عدت کے بعد طلاق کا حکم اور بغیر رجوع دوسری طلاق کا مسئلہ
ماخوذ: احکام و مسائل، طلاق کے مسائل، جلد 1، صفحہ 337

سوال :

کیا دوسری طلاق رجوع کے بغیر ہو جاتی ہے یا نہیں؟ نیز یہ بھی وضاحت کریں کہ دوسری طلاق کتنے دن بعد دی جائے تو معتبر ہوگی؟ (دلیل کے ساتھ)

جواب :

پہلی طلاق کے بعد کچھ وقفہ کے ساتھ اگر شوہر دوسری طلاق دیتا ہے تو وہ واقع ہو جاتی ہے، خواہ رجوع کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِ﴾
(سورۃ البقرہ: 229)

یہ آیت کریمہ دونوں صورتوں کو شامل ہے:

  • پہلی اور دوسری طلاق کے درمیان رجوع کرنے کی صورت
  • پہلی اور دوسری طلاق کے درمیان رجوع نہ کرنے کی صورت

کتاب و سنت میں کہیں بھی کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو اس آیت کو صرف ان لوگوں کے ساتھ خاص کرے جو طلاقوں کے درمیان رجوع کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص پہلی طلاق کے بعد رجوع نہ کرے، اور وقفے سے دوسری طلاق دے، تو وہ دوسری طلاق ہی شمار ہوگی۔

دونوں طلاقوں کے درمیان دنوں، راتوں، گھنٹوں یا منٹوں کا کوئی تعین کتاب و سنت میں موجود نہیں۔ صرف یہ بات شریعت سے ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی وقت میں دو، تین یا اس سے زائد طلاقیں دے، تو وہ ایک ہی طلاق شمار کی جائیں گی۔

اگر کسی نے بیوی کو ایک طلاق دے کر عدت کے گزرنے کے بعد دوسری اور تیسری طلاق دی، تو کیا تیسری طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی اور اس کی عدت بھی مکمل ہو گئی، تو اب وہ عورت اس شخص کے نکاح میں نہیں رہی۔ ایسے میں اگر وہ شخص عدت کے بعد دوسری اور تیسری طلاق دیتا ہے تو یہ دونوں طلاقیں واقع نہیں ہوں گی۔

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾
(البقرہ: 232)

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ جب عورت طلاق کے بعد عدت پوری کر لیتی ہے تو وہ نکاح سے باہر ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس کے بعد دی جانے والی کوئی طلاق شرعی لحاظ سے معتبر نہیں ہوتی، کیونکہ طلاق صرف نکاح میں موجود عورت کو دی جاتی ہے۔ اگر دونوں دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے نیا نکاح ہو سکتا ہے، لیکن عدت گزر جانے کے بعد دی گئی طلاقوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1