سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میں نے مورخہ 28-03-1994 کو گھریلو اختلافات کے باعث اپنی منکوحہ بیوی ثریا بی بی دختر سردار محمد قوم جٹ ساکن موضع غازی پور کو طلاق دے دی تھی۔
اب ہم باہمی صلح کے ذریعے دوبارہ اپنا گھر آباد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہماری برادری میں خوشگوار تعلقات قائم رہیں۔
شرعاً اور کتاب و سنت کی روشنی میں کیا ہم دوبارہ ازدواجی زندگی قائم کر سکتے ہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
صورتِ مسئولہ میں — بشرطِ صحتِ سوال — ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔
اور رجعی طلاق کی صورت میں عدت (یعنی تین حیض، یا تین ماہ، یا وضعِ حمل) کے اندر رجوع کرنا شرعاً جائز ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ… ﴿٢٢٩﴾…البقرة
"طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔”
رجعی طلاق کی وضاحت
یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ تک محدود ہے۔
◈ پہلی یا دوسری مرتبہ طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔
◈ تیسری طلاق کے بعد رجوع کی اجازت نہیں ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں یہ حق غیر محدود تھا، جس سے عورتوں پر ظلم ہوتا تھا — مرد بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا، نہ عورت کو بساتا، نہ آزاد کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے اس ظلم کا دروازہ بند کر دیا اور پہلی و دوسری طلاق کے بعد سوچنے اور رجوع کی مہلت رکھی۔
اگر پہلی ہی طلاق کے بعد ہمیشہ کے لیے جدائی لازم آ جاتی تو سماجی مسائل بڑھ جاتے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا "الطلاق مرتان” یعنی "طلاق دو مرتبہ”۔
یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ایک مجلس میں دو یا تین طلاقیں دینا اور انہیں بیک وقت نافذ کرنا حکمِ الٰہی کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ مرد کو سوچنے اور اصلاح کا موقع دیا جائے تاکہ غصے یا جذبات میں دی گئی طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش باقی رہے۔
اسی حکمت کی وجہ سے ایک مجلس کی تین طلاق کو رجعی طلاق شمار کیا گیا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر ایک یا تین طلاقیں دی گئیں، تو وہ رجعی طلاق واقع ہوچکی ہے۔
تفسیر ابن کثیر کی وضاحت
امام ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
أَيْ: إِذَا طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوِ اثْنَتَيْنِ، فَأَنْتَ مُخَيَّرٌ فِيهَا مَا دَامَتْ عِدَّتُهَا بَاقِيَةً، بَيْنَ أَنْ تَرُدَّهَا إِلَيْكَ نَاوِيًا الْإِصْلَاحَ بِهَا وَالْإِحْسَانَ إِلَيْهَا، وَبَيْنَ أَنْ تَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، فَتَبِينَ مِنْكَ.
(تفسیر ابن کثیر، ج1، ص 292)
یعنی جب تم اپنی بیوی کو ایک یا دو مرتبہ طلاق دو، تو عدت کے دوران رجوع کرنے یا چھوڑ دینے کا اختیار تمہارے پاس ہے — بشرط یہ کہ رجوع کی نیت اصلاح کی ہو، نہ کہ اذیت پہنچانے کی۔
اگر عدت ختم ہو جائے تو وہ عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے۔
قولِ محقق شیخ محمد سابق مصریؒ
شیخ محمد سابق مصریؒ لکھتے ہیں:
الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان اى ان الطلاق الذى شرعه الله يكون مرة بعدمرة بعد مرۃ انه يجوز…
یعنی "الطلاق مرتان” سے مراد یہ ہے کہ طلاق بوقتِ ضرورت ایک ایک کر کے مختلف اوقات میں دی جائے۔
ایسی طلاق میں عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے۔
إمساك بمعروف کا مطلب ہے رجوع کرلینا اور بیوی کو دوبارہ نکاح کے ساتھ آباد کرنا، بشرطیکہ نیت اصلاح کی ہو، تکلیف پہنچانے کی نہیں۔
رجوع کی قرآنی دلیل
﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّـهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا…﴿٢٢٨﴾…البقرة
"طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ انہیں یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہے اسے چھپائیں، اگر وہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔
ان کے شوہر اس مدت میں انہیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں، اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو۔”
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ رجعی طلاق میں عدت کے دوران خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے۔
لیکن موجودہ صورت میں چونکہ طلاق کو ایک سال، نو ماہ، ستائیس دن گزر چکے ہیں، لہٰذا عدت ختم ہوچکی ہے، اور طلاق موثر ہو کر نکاح ختم ہو چکا ہے۔
عدت کے بعد نکاحِ ثانی کا حکم
چونکہ یہ رجعی طلاق تھی، اس لیے عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ نکاح بغیر حلالہ کے جائز ہے۔
جیسا کہ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا:
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ…﴿٢٣١﴾…البقرة
"اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں، تو انہیں ان کے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو اگر وہ دستور کے مطابق راضی ہوں۔”
یہ آیت حضرت معقل بن یسارؓ کے واقعہ میں نازل ہوئی، جب انہوں نے اپنی بہن کو سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح سے روک دیا تھا۔
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، ج2، ص269، پارہ 18، و کتاب الطلاق)
اس آیت اور صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ رجعی طلاق کی عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ نکاح شرعاً جائز ہے، اور حلالہ کی کوئی ضرورت نہیں۔
خلاصۂ بحث
◈ صورتِ مسئولہ میں ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔
◈ چونکہ عدت گزر چکی ہے، لہٰذا رجوع جائز نہیں۔
◈ البتہ نکاحِ ثانی (دوبارہ نکاح) بغیر حلالہ کے جائز و حلال ہے۔
یہ جواب بشرطِ صحتِ سوال تحریر کیا گیا ہے، اور مفتی عدالتی تنازع کا ذمہ دار نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب