سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک میاں بیوی نکاح کے بعد صرف ایک دن اکٹھے رہے، اس کے بعد خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور بیوی نے طلاق کے پانچویں دن ہی دوسرے مرد سے نکاح کر لیا، یعنی عدت پوری ہونے سے پہلے۔ اب گزارش یہ ہے کہ آیا ایسا نکاح شریعت کے مطابق جائز ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ مذکورہ صورت میں کیا گیا نکاح ناجائز ہے، کیونکہ عدت پوری ہونے سے پہلے نکاح کرنا شریعت میں جائز نہیں۔
طلاق کی عدت
✿ طلاق یافتہ عورت کی عدت تین حیض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
﴿وَٱلْمُطَلَّقَـٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَـٰثَةَ قُرُوٓءٍ﴾ (البقرة:٢٢٨)
‘‘یعنی طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو نکاح سے بچا کے رکھیں۔’’
حاملہ عورت کی عدت
✿ اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت بچہ پیدا ہونے تک ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
﴿يَحِضْنَ ۚ وَأُو۟لَـٰتُ ٱلْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ (الطلاق:٤)
‘‘یعنی حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل (بچہ پیدا ہونا) ہے۔’’
وہ عورتیں جنہیں حیض نہیں آتا
✿ اگر کسی عورت کو حیض آنا بند ہو جائے، خواہ صغر سنی (کم عمری) یا کبر سنی (بڑھاپے) کی وجہ سے، تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا:
﴿وَٱلَّـٰٓـِٔى يَئِسْنَ مِنَ ٱلْمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمْ إِنِ ٱرْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَـٰثَةُ أَشْهُرٍۢ وَٱلَّـٰٓـِٔى لَمْ يَحِضْنَ﴾ (الطلاق:٤)
‘‘اور وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہو چکی ہیں اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے، اور اسی طرح ان عورتوں کی بھی جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا۔’’
عدت کے دوران نکاح کا حکم
بہرحال، عدت کے دوران نکاح کرنا جائز نہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں حکم ہے:
﴿وَلَا تَعْزِمُوا۟ عُقْدَةَ ٱلنِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ ٱلْكِتَـٰبُ أَجَلَهُ﴾ (البقرة:٢٣٥)
‘‘یعنی جب تک عدت پوری نہ ہو جائے، نکاح کا ارادہ بھی نہ کرو۔’’
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب