سوال:
عدم رفع الیدین کے متعلق سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کیسی ہے؟
جواب:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع فرماتے، تو اپنے کانوں کے قریب تک رفع الیدین کرتے، پھر دوبارہ نہ کرتے۔“
(سنن أبي داود: 749، سنن الدارقطني: 293/1، مسند أبي يعلى: 1690)
اس کی سند ”ضعیف “ہے۔ حفاظ محدثین کا اس حدیث کے ”ضعف “پر اجماع و اتفاق ہے۔ اس کا راوی یزید بن ابی زیاد جمہور کے نزدیک ضعیف و سیء الحفظ ہے، نیز یہ ”مدلس “اور ”مختلط “ہے، تلقین بھی قبول کرتا تھا۔
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضعيف، كبر، فتغير وصار يتلقن وكان شيعيا
”یہ ضعیف ہے، بڑی عمر میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اور یہ تلقین قبول کرنے لگا تھا، یہ شیعہ بھی تھا۔“
(تقريب التهذيب: 7717)
❀ نیز لکھتے ہیں:
الجمهور على تضعيف حديثه
”جمہور محدثین اس کی حدیث کو ضعیف کہتے ہیں۔“
(هدى الساري، ص: 459)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مجمع على ضعفه لا سيما وقد خالف بروايته الثقات
”اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے، خصوصاً جب ثقات کی مخالفت کرے۔“
(شرح النووي: 306/1، 8/7)
متعدد اہل علم اور ماہر اہل فن نے اس پر سخت جرح کی ہے۔
لہذا امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہ اللہ (المعرفة والتاريخ: 81/3)، امام عجلی رحمہ اللہ (تاريخ العجلي: 2019)، اور امام ابن سعد رحمہ اللہ (الطبقات الكبرى: 340/6) کا اس کو ثقہ کہنا اور امام ابن شاہین رحمہ اللہ کا اثقات (1561) میں ذکر کرنا جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں قبول نہیں۔ نیز یہ توثیق سیء الحفظ اور تلقین سے پہلے پر محمول ہے۔ یہ روایت سیء الحفظ ہونے اور تلقین قبول کرنے کے بعد کی ہے۔
① یہ حدیث با اتفاق محدثین ”ضعیف “ہے۔
❀ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس هو بصحيح الإسناد
”اس حدیث کی سند ثابت نہیں۔“
(المعرفة والتاريخ للفسوي: 81/3)
❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يصح عنه هذا الحديث
”یہ حدیث ثابت نہیں۔“
(معرفة علوم الحديث للحاكم، ص: 81، وسنده حسن)
❀ امام حمیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إنما روى هذه الزيادة يزيد، ويزيد يزيد
”الفاظ کی یہ زیادتی یزید (بن ابی زیاد) نے بیان کی ہے۔ یزید زیادتی کرتا ہے۔“
(التلخيص الحبير لابن حجر: 221/1)
❀ امام محمد بن وضاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الأحاديث التى تروى عن النبى صلى الله عليه وسلم فى رفع اليدين ثم لا يعود، ضعيفة كلها
”وہ روایات، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع میں رفع الیدین کا ثبوت اور بعد میں ترک مروی ہے، سب کی سب ضعیف ہیں۔“
(التمهيد لابن عبد البر: 221/9، وسنده حسن)
❀ امام عثمان بن سعید دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس صحیح روایت میں قلب یزید کی طرف سے ہے۔“
(معرفة علوم الحديث للحاكم، ص: 81)
❀ حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
في إسناده يزيد بن أبى زياد ولا يحتج بحديثه
”اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے۔ اس کی حدیث ناقابل حجت ہے۔“
(مختصر السنن: 369/1)
❀ علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف “کہا ہے۔
(المغنى: 356/1)
❀ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يصح عنه حديث البراء
”حدیث براء یہ ثابت نہیں۔“
(زاد المعاد في هدي خير العباد: 219/1)
② یہ روایت ”ضعیف“ ہونے کے ساتھ ساتھ عام بھی ہے، جبکہ رکوع والے رفع الیدین کی دلیل خاص ہے، لہذا خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا۔
③ یزید بن ابی زیاد ”مدلس “بھی ہے۔ سماع کی تصریح نہیں کی، لہذا روایت ”ضعیف “ہے۔
④ یہ الفاظ مدرج ہیں، اہل کوفہ کی تلقین کرنے پر شامل ہوئے۔
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”یہ وہ حدیث ہے، جس سے اہل عراق نے نماز میں رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی پر دلیل لی ہے، حالانکہ حدیث میں ثم لم يعد (پھر دوبارہ نہ کیا) کے الفاظ نہیں تھے۔ یہ زیادت یزید بن ابی زیاد کو آخر عمر میں اہل کوفہ نے تلقین کی تھی، اس نے تلقین قبول کر لی، جیسا کہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلے دور میں مکہ میں اسے یہ حدیث بیان کرتے سنا تھا، اس وقت اس نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے تھے۔ جو آدمی فن حدیث کا اہل نہ ہو، اس کے لیے اس طرح کی ضعیف روایات بطور دلیل ذکر کرنا درست نہیں ہے۔“
(كتاب المجروحين: 100/3)
❀ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے یہ حدیث ثم لم يعد (پھر دوبارہ نہ کیا) کے الفاظ کی زیادتی کے بغیر ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے:
هذا هو الصواب
”درست یہی ہے۔“
(سنن الدارقطني: 294/1)
❀ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”سفیان رحمہ اللہ کا میلان ہے کہ وہ یزید کو اس حدیث میں غلط قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: لگتا ہے کہ اسے یہ آخری الفاظ تلقین کیے گئے ہوں اور اس نے قبول کر لیے ہوں۔ نیز سفیان رحمہ اللہ اس حدیث میں یزید کو حافظ نہیں سمجھتے تھے۔“
(إختلاف الحديث، ص: 128)
❀ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”(تکبیر تحریمہ کے بعد) دوبارہ رفع الیدین کا ترک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ یزید بن ابی زیاد اس حدیث کو جب پہلے پہل بیان کرتا تھا، تو یہ الفاظ ذکر نہیں کرتا تھا، پھر اس کا حافظہ خراب ہو گیا، تو کوفیوں نے اسے ان الفاظ کی تلقین کی، اس نے قبول کر لی اور متن کے ساتھ ملا دیا۔“
(الفصل للوصل المُدْرَج في النقل: 394/1)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”حفاظ محدثین کا اتفاق ہے کہ ثم لم يعد (پھر دوبارہ نہ کیا) کے الفاظ اس حدیث میں مدرج ہیں، یہ یزید بن ابی زیاد کی اپنی بات ہے۔“
(التلخيص الحبير: 221/1)
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یزید بن ابی زیاد عن ابن ابی لیلیٰ عن البراء کے طریق سے محفوظ الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے۔ اس حدیث میں بعض رواة کا ثم لا يعود (پھر دوبارہ نہ کرتے) کے الفاظ کی زیادتی نقل کرنا محدثین کے ہاں خطا ہے۔“
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد: 220/9)
❀ امام دارمی رحمہ اللہ اس حدیث کا ضعف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”اگر سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے (بفرض محال) صحیح بھی مان لیا جائے کہ وہ فرماتے ہیں: ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ ہی رفع الیدین کیا۔‘ دیگر صحابہ کہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ رفع الیدین کیا ہے، تو دونوں حدیثوں میں اولیٰ یہ ہے کہ اس کی حدیث کو معتبر سمجھا جائے، جس نے دیکھا ہے، کیونکہ آگے تب ہی بیان کیا جا سکتا ہے، جب صحیح طرح دیکھا ہو اور یاد ہو۔ جس نے کہا کہ میں نے نہیں دیکھا، ممکن ہے کہ وہ لوٹ آیا ہو اور آپ کو رفع الیدین کرتے نہ دیکھا ہو۔“
(معرفة علوم الحديث للحاكم، ص: 80)
نوٹ :
سنن ابی داود (752) وغیرہ والی سند بھی ”ضعیف “ہے، اس میں ابن ابی لیلیٰ مشہور فقیہ قاضی کوفہ، ابو عبد الرحمن محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (148ھ) جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف و سیء الحفظ“ ہے۔
اہل علم نے اس سند کو بھی ضعیف قرار دیا ہے۔
❀ امام ابو داود رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
هذا الحديث ليس بصحيح
”یہ حدیث صحیح نہیں۔“
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کے ضعیف ہونے پر حفاظ محدثین کا اجماع ہے، مثلاً ائمہ سفیان بن عیینہ، شافعی، شیخ بخاری عبد اللہ بن زبیر حمیدی، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، بخاری، بیہقی اور دیگر متقدمین وغیرہ۔ یہ سب ارکان حدیث ہیں اور اسلام کے ائمہ حدیث ہیں۔ متأخرین حفاظ میں سے جنہوں نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، ان کی تعداد شمار سے باہر ہے، مثلاً ائمہ ابن عبد البر، بیہقی، ابن الجوزی، بیہقی وغیرہ۔ سبب ضعف یہ ہے کہ یہ روایت یزید بن ابی زیاد عن ابن ابی لیلیٰ عن البراء ہے۔ جیسا کہ گزر چکا ہے، مذکورہ اور دیگر تمام ائمہ کرام کا اجماع ہے کہ اس حدیث میں یزید بن ابی زیاد کو غلطی لگی ہے۔ اس نے پہلے صرف یہ الفاظ بیان کیے تھے: ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے۔“ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:”بعد میں میں کوفہ گیا، وہاں اسے یہی حدیث بیان کرتے سنا، تو اس نے ثم لا يعود ’پھر دوبارہ ایسا نہیں کیا‘ کے الفاظ بڑھا دیے۔ میں نے گمان کیا کہ لازماً اسے شاگردوں نے تلقین کیے ہوں گے۔“ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ہی فرماتے ہیں:”ہمارے ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ یزید بن ابی زیاد کا حافظہ بگڑ گیا ہے، یا یہ سیء الحفظ ہو گیا ہے۔“امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”امام سفیان رحمہ اللہ کا میلان ہے کہ وہ یزید کو اس حدیث میں غلط قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: لگتا ہے کہ اسے یہ آخری الفاظ تلقین کیے گئے ہوں اور اس نے قبول کر لیے ہوں۔ نیز امام سفیان رحمہ اللہ اس حدیث میں یزید کو حافظ نہیں سمجھتے تھے۔“
خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ثم لا يعود ”پھر دوبارہ ایسا نہیں کیا“ کی زیادتی کو مدرج کی بحث میں ذکر کر کے فرمایا:”یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ یزید بن ابی زیاد سے اس زیادتی کے بغیر امام سفیان ثوری، امام شعبہ اور ہشیم رحمہم اللہ نے روایت کی ہے۔“
(البدر المنير: 487/3)