عذاب قبر کی حقیقت: قرآن، سنت اور اجماع کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

عذابِ قبر اور اس کی حقیقت

سوال:

کیا عذاب قبر ثابت ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عذابِ قبر کا ثبوت قرآن و سنت کی واضح نصوص اور امت مسلمہ کے اجماع سے موجود ہے۔ یہی تین بنیادی دلائل یعنی قرآن، سنت اور اجماع، دین اسلام کے معتبر شرعی مصادر ہیں۔

➊ سنت سے دلیل:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عذابِ قبر سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تاکید فرمائی۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

«تَعَوَّدُوْا بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، تعوذوابالله من عذاب القبر، تعوذوابالله من عذاب القبرِ۔»
(صحیح مسلم، الجنة باب عرض مقعد المیت من الجنة والنار… حدیث: ۲۸۶۷)

ترجمہ:
"تم عذابِ قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو”، اور یہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ تاکید کے طور پر فرمایا۔

➋ اجماعِ امت سے دلیل:

تمام مسلمان، خواہ وہ علماء ہوں یا عام افراد، اپنی نماز میں درج ذیل دعا پڑھتے ہیں:

(اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ)
"میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں جہنم کے عذاب اور قبر کے عذاب سے۔”

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ صرف علماء بلکہ عام مسلمان بھی عذابِ قبر کو تسلیم کرتے ہیں اور اس سے پناہ مانگنا نماز کا حصہ ہے۔

➌ قرآن مجید سے دلیل:

الف) آلِ فرعون کے بارے میں فرمانِ الٰہی:

﴿النّارُ يُعرَضونَ عَلَيها غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَومَ تَقومُ السّاعَةُ أَدخِلوا ءالَ فِرعَونَ أَشَدَّ العَذابِ ﴾
(سورۃ غافر، آیت: 46)

ترجمہ:
"(وہ) آتش جہنم ہے جس پر صبح و شام انہیں پیش کیا جاتا ہے، اور جس دن قیامت قائم ہوگی (کہا جائے گا:) آلِ فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔”

یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ آلِ فرعون کو قیامت سے پہلے بھی صبح و شام عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ ان کو آگ پر صرف تماش بینی کے لیے نہیں بلکہ عذاب دینے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

ب) نزع کے وقت ظالموں کی حالت:

﴿وَلَو تَرى إِذِ الظّـلِمونَ فى غَمَرتِ المَوتِ وَالمَلـئِكَةُ باسِطوا أَيديهِم أَخرِجوا أَنفُسَكُمُ ﴾
(سورۃ الأنعام، آیت: 93)

ترجمہ:
"اور کاش! تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب وہ موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں گے اور فرشتے ان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائے ہوں گے (کہیں گے:) نکالو اپنی جانیں۔”

یہاں فرشتوں کا عذاب کے لیے ہاتھ پھیلانا اس بات کا اعلان ہے کہ ان پر عذاب کا عمل نزع کے وقت ہی شروع ہو جاتا ہے۔

ج) موت کے وقت ہی سزا کا اعلان:

﴿اليَومَ تُجزَونَ عَذابَ الهونِ بِما كُنتُم تَقولونَ عَلَى اللَّهِ غَيرَ الحَقِّ وَكُنتُم عَن ءايـتِهِ تَستَكبِرونَ ﴾
(سورۃ الأنعام، آیت: 93)

ترجمہ:
"آج تمہیں ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا، اس وجہ سے کہ تم اللہ پر ناحق باتیں باندھتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔”

آیت میں مذکور "اليَومَ" کا "ال” معرفہ عہدِ حضوری کے لیے ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ وہ دن ہے جو ان کی وفات کا دن ہے۔ اس میں یہ واضح پیغام ہے کہ عذاب کا آغاز موت ہی کے دن سے ہو جاتا ہے۔

نتیجہ:

✿ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تعلیمات
✿ تمام امتِ مسلمہ کا اجماع
✿ اور قرآنِ مجید کی صریح آیات

ان تمام دلائل سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ عذابِ قبر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیات میں قبر کے عذاب کی صاف وضاحت موجود ہے، جس میں قیامت سے پہلے عذاب کا تذکرہ ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1