عدم رفع الیدین کے متعلق سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث کی استنادی حیثیت کیا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

عدم رفع الیدین کے متعلق سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کی استنادی حیثیت کیا ہے؟

جواب:

یہ روایت سنن ابی داود (748)، سنن نسائی (1058) اور سنن ترمذی (257) وغیرہ میں آتی ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ سفیان ثوری بالا جماع ”مدلس “ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
② یہ ”ضعیف “روایت عام ہے، جبکہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے متعلق احادیث خاص ہیں۔ خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے۔ حدیث ابن مسعود نے پہلی رفع الیدین کے علاوہ ساری نماز کو رفع الیدین سے خالی کر دیا۔ بخاری و مسلم وغیرہما کی متواتر احادیث نے رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کا اثبات کیا ہے۔ صحیح احادیث میں جن مقامات پر اثبات ہے، وہاں اثبات اور باقی مقامات پر بھی ہوگا۔ لہذا یہ حدیث عدم رفع الیدین پر دلیل نہیں بن سکتی۔
③ مانعین رفع الیدین خود وتروں اور عیدین میں پہلی تکبیر کے علاوہ رفع الیدین کر کے یہ ثبوت فراہم کر دیتے ہیں کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ اہل فن کی نظر میں:
① عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يثبت عندي حديث ابن مسعود
”میرے نزدیک حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ ثابت نہیں۔“
(سنن الترمذي، تحت الحديث: 256، سنن الدارقطني: 393/1، السنن الكبرى للبيهقي: 79/2، وسنده صحيح)
② امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(التمهيد لابن عبد البر: 219/9، وسنده صحيح)
③ امام ابو داود رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ليس هو بصحيح على هذا اللفظ
”یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں۔“
④ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا خطأ
”یہ غلطی ہے۔“
(العلل: 96/1)
⑤ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس قول من قال: ثم لم يعد محفوظا
”جس نے دوبارہ رفع الیدین نہ کرنے کے الفاظ کہے، اس کی روایت محفوظ نہیں۔“
(العلل: 173/5)
⑥ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
في الحقيقة أضعف شيء يعول عليه، لأن له عللا تبطله
”درحقیقت یہ ضعیف ترین روایت ہے، بعض اس پر اعتماد کرتے ہیں، حالانکہ اس میں کئی علتیں ہیں، جو اسے باطل قرار دیتی ہیں۔“
(التلخيص الحبير لابن حجر: 222/1)
⑦ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ حدیث براء بن عازب اور حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرماتے ہیں:
هَذَانِ حَدِيثَانِ مَعْلُولَانِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ
”یہ دونوں احادیث محدثین کے نزدیک معلول (ضعیف) ہیں۔“
(التمهيد لما في المؤطأ من المعاني والأسانيد: 215/9)
⑧ علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف “کہا ہے۔
(المغني: 358/1)

تنبیہ:

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے ”حسن “کہا ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کی مراد اس سے اصطلاحی ”حسن “نہیں، بلکہ ایسی ضعیف حدیث جس کی ایک ہی سند ہو، اسے بھی حسن کہہ دیتے ہیں۔ یہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا خاص اسلوب ہے، جو کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
❀ علمائے احناف لکھتے ہیں:
”ابن دحیہ نے اپنی کتاب ”العلم المشہور“ میں کہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کتنی ہی موضوع (من گھڑت) اور ضعیف سندوں والی احادیث کو ”حسن “کہہ دیا ہے۔“
(نصب الراية للزيلعي: 217/2، البناية للعيني: 869/2، مقالات الکوثری: 311، صفائح لمحبین از احمد رضا خان بریلوی: 29)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے