عدالت کی یک طرفہ تنسیخ نکاح اور دوسرا نکاح: قرآن و حدیث کی روشنی میں حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد ۱، صفحہ ۶۹۹

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ محمد اسلم ولد ولایت خان کا نکاح شریعت محمدی کے مطابق مسمات نسرین دختر مجرد خان سے مورخہ 15-06-1991ء کو ہوا تھا۔ بعد ازاں مسمات نسرین نے میرے خلاف جھوٹا الزام لگاتے ہوئے سول جج چونیاں ضلع قصور میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کر دیا، جس کی مجھے بالکل خبر نہ تھی۔ مزید یہ کہ اس نے عدالت میں میرے والد کا نام "ولایت خان” کے بجائے "حشمل خان” لکھوا کر یک طرفہ فیصلہ مورخہ 28-10-1996ء کو کروا لیا۔ اس فیصلے کی بھی مجھے کوئی خبر نہ تھی اور نہ ہی میں عدالت میں حاضر ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ فسخ نکاح ازروئے شریعت درست ہے یا نہیں؟

علاوہ ازیں، مسمات نسرین نے 25-02-1997ء کو محمد اسحاق ولد ایدھے خان سے دوسرا نکاح کر لیا اور اب اس کے ساتھ آباد ہے۔ کیا یہ دوسرا نکاح شریعت محمدی کے مطابق درست ہے یا نہیں؟ اور اگر یہ نکاح درست نہیں تو نسرین اور اسحاق پر کون سا جرم عائد ہوتا ہے اور ان کی سزا قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا ہے؟
نیز مطلقہ عورت کتنے دن بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کا اختیار صرف شوہر کو ہے

سوال کے مطابق واضح ہو کہ طلاق دینے کا حق صرف شوہر کو حاصل ہے۔ کسی دوسرے شخص کو طلاق دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ … ٤٩﴾ …الأحزاب

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ… ٢٣١﴾ …البقرۃ

ان آیات مبارکہ میں نکاح و طلاق کا اختیار صرف شوہر کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

اسی طرح حدیث شریف میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ سَيِّدِي زَوَّجَنِي أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِي وَبَيْنَهَا، قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجُ عَبْدَهُ أَمَتَهُ، ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا، إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ»

(سنن ابن ماجة: باب طلاق العبد، ج۲ ص۵۲، رواءالخلیل: ج۷ ص۱۰۸)

یعنی طلاق کا اختیار صرف شوہر کو ہے، کسی اور کو نہیں۔

فقہاء کا موقف

جمہور فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ طلاق کے لیے گواہوں کا ہونا شرط نہیں ہے کیونکہ یہ محض شوہر کا حق ہے۔ جیسا کہ السید محمد سابق مصری نے فرمایا:

(ذهب جمهور الفقهاء من السلف والخلف إلى أن الطلاق يقع بدون إشهاد، لان الطلاق من حقوق الرجل)

(فقہ السنة: ج۲ ص۲۲۰)

قاضی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار

بیوی کے حقوق کے تحفظ کے لیے قاضی کو مخصوص حالات میں تنسیخ نکاح کا اختیار دیا گیا ہے، بشرطیکہ وہ شرعی ضوابط کو پورا کرے۔ یہ پانچ صورتیں ہیں:

التطلیق لعدم النفقۃ – اگر شوہر بیوی کا نان و نفقہ نہ دے یا دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔
◈ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک ایسی صورت میں قاضی فسخ نکاح کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
◈ لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک غربت کی صورت میں قاضی کو یہ حق حاصل نہیں۔

التطلیق للضرر – اگر شوہر بیوی پر ظلم کرے یا اسے غیر شرعی کاموں پر مجبور کرے اور بیوی اس کا ثبوت پیش کر دے۔

التطلیق لغيبة الزوج – اگر شوہر لمبے عرصے کے لیے غیر حاضر رہے اور بیوی اس کی جدائی برداشت نہ کر سکے۔

التطلیق لحبس الزوج – اگر شوہر تین سال یا اس سے زیادہ کے لیے قید ہو جائے اور بیوی اکیلی زندگی گزارنے میں تکلیف محسوس کرے۔

ان کے علاوہ کسی بھی صورت میں قاضی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں۔

صورت مسئولہ کا حکم

اگر عدالت نے شریعت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے، شوہر کو اطلاع دے کر اور تمام شہادتوں کے تقاضے پورے کر کے فیصلہ دیا ہے تو یہ درست ہوگا۔ بصورت دیگر یہ فیصلہ باطل اور غیر شرعی ہے۔

جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَدَقَ، فَأَقْضِيَ لَهُ بِذَلِكَ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ، فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ، فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ فَلْيَتْرُكْهَا»

(صحیح بخاری، ج۲، ص۱۰۶۴-۱۰۶۵)

دوسرا نکاح اور اس کا حکم

اگر واقعی شوہر کو اطلاع دیے بغیر یک طرفہ فیصلہ کیا گیا ہے تو نسرین کا دوسرا نکاح شرعاً نکاح نہیں بلکہ زنا ہے۔ کیونکہ شوہر کے ہوتے ہوئے دوسرا نکاح قرآن کی صریح آیت کے مطابق حرام ہے:

﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ … ٢٤﴾ …النساء

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

(أَيْ: وَحُرِّمَ عَلَيْكُمُ الْأَجْنَبِيَّاتُ الْمُحْصَنَاتُ وهي الْمُزَوَّجَاتُ)

(تفسیر ابن کثیر: ج۱ ص۵۱۶)

لہٰذا دوسرا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا اور یہ زنا کاری شمار ہوگی۔

زنا کی سزا

◈ اگر دونوں غیر شادی شدہ ہوں تو سو (100) کوڑے کی سزا دی جائے گی۔
◈ اگر دونوں شادی شدہ ہوں تو سنگسار (رجم) کی سزا ہے۔
◈ اگر ایک شادی شدہ اور دوسرا غیر شادی شدہ ہو تو شادی شدہ کو رجم اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے لگائے جائیں گے۔

خلاصہ

◈ شوہر کے ہوتے ہوئے عدالت کا یک طرفہ فیصلہ شرعاً معتبر نہیں۔
◈ نسرین کا دوسرا نکاح غیر شرعی اور زنا ہے۔
◈ اس جرم میں شریک شوہر اور جج (اگر جان بوجھ کر دھوکہ دیا ہے) بھی گناہ گار ہوں گے۔
◈ مطلقہ عورت عدت (تین حیض یا تین مہینے) گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے