرشتے) کہتے ہیں جو تم میں( بھیجا گیا) تھا۔ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے متعلق کچھ پتہ نہیں ہوتا یہاں تک کہ اسے بتایا جاتا ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (متعلق پوچھا جارہا ہے ) تو وہ جواب دیتا ہے، میں نہیں جانتا۔ میں نے تو لوگوں کو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ) کچھ کہتے ہوئے سنا تھا، پس میں نے بھی لوگوں کی طرح ہی کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی شک پر تو زندہ رہا، اور اسی شک پر مرا، اور اگر اللہ نے چاہا تو اس شک پر تو اٹھایا جائے گا۔ پھر جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے، ساتھ ہی اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ آگ سے تیرا ٹھکانا، اور ( دوسرے عذاب ) جو اللہ نے تیرے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ پس (اس نظارے کے بعد ) اس کی ندامت اور ہلاکت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر اس کے لیے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ اگر تو (اللہ اور اس کے رسول) کی اطاعت کرتا تو یہ جنت تیرا ٹھکانا ہوتا، اور ( دوسری نعمتیں) جو اللہ نے تیرے لیے اس میں تیار کر رکھی تھیں ۔ (اس نظارے کے بعد ) اس کی ندامت اور ہلاکت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ پھر اس پر اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں ھنس جاتی ہیں ، پس یہ ہے معيشة ضنكا ( کی تفسیر ) جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾
صحيح ابن حبان، کتاب الجنائز، ذكر الخبر المدحض قول من زعم ان الميت اذا وضع في قبره لا يحرك منه شيء الى ان يبلى، رقم: 3103 الشیخ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم فى قوله ﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾ قال عذاب القبر
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾ کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا( اس کی تفسیر) عذاب قبر ہے۔
صحیح ابن حبان، کتاب الجنائز، ذكر الخبر المدحض قول من انكر عذاب القبر، رقم: 3109 اشیخ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
عن ابن مسعود قال إذا مات الكافر أجلس فى قبره، فيقال له: من ربك، وما دينك، فيقول: لا أدري، فيضيق عليه قبره، ثم قرأ ابن مسعود: ﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾ قال المعيشة الضنك عذاب القبر
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب کافر مر جاتا ہے تو اسے اس کی قبر میں بیٹھا دیا جاتا ہے پھر اس سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا تھا؟ وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا۔ پھر اس پر اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے قرآن مجید کی آیت ﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾ کو پڑھا اور فرمایا کہ معيشة ضنكا عذاب قبر ہے۔
(احوال القبور لابن رجب، ص: 49 بيروت)
عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: يطبق على الكافر قبره حتى تختلف فيه أضلاعه، وهى المعيشة الصنك التى قال الله: ﴿مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کافر پر اس کی قبر مل جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر ادھر ہو جاتی ہیں اور یہی معيشة ضنكا ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ﴿مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾ فرمایا ہے۔
(تفسير الطبري: 472/8 دار الكتب)
امام ابو صالح اور امام سدی سے بھی اس کی تفسیر عذاب قبر ہی منقول ہے۔
(ايضاً)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقول رابع وهو الصحيح أنه عذاب القبر قاله أبو سعيد الخدري وعبد الله بن مسعود وروى أبو هريرة مرفوعا عن النبى صلى الله عليه وسلم وقد ذكرناه فى كتاب التذكرة قال أبو هريرة يضيق على الكافر قبره حتى تختلف فيه أضلاعه وهو المعيشة الضنك
اور چوتھا قول جبکہ یہی صحیح قول ہے کہ بے شک وہ معيشة ضنكا عذاب قبر ہے۔ یہ قول ابو سعید خدری اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا ہے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرفوعاً بیان کیا ہے جسے ہم نے (اپنی) کتاب” التذکرہ“ میں بیان کیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کافر پر اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس میں اس کی پسلیاں ادھر ادھر ہو جاتی ہیں یہی معيشة ضنك ہے۔
(تفسير القرطبي: 11/ 259 طبع ایران )
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد قيل إن المراد بالمعيشة الضنكى عذاب القبر سيأتي ما يرجح هذا ويقويه
اور تحقیق (یہ بھی) کہا گیا ہے کہ بے شک معيشة ضنك سے مراد عذاب قبر ہے عنقریب (مفصل بیان) آئے گا جو اس (تفسیر) کو راجح اور قوی ثابت کرے گا۔
اس کے بعد امام شوکانی رحمہ اللہ کئی احادیث اور آثار نقل کرنے کے بعد اپنا فیصلہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ومجموع ما ذكرنا هنا يرجح تفسير المعيشة الضنكى بعذاب القبر
اور( ان تمام روایتوں کا )مجموعہ جو ہم نے یہاں ذکر کی ہیں وه معيشة ضنك کی تفسیر کو عذاب قبر کے ساتھ راجح کرتا ہے۔
(تفسير فتح القدير: 392/3 )
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں:
امام بغوی نے حضرت ابن مسعود حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم کا قول نقل کیا ہے کہ معيشة ضنك سے مراد عذاب قبر ہے۔ بزار نے عمدہ سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ معيشة ضنك عذاب قبر ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا زمین اس کو دبائے گی کہ اس کی پسلیاں ادھر ادھر نکل جائیں گی۔ بعض مسند احادیث میں مرفوعاً آیا ہے کہ اس پر قبر اس طرح سمٹے گی کہ اس کی پسلیاں ادھر ادھر نکل جائیں گی اور قبر سے اٹھائے جانے کے وقت تک برابر عذاب اس پر ہوتا رہے گا۔
(تفسير مظهری اردو 435/7)
سید احمد حسن محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حاصل مطلب ان آیات کا یہ ہے کہ جس شخص نے آسمانی کتاب اور اللہ کے رسول کو نہ مانا وہ مرتے ہی عذاب قبر میں گرفتار ہوگا۔ معيشة ضنك کی تعریف میں اگرچہ سلف کے کئی اقوال ہیں لیکن حافظ ابو جعفر بن جریر نے اپنی تفسیر میں عذاب قبر کی تفسیر کو ترجیح دی ہے معتبر سند سے مسند بزار میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس میں خود صاحب وحی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معيشة ضنك کی تعریف عذاب قبر فرمائی ہے۔
(احسن التفاسير : 4 / 199)
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ صاحب فرماتے ہیں:
قبر میں ان کی معیشت تنگ کر دی جائے گی خود جوان کا مسکن ہوگا وہ ان کو ایسا دبائے گا کہ ان کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں گی جیسا کہ بعض احادیث میں اس کی تصریح ہے۔
(معارف القرآن: 6 / 160)

گیارھویں آیت:

⓫ ﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ .‏ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ . كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎.‏ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎. كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ.﴾
زیادتی کی چاہت نے تمھیں غافل کر دیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ ہرگز نہیں عنقریب تم جان لو گے۔ پھر ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے۔ ہرگز نہیں! اگر تمہیں( اس کا انجام) معلوم ہوتا یقینی علم کی حیثیت سے( تو تم ایسا ہرگز نہ کرتے)۔
(102-التكاثر:1 تا 5)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو دنیا پرستی کے بدترین انجام سے خبردار کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مرتے دم تک زیادہ سے زیادہ مال و دولت اور دنیاوی فائدے اور لذتیں اور جاہ اقتدار حاصل کرنے اور اس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے اور انہی چیزوں کے حصول پر فخر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی چیز نے انھیں فکر آخرت سے غافل کر دیا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کے برے انجام سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ﴿حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ﴾ ” یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔“
علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أى حتىٰ متم ودفنتم فى المقابر يقال لمن مات زار قبره
یعنی یہاں تک کہ تم مر گئے اور تم قبروں میں دفن کر دیے گئے۔ جو شخص مر جاتا ہے اسے (عربی میں) کہا جاتا ہے زار قبره (اس نے اپنی قبر دیکھ لی۔)
(تحفة الاحوذي: 266/9 طبع جديد)
﴿كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ. ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.﴾
ہرگز نہیں! عنقریب تم لوگ جان لو گے پھر ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے۔
(التكاثر : 4،3 )
یہ تکرار تاکید مضمون کے لیے ہے جس میں ایک وعید کے بعد دوسری وعید بیان کی گئی ہے۔ پہلی وعید عذاب برزخ اور دوسری وعید عذاب آخرت کے متعلق ہے۔
امام فخر الدین الرازی تفسیر کبیر میں اس کے مکرر آنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أحدها أنه للتأكيد وأنه وعيد بعد وعيد
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ بے شک یہ تاکید کے لیے ہے اور بے شک وہ (تاکید )ایک وعید کے بعد دوسری وعید ہے۔
دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أن الأول عند الموت حين يقال لا بشرى والثاني فى سؤال القبر من ربك والثالث عند النشور حين ينادي المنادي فلان شقي شقاوة لا سعادة بعدها أبدا وحين يقال وامتازوا اليوم
بے شک پہلا كلا سوف موت کے متعلق ہے جس وقت کہا جائے گا کہ تیرے لیے کوئی بھی بشارت نہیں۔ اور دوسرا قبر کے سوال من ربك کے متعلق ہے۔ اور تیسرا قیامت کے متعلق ہے کہ جس وقت اعلان کرنے والا اعلان کرے گا فلان بدبخت ہے اس کے بعد کوئی بھی مبارک باد نہیں اور جس وقت کہا جائے گا آج مجرم الگ ہو جائیں۔
(تفسير كبير، ص: 78، جز : 32 )
امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو وعيد بعد وعيد وكذا قال الحسن
وہ ایک وعید کے بعد دوسری وعید ہے۔اور امام حسن بصری رحمہ اللہ بھی اسی طرح فرماتے ہیں۔
﴿فتح القدير، ص: 1651 جديد﴾
امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
قال ابن عباس ﴿كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ ما ينزل بكم من العذاب فى القبر ‏ ﴿ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ فى الآخرة إذا حل بكم العذاب فالأول فى القبر والثاني فى الآخرة فالتكرار للحالتين
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ﴿كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ سے مراد وہ عذاب ہے جو قبر میں نازل ہوگا اور ﴿ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ سے مراد عذاب آخرت ہے۔ پس پہلی (آیت) قبر کے بارے میں اور دوسری آخرت کے بارے میں ہے۔ پس تکرار دو حالتوں کے لیے ہے۔
﴿تفسير القرطبي: 20/ 160 بيروت﴾
علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قال على بن أبى طالب الأول فى القبور والثاني فى النشور
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلا كلا سوف عذاب قبر اور دوسرا عذاب حشر کے بارے میں ہے۔
﴿تفسير روح المعانی، ص : 403 ، جز : 30﴾
امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي هذا دليل على صحة القول بعذاب القبر لأن الله تعالى ذكره أخبر عن هؤلاء القوم الذين ألهاهم التكاثر أنهم سيعلمون ما يلقون إذا هم زاروا القبور وعيدا منه لهم وتهديدا
اس (سورت )میں عذاب قبر کے برحق ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے اور ان لوگوں کی خبر دی ہے جنھیں مال کی کثرت نے غفلت میں ڈال دیا کہ بے شک عنقریب وہ جان لیں گے جس چیز سے وہ ملیں گے جب وہ قبریں دیکھیں گے۔ یہ ان کے لیے وعید اور ڈراوا ہے اس (اللہ تعالیٰ) کی طرف سے۔
(تفسير الطبري: 12/ 679 طبع جدید )
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ يعني فى القبور وقيل ﴿كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ إذا نزل بكم الموت وجاءتكم رسل لتنزع أرواحكم ﴿ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ إذا دخلتم قبوركم وجاءكم منكر ونكير وحاط بكم هول السؤال وانقطع منكم الجواب
ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے یعنی قبروں میں اور کہا گیا ہے کہ پہلے ﴿كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ کا مطلب ہے جب تمہیں موت آئے گی اور فرشتے تمہاری روحیں قبض کرنے کے لیے آئیں گے دوسرے ﴿كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ کا مطلب جب تم قبروں میں پہنچ جاؤ گے اور منکر نکیر آ جائیں گے اور سوال تمہیں گھیر لیں گے اور تمہارے جواب ٹوٹ جائیں گے۔
(تفسير القرطبي: 118/10 دار الكتب )
علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اعلم أن فى القرآن المجيد آيات تدل على ثبوت عذاب القبر أحدها هذه الآية أعني قوله تعالىٰ ﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ‎ ۔ ‏ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۔﴾
(یہ بات اچھی طرح) جان لے کہ بے شک قرآن مجید میں کئی ایسی آیات ہیں جو عذاب قبر کے اثبات پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک آیت یہ بھی ہے میری مراد اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ‎ . ‏ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ.﴾ ہے۔
(تحفة الاحوذي: 266/9 بيروت )
ڈاکٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں تم اللہ کی یاد اور فکر آخرت سے یکسر غافل رہو گے یہاں تک کہ تم قبر میں پہنچ جاؤ گے اس وقت تمہاری آنکھوں کا پردہ ہٹ جائے گا اور حقیقت تمہارے سامنے آ جائے گی لیکن اس وقت ایمان و یقین کا کوئی فائدہ نہیں۔
(تيسير الرحمن: 1766/2)

بارھویں آیت:

⓬ ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎.وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ‎.﴾
آپ کہہ دیجیے! اے یہودیو! اگر تمہارا خیال ہے کہ تمام لوگوں کے سوا صرف تم ہی اللہ کے دوست ہو تو اپنی موت کی تمنا کرو اگر تم( اپنے دعوے میں) سچے ہو۔ اور وہ (یہود) کبھی بھی اپنے مرنے کی تمنا نہیں کریں گے بسبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
(62-الجمعة:6،7)
یہود کہا کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔(المائدة: 18) ہم جہنم میں ہرگز نہیں جائیں گے اور اگر بالفرض جہنم میں چلے بھی گئے تو چند دن کے لیے ہی جائیں گے (البقرة: 80) اور وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جنت میں صرف یہود ہی جائیں گے۔ (البقرة: 111 )
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم اپنے ان دعووں میں سچے ہو تو پھر موت کی تمنا کرو کیونکہ موت ہی جنت کے انعام و اکرام حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اور پھر یہ بھی خبر دے دی کہ یہودی موت کی تمنا ہرگز نہ کریں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ موت کے فوراً بعد ہمیں اپنی بداعمالیوں کی سزا ملنا شروع ہو جائے گی۔
اب یہاں ﴿فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ﴾ ( پس موت کی تمنا کرو) فرمایا ہے۔ اگر مرنے کے بعد قبر میں ثواب و عذاب نہ ہوتا تو ﴿فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ﴾ فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟ فتمنوا الحشر یا فتمنوا القيامة کہہ دیا جاتا؟ منکرین عذاب قبر کو غور کرنا چاہیے کہ عالم دنیا میں سکون بھی ہوتا ہے اور تکلیفیں بھی یہی حال عالم حشر میں ہوگا وہاں بھی بعض لوگوں کو راحت و لذت ملے گی اور بعض کو رنج و الم سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اب اگر عالم برزخ میں جزا و سزا نہیں ہے جیسا کہ منکرین عذاب قبر کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالم برزخ عالم دنیا اور عالم حشر سے بہتر اور اعلیٰ ہے کیونکہ عالم دنیا اور عالم حشر میں تو جزا و سزا ہے جبکہ برزخ میں ایسا نہیں؟ ففهم وتدبر
خود منکرین عذاب قبر آیت ﴿يَاوَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا﴾ (يس : 52) ہائے ہماری شامت! ہمیں کس نے ہماری خواب گاہ سے اٹھایا؟ کو عذاب قبر کی نفی میں بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قبر تو خواب گاہ ہے جہاں پر عذاب دیے جانے کا کوئی تنگ ہی نہیں بنتا۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ اگر موت کے بعد جزا و سزا نہیں ہے تو ﴿فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ﴾ کیوں فرمایا؟ کیا اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) یہود کو دنیا کی دکھ تکلیفوں سے نجات دلا کر قبر میں بھیج کر آرام پہنچانا چاہتا ہے؟
اگلی آیت ﴿وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ﴾ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اپنی موت کی تمنا ہرگز نہیں کر سکتے اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ انھوں نے جو گناہ کیے ہیں وہ آگ میں پہنچانے والے گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان کے جرائم کی زیادہ خبر ہے لہٰذا موت کی تمنا کرنا تو خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ یہود اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ جو کرتوتیں ہم نے کی ہیں یہاں سے چھوٹتے ہی ان کی سزا میں فوراً گرفتار ہو جائیں گے۔
معلوم ہوا کہ مرنے کے فوراً بعد جزا و سزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اسی جزا و سزا کو عذاب قبر کہتے ہیں۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فعلموا أنهم لو تمنوا لماتوا من ساعتهم ولحقهم الوعيد
پس وہ جانتے تھے کہ اگر ہم موت کی تمنا کریں گے تو فوراً مر جائیں گے اور وعید ان کو پالے گی۔
(روح المعاني : 404/28)
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس آیت کے نزول کے بعد محض اپنے دعوے کو سچا قرار دینے کی خاطر انھوں نے جھوٹ موٹ یا زبانی طور پر بھی موت کی آرزو نہیں کی اس لیے کہ انھیں اپنی بداطواریوں کا پوری طرح علم ہے اور انھیں دل سے یہ یقین ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی جنت کی بجائے سیدھے جہنم رسید ہوں گے لہٰذا نہ صرف یہ مرنے کی آرزو نہیں کرتے بلکہ زیادہ سے زیادہ مدت زندہ رہنے پر انتہائی حریص واقع ہوئے۔
(تيسير القرآن: 444/4 )

تیرھویں آیت:

⓭ ﴿يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ . ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً. فَادْخُلِي فِي عِبَادِي ‎. وَادْخُلِي جَنَّتِي.﴾
اے اطمینان والی روح! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا۔
(89-الفجر:27 تا 30)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کا انجام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انھیں فرشتے یہ خوشخبریاں سناتے ہوئے ان کی ارواح کو کہتے ہیں کہ اپنے رب کی طرف چلو۔ تمہارا رب تم سے خوش ہے اور وہ تمہیں بھی خوش کر دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ اے روح! میرے خاص بندوں کے پاس چلی جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
مومن کی روح کو یہ خطاب مرتے وقت ہوگا جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مرتے وقت بھی ہو اور قبر سے اٹھتے وقت بھی یہ خطاب ہو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے اس میں یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشم (کا کفن) لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں:
أخرجي راضية مرضية عنك إلىٰ روح الله وريحان ورب غير غضبان
(اے پاک روح!) اللہ تعالیٰ کی رحمت جنت کی خوشبو اور اپنے خوش ہونے والے رب کی طرف نکل چل اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔
(مستدرك حاكم كتاب الجنائز : 1/ 354) امام حاکم اپنے محدثانہ انداز میں فرماتے ہیں: هذه الاسانيد كلها صحيحة
ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
أخرجي أيتها النفس الطيبة كانت فى الجسد الطيب أخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان
اے پاک روح! تو جس پاک جسم میں تھی (اس سے) نکل آ اس حال میں کہ تو تعریف کے لائق ہے اور تو خوش ہو جا( اللہ کی) رحمت کے ساتھ (جنت کی) خوشبو کے ساتھ اور (تیرا) رب تجھ سے ناراض نہیں۔
ابن ماجه، ابواب الزهد، باب ذكر الموت والاستعداد له، رقم: 4262 الشیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
أيتها النفس الطيبة أخرجي إلىٰ مغفرة من الله ورضوان
اے پاک روح! اللہ کی مغفرت اور رضامندی کی طرف نکل چل۔
(مسند احمد: 4 / 288 طبع قدیم)
الشیخ عبد الحق الحقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ بات بوقت مرگ بھی نیکوں سے پیش آتی ہے کیونکہ یہ بھی قیامت صغریٰ ہے رحمت کے فرشتے نہایت مہربانی سے کہتے ہیں کہ اے روح اطمینان والی! چل اپنے رب کی طرف اس ویرانہ دنیا کو چھوڑ کر تو اس سے خوش وہ تجھ سے خوش۔ تیرے لیے وہاں بڑی تیاریاں ہیں۔ احادیث صحیح میں اس کی بکثرت تصریح ہے۔
(تفسیر حقانی: 132/8)
امام ابو صالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً﴾ قال هذا عند الموت ‏ ﴿فَادْخُلِي فِي عِبَادِي﴾ قال هذا يوم القيامة
﴿ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً﴾ یہ موت کے وقت کہا جائے گا جبکہ ﴿فَادْخُلِي فِي عِبَادِي﴾ یہ قیامت کے دن کہا جائے گا۔
(تفسير الطبرى جز : 30، ص: 209 طبع جدید)
اسامہ بن زید رحمہ اللہ اپنے باپ سے ﴿يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ﴾ کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بشرت بالجنة عند الموت ويوم الجمع وعند البعث۔ جنت کی یہ بشارت موت کے وقت بھی دی جائے گی اور اکٹھا کیے جانے کے دن اور اٹھاتے وقت بھی۔
(ايضاً )
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو وہیں سکون اور اطمینان والی ہیں پاک اور ثابت ہیں حق کی ساتھی ہیں ان سے موت کے وقت اور قبر سے اٹھنے کے وقت کہا جائے گا کہ تو اپنے رب کی طرف اور اس کے پڑوس کی طرف اس کے ثواب اور اجر کی طرف اس کی جنت اور رضامندی کی طرف لوٹ چل یہ خدا سے خوش ہیں اور خدا اس سے راضی ہے اور اتنا دے گا کہ یہ بھی خوش ہو جائے گا اور میرے خاص بندوں میں آجا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
(تفسیر ابن کثیر اردو 636/5)
سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ بات اس سے موت کے وقت بھی کہی جائے گی اور قیامت کے روز بھی کہی جائے گی جب وہ دوبارہ اٹھ کر میدان حشر کی طرف چلے گا اس وقت بھی کہی جائے گی اور جب اللہ کی عدالت میں پیشی کا موقعہ آئے گا اس وقت بھی کہی جائے گی۔ ہر مرحلے پر اسے اطمینان دلایا جائے گا کہ وہ اللہ کی رحمت کی طرف جا رہا ہے۔
(تفهيم القرآن: 334/6)
سید احمد حسن محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اچھے لوگوں کو قبض روح اور دفن اور قبر سے اٹھنے کے وقت اور قیامت کے دن فرشتے نجات کی خوشخبری دیں گے۔
(احسن التفاسير: 7/ 299)
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ کے بندے مرتے ہی جنت میں داخل ہو جاتے ہیں یا حشر و نشر کے بعد ان کو داخل کیا جائے گا؟کچی سیدھی اور صاف بات تو یہی ہے کہ جس وقت انسان کا اس دنیا سے تعلق منقطع ہوتا ہے اس وقت جنت کی خوشخبری اس کو سنائی جائے گی۔ اس دنیا سے جو نہیں انسان کا تعلق منقطع ہوتا ہے تو وہ فوراً عالم آخرت میں چلا جاتا ہے اور آخرت میں انسان کے لیے دو ہی مقامات ہیں ایک کا نام جنت ہے اور دوسرے کا نام جہنم ہے۔ اس لیے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یہاں سے رخصت ہوتے ہی اہل دوزخ کا تعلق اہل دوزخ سے اور اہل جنت کا تعلق اہل جنت سے قائم ہو جاتا ہے اگرچہ مکمل داخلہ جو قیامت کے بعد بدن کے ساتھ الحاق کے بعد ہوگا اس کو کہا جائے گا۔ یاد رہے کہ آخرت کی کسی بات کی مکمل تفہیم اس وقت ہوگی جب معاملہ پیش آئے گا کیونکہ یہ چیز دنیا میں مشاہدہ میں آنے والی نہیں بلکہ یہ معاملہ خالصتاً ایمان بالغیب کا ہے جس پر کسی طرح کی بحث ممکن ہی نہیں۔
علامہ زمخشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن قلت متى يقال لها ذلك قلت أما عند الموت وأما عند البعث وأما عند دخول الجنة
پھر اگر تو کہے کہ یہ بات اس کے لیے کب کہی جاتی ہے؟ تو میں جواب دوں گا کہ موت کے وقت اور قبروں سے اٹھتے وقت اور جنت میں داخل ہوتے وقت۔
(تفسير الكشاف: 752/4 بيروت)
تفسیر در منثور اور جامع البیان میں ہے کہ :
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کسی نے آیت ﴿يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ﴾ کی تلاوت کی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کتنا اچھا (قول )ہے اے اللہ کے رسول۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! عنقریب فرشتہ یہ (قول) تیرے لیے موت کے وقت کہے گا۔
(تفسیر در منثور : 470/8 ، الطبری، ج : 30، ص: 209 )
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس لیے لکھتے ہیں:
یہ بات اسے موت کے وقت بھی کہی جائے گی۔ میدان محشر میں قبروں سے اٹھنے اور میدان محشر کی طرف چلتے وقت بھی کہی جائے گی اور عدالت الہی میں فیصلہ کے بعد بھی کہی جائے گی گویا ہر مرحلے پر اسے یہ اطمینان دیا جائے گا کہ وہ اللہ کے فرمانبردار بندوں میں شامل ہے اور جنت کا مستحق ہے۔
(تيسير القرآن: 641/4)
ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ بھی اسی طرح لکھتے ہیں کہ یہ بات نفس سے موت کے وقت اور قیامت کے دن کہی جائے گی۔
﴿تيسير الرحمن: 2/ 1738﴾
یاد رہے کہ یہ خطاب مومنوں کے لیے جبکہ کافروں کے لیے موت کے وقت جو بات کہی جائے گی وہ اس کے الٹ ہے۔ مثلاً سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ فرشتے کافر کو موت کے وقت کہتے ہیں:
أيتها النفس الخبيثة أخرجي إلىٰ سخط من الله وغضب
اے خبیث روح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل نکل۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یوں ہے:
أخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت فى الجسد الخبيث أخرجي ذميمة وأبشري بحميم وغساق وآخر من شكله أزواج
اے خبیث روح نکل (اس جسم سے) تو خبیث جسم میں تھی نکل( اس جسم سے) ذلیل ہو کر اور بشارت ہو تجھے کھولتے ہوئے پانی کی پیپ کی اور بعض دوسرے عذابوں کی۔ (یہ احادیث پیچھے گزر چکی ہیں)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے