عدت اور ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 448

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ محمد فوت ہوگیا، اس کی بیوی سکینہ نے عدت پوری ہونے سے قبل ہی بغیر ولی کی اجازت کے دوسری جگہ نکاح کر لیا۔ حالانکہ اس میں اس کا والد اللہ بخش بھی ناراض ہے۔ اب بتائیں کہ شریعتِ محمدی کے مطابق یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یہ نکاح ناجائز ہے کیونکہ اس میں دو شرطیں پائی نہیں گئیں:

(1) عدت کی تکمیل

◄ سکینہ کی عدت پوری ہونا لازمی ہے۔

(2) ولی کی رضامندی

◄ ولی یعنی والد کی اجازت ضروری ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:

((لانكاح إلابولى.))

اور ایک دوسری روایت میں ہے:

((أيماإمرأة نكحت بغيرإذن وليهافنكاحهاباطل.))
أخرجه الاربعة الاالنسائى، وصححة ابوعوانه وابن حبان والحاكم

نتیجہ

◈ جب دونوں شرطیں (عدت کی تکمیل اور ولی کی اجازت) موجود نہیں تو اس صورت میں نکاح باطل اور ناجائز ہوگا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے