رسم قل، ساتواں اور چالیسواں:
اللہ تعالی نے انسان کو تخلیق کر کے اس کرہ ارض پر بھیجا اور اس کی ہدایت ،رہنمائی کے لیے انبیاء اور رسل علیہم السلام مبعوث فرمائے اور کتب و صحائف بھی نازل فرمائے اور انسان کو اپنی عبادت اور اعمال صالحہ کا مکلّف بنایا کہ وہ اپنی مستعار زندگی ،میں اللہ کی رضا کے حصول کے لیے سرگرم رہے اور یہ اس وقت تک ہے جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آجائے ۔اور جب بندہ فوت ہو جاتا ہے یا اس کی جان کنی کا عالم ہوتا ہے، تو اس صورت میں اس کی تو بہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اس کے تمام اعمال خواہ، وہ اچھے ہوں یا بُرے کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ سوائے ان کاموں کے جو شریعت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
اذا مات الإنسان انقطع عنه عمله .. الخ صحیح مسلم ، كتاب الوصية ، رقم : 1631
” جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہو جاتا ہے۔“
ایک اور حدیث کا ابتدائی حصہ کچھ یوں ہے:
كل الميت يختم على عمله …. الخ سنن ابی داؤد ، کتاب الجهاد، رقم: 2500 – محدث البانی باللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”ہر میت کا خاتمہ اس کے عمل پر ہو جاتا ہے۔ “
آج ہمارے معاشرے میں میت کو ثواب پہنچانے کے نام پر باقاعدہ کاروبار تشکیل پاچکے ہیں، اور ایسے ایسے طریقے رواج پاچکے ہیں، جن کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت نہیں۔ حالانکہ کسی بھی کام کو سرانجام دینے کا وہ طریقہ ہی معتبر و مقبول ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمودہ ہے، اور میت کو انہی کاموں کا ثواب ملتا ہے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ذیل میں وہ چند ایک اعمال جن کا میت کو فائدہ، ثواب پہنچتا ہے۔ اختصار کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں:
دعا:
اگر مرنے والا کافر یا مشرک نہ ہو تو اس کی بخشش و بلندی درجات کی دعا کرنے کا ثبوت قرآن وحدیث کی نصوص سے ظاہر وباہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ (الحشر:10)
”اور جو لوگ ان (اہل ایمان) کے بعد آئے ، وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے، اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ایمان کے ساتھ ہم سے پہلے گزر گئے ، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کینہ نہ بنا، اے ہمارے پروردگار! یقینا تو مشفق مہربان ہے۔” “
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بقیع قبرستان کی طرف نکلا کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بارے میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو ارشاد فرمایا :
اني أمرت أن أدعو لهم مسند احمد : 252/6۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
” مجھے ان کے لیے دعا کا حکم دیا گیا ہے۔“
معلوم ہوا کہ اگر کوئی مومن، مسلم فوت ہو گیا ہو، تو اس کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ کافر ومشرک کے لیے دعا کی ممانعت قرآن میں مذکور ہے۔ مثلاً (سورۃ التوبہ : 113)
صدقہ جاریہ، نیک اولاد اور علم:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة : إلا من صدقة جارية ، أو علم ينتفع به ، فع به ، أو ولد صالح يدعوله صحیح مسلم، کتاب الوصية ، رقم: 1631
” جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل اس سے منقطع ہو جاتے ہیں: سوائے تین چیزوں کے (جن کا فائدہ مرنے کے بعد بھی اسے حاصل ہوتا ہے ) (1) صدقہ جاریہ (2) علم جس سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے اور (3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔“
اس کی مزید تفصیل ایک اور حدیث میں کچھ اس انداز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی :
بلاشبہ مومن آدمی کو اس کے عمل اور نیکیوں سے اس کی موت کے بعد جو ملتا ہے۔ ان میں سے (1) ایسا علم جس کی اس نے تعلیم دی اور اسے نشر کیا (2) اور نیک اولاد جو اس نے چھوڑی (3) اور قرآن جو اس نے ورثاء کے لیے چھوڑا (4) یا اس نے مسجد تعمیر کی (5) یا مسافر خانہ تعمیر کیا (6) یا نہر جاری کی (7) یا اپنی زندگی اور حالت صحت میں اپنے مال سے صدقہ کیا۔ اسے مرنے کے بعد ان اعمال کا اجر ملتا رہے گا ۔ سنن ابن ماجه ، المقدمة ، رقم ،242 صحیح ابن خزیمه، رقم: 2490- ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن چیزوں سے لوگ اس کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے بعد فائدہ حاصل کریں، اس کے ثواب کا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔
سید نا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
آدمی اپنے بعد جو سب سے بہترین چیزیں چھوڑ کر جاتا ہے: (1) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے (2) صدقہ جاریہ، اس کا اجر اسے (مرنے
کے بعد ) پہنچتا ہے ( 3 ) اور علم جس پر اس کے بعد عمل کیا جاتا ہے۔“ سنن ابن ماجة ، المقدمة ، رقم 241 ، طبرانی اوسط، رقم: 3496 – محدث البانی باللہ نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
فی سبیل اللہ پہرہ کا اجر :
اس کے علاوہ اگر کوئی اللہ کی راہ میں پہرہ دیتا ہے، تو اس کا اجر بھی مرنے کے بعد جاری رہتا ہے۔
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ کی راہ میں ایک دن اور ایک رات سرحدوں کا پہرہ دینا ، ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے، اور اگر وہ مر گیا تو اس کا وہ عمل اس پر جاری رہے گا جو وہ کرتا رہا، اور اس پر اس کا رزق و بدلہ جاری کر دیا جائے گا اور وہ فتنے سے محفوظ ہوگا۔“صحيح مسلم ، كتاب الامارة ، رقم 1913 ، سنن نسائی، کتاب الجهاد .39/6
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
كل الميت يختم على عمله إلا المرابط ، فإنه ينموله عمله إلى يوم القيامة ويؤمن من فتان القبر سنن ابی داؤد ، کتاب الجهاد، رقم 2500 سنن ترمذی ، کتاب فضائل الجهاد، رقم : 1621 – محدث البانی باللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
ہر میت کا خاتمہ اس کے عمل پر ہو جاتا ہے، مگر اللہ کی راہ میں پہرہ دینے والا اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے، اور وہ قبر کے فتنوں سے بچالیا جاتا ہے۔
فوت شدہ کے روزوں کی قضاء:
اگر کسی نے روزے رکھنے کی نذر مانی ہو، اور وہ اسے پورا کرنے سے قبل فوت ہو جائے تو اس کا کوئی وارث ، ولی نذر کے روزے رکھے گا۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من مات وعليه صيام ، صام عنه وليه صحيح البخاری ، کتاب الصوم ، رقم : 1952 ، صحیح مسلم ، کتاب الصيام، رقم : 1147 .
” جو آدمی مر جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں، تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزے رکھے۔“
اس کے علاوہ نذر کے روزے اگر بندہ فوت ہو گیا، نہ رکھ سکا تو اس کے مرنے کے بعد اس کا ولی وارث رکھے گا، خواہ مرد ہو یا عورت اس کے کئی ایک دلائل احادیث میں موجود ہیں: مثلاً : حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما ، اس کے علاوہ اگر کوئی نذر مانی ہو، اور : اسے پورا کر نے سے قبل فوت ہو جائے ، تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ”میری والدہ فوت ہو گئی ہیں ان کے ذمہ نذر ہے؟ (اب کیا کروں ) تو ارشاد فرمایا: اقضه عنها ” اس کی طرف سے آپ نذر پوری کرو ۔ صحيح البخارى، كتاب الوصايا ، رقم 2761 صحيح مسلم ، کتاب النذر رقم: 1638 .
فوت شدہ کی طرف سے ادا ئیگی قرض:
اگر کوئی شخص اپنا قرض ادا کیے بغیر فوت ہو جائے ، اگر تو وہ مال چھوڑ کر گیا ہے تو اس کے مال سے اس کا قرض ادا کر کے باقی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا، لیکن اگر اس کا مال نہ ہو تو میت کی طرف سے خواہ اس کا ولی، رشتہ دار قرض کی ادائیگی کرے، یا کوئی اور شخص میت کو اس کا نفع ملتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ:
ایک شخص کے ذمہ قرض تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مرنے کے بعد قرض کی وجہ سے جنازہ پڑھانے سے پیچھے ہٹے، تو صحابی ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس کے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کی تو جنازہ پڑھا دیا۔ بعد میں جب حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے قرض ادا کر دیا ہے تو ارشاد فرمایا:
اب اس پر اس کی جلد ٹھنڈی ہوگئی یعنی قرض کی ادائیگی سے اس پر سے سختی اٹھ گئی ۔“ مستدرك حاكم: 58/2 ، سنن الکبریٰ للبيهقي : 74/6، 75، مسند احمد330/3۔ حاکم نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی جانب سے قرض کی ادائیگی کوئی بھی کر سکتا ہے جس کا نفع میت کو ملتا ہے۔
فوت شدہ کی طرف سے صدقہ :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری ماں اچانک فوت ہوگئی ہے، میرا خیال ہے اگر مرتے وقت وہ بات کر سکتی تو صدقہ کرتی ۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں؟ تو ارشاد فرمایا: ہاں تو اس کی طرف سے صدقہ کر ۔ صحيح البخارى، كتاب الوصايا ، رقم: 2760، صحيح مسلم ، كتاب الزكاة ، رقم: 1004 .
اس کے علاوہ بھی کئی ایک احادیث سے میت کے لیے صدقہ کا ثبوت ملتا ہے کہ ملتا ہے کہ اس کا نفع مرنے کے بعد بھی حاصل ہوتا ہے۔
فوت شدہ کی طرف سے حج :
میت کی طرف سے حج کرنے کی کئی ایک احادیث ہیں، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
جہینہ قبیلہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی وہ حج کرنے سے قبل فوت ہو گئی ، کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہاں تو اس کی طرف سے حج کر۔ اور یہ بتا کیا تیری ماں پر قرض ہوتا ، تو تم ادا کرتی ؟ اللہ کا حق ادا کرو، اللہ وفا کا زیادہ حق دار ہے۔“صحيح البخاری ، کتاب جزاء الصيد ، رقم: 1852، مسند احمد: 239/1 .
ان تمام دلائل سے واضح ہوا کہ مرنے کے بعد میت کو ان چیزوں کا ثواب کا فائدہ پہنچتا ہے۔ اب ان کے علاوہ کسی اور چیز کا ثبوت قرآن وحدیث سے ملتا ہے تو ٹھیک ہے، وگرنہ اسے دین میں اضافہ تو قرار دیا جاسکتا ہے۔ دین نہیں، جیسا کہ قل، تیجا، ساتواں، چالیسواں، قرآن خوانی وغیرہ ایسے امور کے ذریعے میت کو ثواب پہنچانا ، تو اس کا ثبوت، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہمیں نہیں ملتا۔ اسلام کا اس کا سے کوئی تعلق نہیں۔
علامہ حسام الدین علی الحنفی رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
إن الاجتماع فى اليوم الثالث خصوصا ليس فيه فرضية ولا فيه وجوب ، ولا فيه سنة ، ولا فيه استحباب، ولا فيه منفعة ، ولا فيه مصلحة فى الدين ، بل فيه طعن و مذمة و ملامة على السلف حيث لم يبينوا، بل على النبى صلى الله عليه وسلم حيث ترك حقوق الميت بل على الله سبحانه و تعالى حيث لم يكمل الشريعة وقد قال الله تعالى: ﴿اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ﴾ الاية بحواله تفهيم المسائل: 172 .
یعنی خصوصیات کے ساتھ بالخصوص میت کے گھر تیسرے دن اجتماع (یعنی تیجہ) نہ تو فرض ہے، اور نہ واجب، نہ سنت اور نہ مستحب، نہ تو اس میں فائدہ ) ہے اور نہ کوئی دینی مصلحت، بلکہ اس میں سلف پر طعن و مذمت اور ملامت ہے کہ انہوں نے اس کو بیان نہیں کیا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے میت کے حق میں بیان نہیں فرمایا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر کہ اس نے شریعت کو مکمل نہیں کیا ( اور ہماری بدعات کی وہ محتاج ہے )، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”میں نے آج کے دن تم پر تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے۔“
قارئین کرام! علامہ صاحب کی گفتگو پر غور فرمائیں۔ کس قدر جھنجھوڑنے والی ہے ان لوگوں کو جو بدعات کے دلدادہ ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان بدعات میں کیا حرج ہے۔ علامہ صاحب واضح کہہ رہے ہیں کہ ان بدعات سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے دین میں کمی اور کو تاہی چھوڑ دی ہے کہ جس کو ہم نے بدعات کے ذریعہ پورا کیا ہے، حالانکہ ایسا تصور بھی ممکن نہیں اس لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أياكم و محدثات الأمور مسند احمد : 136/4، 137، معجم كبير للطبرانی : 246/18۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
اپنے آپ کو نئی نئی باتوں سے بچاؤ ، جو دین میں سے نکالی گئی ہیں۔“
جناب عبد اللہ الجبلی رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میت کے دفن کے بعد میت والوں کے یہاں جمع ہونا اور میت والوں کی طرف سے کھانا بنانا وغیرہ کو نوحہ کے برابر سمجھتے تھے۔
الشيخ الحديث العلام ابومحمد بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مندرجہ ذیل آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ (النجم:39)
” اور انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔“
و من هذه الآية الكريمة استنبط الشافعي رحمه الله لا و من تبعه ان القراءة لا يصل اهداء ثوابها إلى الموتى لأنه ليس من عملهم ولا كسبهم ، ولهذا لم يندب إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أمته ولا حتهم عليه عليه ولا أرشدهم إليه بنض ولا ايماء و لم ينقل ذلك عن أحد من الصحابة رضي الله عنه ولو كان خيرا لسبقونا إليه ، وباب القربات يقتصر فيه على النصوص و لا يتصر ، فيه بأنواع الاقيسة ولاراء ، فأما الدعاء و الصدقة فذاك مجمع على وصولهما و منصوص من الشارع عليهما عليهما و أما الحديث الذى رواه مسلم صحيحه . تفسير ابن كثير ، ج 4، ص : 258
عن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاث: من ولد صالح يدعو له ، أو صدقة جارية من بعده، أو علم ينتفع به . صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب اهداء الثواب الى الموتى، رقم: 4223
فهذه الثلاثة فى الحقيقة من سعيه و كذه و عمله ، كو جاء فى الحديث إن أطيب ما أكل الرجل من كسبه ، وإن ولده من كسبه و الصدقة الجارية كالوقف ونحوه هى من آثار عمله و وقفه و قد قال الله تعالى:
﴿إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ﴾ (يس:12)
والعلم الذى نشره فى الناس فاقتدى به الناس بعده هو أيضا من سعيه و عمله و ثبت فى الصحيح من دعا إلى هدى كان له من الأجر مثل أجور من تبعه لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا صحیح مسلم کتاب العلم باب من سن سنة حسنة أو سيئة، و من دعا الى هد او ضلالة، رقم : 6804 .
”امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کی اتباع کرنے والوں نے اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ استنباط فرمایا ہے کہ قراءت قرآن کا ثواب فوت شدگان کو ہدیہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ وہ ان کی محنت و کوشش کا نتیجہ نہیں ہے اور اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مستحب قرار نہیں دیا اور نہ صحابہ کوکسی ظاہری حکم یا اشارے سے اس کی طرف راہنمائی کی ہے اور یہ طریقہ کسی صحابی سے بھی منقول نہیں۔ اگر اس میں کوئی نیکی ہوتی تو وہ ضرور ہم سے پیش قدمی کرتے اور نیک کاموں سے متعلق صرف شرعی احکام (کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ کسی کے ذاتی فتوے اور قیاس یا رائے سے اس میں حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
البتہ دعا وصدقہ کا ثواب پہنچنے پر سب کا اتفاق ہے کیونکہ شارع صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح ارشاد موجود ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب انسان اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو تین چیزوں کے علاوہ اس کا نامہ اعمال بند ہو جاتا ہے۔ (1) نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔ (2) اس کے بعد جاری رہنے والا صدقہ اور (3) ایسا علم جس سے لوگ نفع حاصل کریں۔“
یہ تینوں چیزیں درحقیقت اس کی اپنی محنت و کوشش کا نتیجہ ہیں۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ انسان کے لیے سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو اور اس کا بیٹا بھی اس کی کمائی کا حصہ ہے اور صدقہ جاریہ بھی وقف کی طرح ہے اور وقف اس کے کام اور محنت کے باقی ماندہ نشانیاں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
” ہم یقیناً مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں۔ جو کچھ افعال انہوں نے کیے ہیں اور جو آ ثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ سب لکھتے جا رہے ہیں۔“
اور وہ علم جو اس نے لوگوں میں پھیلایا پھر لوگوں نے اس کے بعد بھی اس کی پیروی کی۔ یہ عمل بھی اس کی اپنی محنت و کوشش کا نتیجہ ہے اور صحیح حدیث سے ثابت ہے: ”جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا ہی اجر ہے جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا اور ان کے اپنے عمل میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔“
اس عبارت سے مندرجہ ذیل امور معلوم ہوتے ہیں:
قرآن خوانی کا ثبوت نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ملتا ہے اور نہ اشارہ ، نہ آپ نے خود ایسا عمل کیا اور نہ امت کو ایسا کرنے کی تعلیم دی اور نہ اشارہ فرمایا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی یہی بات بیان فرمائی ہے۔ كتاب الروح ، ص: 175
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کئی انبیاء علیہم السلام و اہل اللہ فوت ہو چکے تھے۔ آپ کی زندگی میں کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فوت ہوئے۔ حتی کہ سعد بن معاذ رضی اللہ جن کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اهتز العرش لموت سعد بن معاذ
حضرت سعد بن معاذرضی اللہ کی موت سے عرش بھی خوش ہوا۔ صحيح البخارى، كتاب مناقب الانصار، باب مناقب سعد بن معاذ ، رقم : 3803، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 1084.
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی قریبی رشتہ دار اور پیارے دوست آپ کی موجودگی میں فوت ہوئے اور بعض شہید بھی ہوئے۔ مثلاً آپ کے محترم چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، چا زاد بھائی جعفر بن ابی طالب، رضاعی بھائی (دودھ شریک بھائی) عثمان بن مظعون و ایمن و ابوسلمہ ازواج مطہرات میں سے حضرت خدیجہ، زینب بنت خزیمہ، آپ کی ساس ام رومان زوجہ ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ، دوسری ساس زینب بنت مظعون والدہ حضرت حفصہ بنت عمر ، آپ کے فرزندان قاسم، طیب، ابراہیم، بیٹیاں رقیه، ام کلثوم، زینب، آپ کے نواسے علی بن زینب عبداللہ بن رقیہ اور آپ کا منہ بولا بیٹا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم ۔ یہ سب آپ کی زندگی میں رحلت فرما گئے۔ لیکن کسی ایک کے لیے بھی آپ نے قرآن خوانی نہیں کی اور نہ دوسروں کو ایسا کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح غزوات میں کئی صحابہ شہید ہوئے۔ جن میں علماء فقہاء زہا دو عباد سب تھے۔ مگر کسی کے لیے بھی قرآن خوانی نہیں کی اور نہ کرنے کی توجہ دلائی۔
پس جو عمل آپ کے زمانے میں نہ تھا وہ آج شریعت میں کیسے داخل ہو سکتا ہے؟ قرآن خوانی کی شرعی حیثیت ، ص : 17،6
(3) اذان سے قبل خود ساختہ درود پڑھنا:
بعض لوگ اذان سے پہلے خود ساختہ درود الصلوة والسلام عليك يا رسول الله، وعلى آلك و اصحابك يا حبيب الله پڑھتے ہیں۔ زمانہ نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد سے ایسے الفاظ کا ثبوت نہیں ملتا، اس کا رواج مصر کی رافضی حکومت کے زمانہ میں ہوا ہے۔ السنن والمبتدعات .
لیکن اذان کے بعد میں سری آواز سے مسنون درود پڑھا جائے، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
شیخ محمد بن عبدہ مفتی مصر سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ”اذان کے کلمات پندرہ ہیں، جس کے آخر میں لا اله الا الله ہے۔ اس سے پہلے اور بعد میں جو کلمات کہے جاتے ہیں سب نو ایجاد بدعات ہیں۔ بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم ص: 297 298۔
(4) میت کے گھر میں اور جنازہ قبرستان کی طرف لے جاتے وقت بلند آواز سے قرآن مجید کو پڑھنا:
سوال : جب کوئی آدمی فوت ہوتا ہے تو اس گھر میں لاؤڈ سپیکر پر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی جاتی ہے، حتی کہ جب گاڑی پر میت کو قبرستان میں لے جایا جاتا ہے تو اس وقت بھی گاڑی کے ساتھ سپیکر نصب ہوتا ہے، حتی کہ اس طرح تلاوت سنتے ہی لوگ بدشگونی لیتے ہیں کہ کوئی فوت ہو گیا ہے اور اب صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ کسی انسان کی موت پر ہی تلاوت قرآن کی جاتی ہے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ اور اس طرح کرنے والوں کے لیے آپ کے کیا پند و نصائح ہیں؟
جواب: بلا شک و شبہ یہ عمل بدعت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا۔ تلاوت قرآن سے بلاشبہ غم وفکر ہلکا ہو جاتا ہے بشرطیکہ آدمی اسے خود خشوع و خضوع سے پڑھے، نہ کہ سپیکروں پر اس طرح پڑھا جائے۔ اسی طرح اہل میت کا تعزیت کے لیے آنے والوں کے استقبال کے لیے جمع ہونا بھی ان امور میں سے ہے جو عہد نبوی اور عہد صحابہ میں معروف نہ تھے، حتی کہ بعض علماء نے اسے بھی بدعت قرار دیا ہے، لہذا ہماری رائے میں اہل میت کو لوگوں کی طرف سے تعزیتیں وصول کرنے کے لیے جمع نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں اپنے دروازے بند کر لینے چاہئیں، اگر بازار میں انہیں کوئی ملے یا جاننے والوں میں سے کوئی آئے کہ تعزیت وصول کرنے کا انہوں نے با قاعدہ کوئی اہتمام نہ کیا ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں۔
تعزیت وصول کرنے کے لیے لوگوں کے با قاعدہ استقبال کا عہد نبوی اور عہد صحابہ میں کوئی رواج نہیں تھا ، حتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو اہل میت کے جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو بھی نوحہ شمار کرتے تھے۔ نوحہ کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ معروف ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا ہے:
النائحة إذا لم تتب قبل موتها، تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران ، ودرع من جرب . صحیح مسلم ، الجنائز، باب التشديد في النياحة، رقم : 934 .
”نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے تو بہ نہ کرے تو اسے روز قیامت اس طرح کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تارکول کا کرتہ اور خارشی زرہ ہو گی۔“ ( اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔)
میری اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت ہے کہ ان بدعت والے کاموں کو ترک کر دیں، کیونکہ ان کا ترک کر دینا، ان کے لیے بھی اور میت کے لیے بھی اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”میت کو اس کے گھر والوں کے رونے اور نوحہ کرنے سے عذاب ہوتا ہے۔ “صحیح بخاری، الجنائز، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعذب الميت ….. الخ ، حديث: 1286، 1287 ، صحیح مسلم الجنائز، باب الميت يعذب ببكاء اهله عليه ، حديث: 927 .
یعنی اسے اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ اگر چہ اسے اس کی اتنی سزا نہیں ملے گی جتنا کہ نوحہ کرنے والے کو کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾ (الأنعام:164)
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے ( کے گناہ ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“
اس حدیث میں عذاب کا لفظ سزا کے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ اسی طرح ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
السفر قطعة من العذاب صحيح البخاري، العمرة، باب السفر قطعة من العذاب، ح: 1804 .
”سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔“
یعنی دکھ درداور غم و فکر کو بھی عذاب کہا جاتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ عذبني ضميري ”میرے ضمیر نے مجھے عذاب دیا۔“
حاصل کلام یہ ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان باتوں سے دور رہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والی اور ان کے مردوں کو عذاب سے قریب کر دینے والی ہیں۔ فتاوی اسلامیه : 78/2 ، 79. ( شیخ ابن عثمین )
(6) جنازہ کے ساتھ بلند آواز سے لا إله إلا الله پڑھنا :
سوال: جب جنازہ قبرستان کی طرف لے جایا جا رہا ہو تو اس وقت اجتماعی طور پر بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ جب آپ جنازے کے ساتھ تشریف لے جاتے تو آپ سے نہ کلمہ طیبہ کا ورد سنا جاتا نہ قرآن مجید کی تلاوت اور نہ ہی کچھ اور۔ ہمارے علم کے مطابق تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ کے ساتھ اجتماعی طور پر کلمہ طیبہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ آپ سے تو یہ مروی ہے:
لا تتبع الجنازة بصوت ولا نار سنن ابی داود، الجنائز، باب فی اتباع الميت بالنار ، ح: 3171 .
”جنازہ کے ساتھ آواز بلند ہو نہ جنازہ کے ساتھ آگ کو لے جایا جائے۔ “
قیس بن عباد ( جو اکابر تابعین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے ) فرماتے ہیں: ”حضرات صحابہ کرام جنازے، ذکر اور جنگ کے وقت آواز پست رکھنا مستحب سمجھتے تھے۔“
شیخ الاسلام ابن تیمیہ الاللہ فرماتے ہیں کہ جنازہ کے ساتھ آواز کو بلند کرنا خواہ وہ قراءت ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جنازہ کے ساتھ آواز کو بلند کرنا خواہ وہ قراءت کی صورت میں ہو، ذکر کی صورت میں مستحب نہیں ہے، ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے اور صحابہ و تابعین و سلف سے بھی یہی منقول ہے، کسی نے اس مسئلہ میں مخالفت بھی نہیں کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حدیث و آثار کا علم جاننے والوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خیر القرون میں اس کا کوئی رواج نہ تھا۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بلند آواز سے جنازوں کے ساتھ کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت پڑھنا ایک قبیح بدعت ہے، اسی طرح اس موقع پر لوگوں کا یہ کہنا کہ بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھو یا اللہ کا ذکر کرو یا قصیدہ بردہ وغیرہ پڑھو، یہ سب بدعت ہے۔ (فتوی کمیٹی ) فتاوی اسلامیه، جلد دوم، ص: 79 ، 80
(6) قبر کے پاس اذان و اقامت:
بلا شک و شبہ یہ بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی سند نازل نہیں فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ایسا ہرگز ثابت نہیں ہے جب کہ ساری خیر و برکت انہی کے نقش قدم پر چلنے میں ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ﴾ التوبة:100
”وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دولت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی اور وہ جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان
سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں۔“
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد صحيح البخاري، الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور ….. الخ ، ح: 2697
” جو شخص ہمارے اس دین (اسلام) میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے جو کہ اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔“
(7) تدفین کے بعد قبر پر قرآن خوانی:
امام شوکانی رحمہ اللہ نے منتقی کی شرح میں فرمایا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کی ایک جماعت کا مشہور مذہب یہ ہے کہ قرآن حکیم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا اور ہم کہتے ہیں کہ قرآن حکیم کی تلاوت مردوں کے لیے مفید نہیں اور نہ قرآن قبروں پر پڑھا جائے اس کی واضح دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
اقرء وا سورة البقرة فى بيوتكم ولا تجعلوها قبورا الدر المنثور: 21/1
”اپنے گھروں میں سورہ بقرہ پڑھو اور ان کو قبرستان مت بناؤ۔“
نیز ارشاد فرمایا:
صلوا فى بيوتكم ولا تتخذوها قبورا سنن ترمذی ، کتاب مواقيت الصلاة ، رقم 451، صحیح ابوداؤد، رقم: 958، 3102
”اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور ان کو قبرستان مت بناؤ۔“
اگر مردوں کو ثواب پہنچانے کے لیے ان کی قبروں پر قرآن حکیم پڑھنا مفید ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ایمان والوں کے ساتھ رؤف و رحیم تھے یہ نہ فرماتے کہ قرآن اور نماز گھروں میں پڑھو اور گھروں کو قبرستان مت بناؤ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا محض اس لیے فرمایا کہ قبریں قرآن کی تلاوت اور نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زندگی میں ایک بار بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر قرآن حکیم یا قرآن کی کچھ سورتیں پڑھی ہوں جبکہ آپ نے کثرت سے قبر کی زیارت فرمائی اور لوگوں کو زیارت قبور کے آداب و طریقے کی تعلیم بھی دی۔ قرآن خوانی اور ایصال ثواب، تالیف مختار احمد ندوی ،ص : 47، 48۔
ملاعلی قاری حنفی نے الفقہ الاکبر ص 110 میں لکھا ہے:
ثم القراءة عند القبور مكروهة عند أبى حنيفة ، ومالك ، وأحمد رحمهم الله فى رواية لانه محدث لم تروبه السنة، وكذلك قال شارح الإحياء قرآن خوانی اور ایصال ثواب تالیف مختار احمد ندوی ، ص : 48 49 ۔
”امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ ، اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک قبروں کے پاس قرآن کا پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ وہ بدعت ہے اس کے بارے میں حدیث وارد نہیں ہے شارح احیاء العلوم کا بھی یہی بیان ہے۔“
(8) اذان میں علی ولی اللہ کا اضافہ :
اذان شعائر اسلام میں سے ہے اس کے الفاظ وہی درست ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ اذان میں نہ اپنی طرف سے اضافہ جائز ہے اور نہ کمی۔ جو شخص اذان میں کلمات کا اضافہ کرتا ہے وہ بدعتی ہے بلکہ لعنت کا مستحق ہے۔ سید نا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ کی جو روایت اذان کے بارے میں مروی ہے، اس میں یہ بات مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کے واسطے ناقوس بجانے کا حکم دیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی کے ہاتھ میں ناقوس ہے تو میں نے اس کو کہا، اے اللہ کے بندے کیا تو ناقوس بیچے گا ؟ تو اس نے کہا آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟ تو میں نے کہا میں نماز کے لیے اس کے ذریعے لوگوں کو ندا دوں گا۔ تو اس نے کہا کہ میں تیری ایسی بات کی طرف راہنمائی کروں جو اس سے بہتر ہے۔ میں نے کہا کیوں نہیں۔ تو اس نے کہا تو کہ: الله اكبر الله أكبر، الله أكبر الله أكبر ، أشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا لا محمدا رسول الله ، اشهد ان محمدا رسول الله ، حي على الصلوة، حي على الصلوة، حي على الفلاح على الفلاح، الله اكبر الله أكبر ، لا إله إلا الله ، صبح میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا خواب سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن هذا رؤيا حق إن شاء الله
”یقینا یہ خواب سچا ہے اگر اللہ نے چاہا۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”بلال رضی اللہ عنہ کو یہ کلمات سکھا دو تا کہ وہ اذان کہے کیونکہ اس کی آواز تجھ سے بہتر ہے۔ “ منتقى لابن جارود، رقم : 158 ، سنن ابو داود رقم: 499، سنن ابن ماجه ، رقم : 706 ، سنن ترمذی، رقم: 189، مسند احمد: 43/4، سنن دارمی: 214/1، سنن دار قطنی: 241/1، صحيح ابن خزيمة: 189/1 ، 191 ، 192 .
اس طرح فجر کی اذان میں حي على الفلاح کے بعد دوبار الصلوة خير من النوم کہنا بھی مشروع ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
من السنة إذا قال المؤذن فى آذان الفجر حي على الفلاح قال: الصلاة خير من النوم
صبح کی اذان میں حي على الفلاح کے بعد الصلاة خير من النوم کہنا سنت ہے۔“ صحیح ابن خزيمة 202/1، رقم : 386 ، سنن دار قطنی 243/1، سنن الكبرى بيهقي: 423/1 .
اسی طرح سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان سکھلائی اور فرمایا صبح کی اذان میں ” الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم“ کہا کرو ۔ مسند احمد: 408/3، سنن ابو داود رقم 501 سنن نسائی: 7/2، صحیح ابن خزیمه 385 سنن دار قطنی 224/1 ، السنن الكبرى بیهقی: 422/1، صحیح ابن حبان: 289 تاريخ الكبير : 123/1 ، مصنف عبدالرزاق: 472/1 ، حلية الأولياء: 310/8
اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ فجر کی پہلی اذان میں الصلاة خير من النوم کہا جاتا ہے۔ السنن الكبرى بيهقي 423/1 ، التلخيص الحبير : 201/1
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے اذان میں ترجیع بھی ثابت ہے یعنی شہادتین کے کلمات کو دوبارہ کہنا۔ پہلی بار آہستہ دوسری بار اس سے اونچی آواز میں۔ مذکورہ بالا صحیح احادیث یہ بات معلوم ہوئی کہ اذان کے مذکورہ کلمات ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ ان میں نہ اضافہ جائز ہے اور نہ ہی کمی۔ اس اذان میں اشهد ان عليا ولي الله وغیرہ کے کلمات نہیں ہیں جو لوگ ان کلمات کا اضافہ کرتے ہیں، وہ احداث فى الدين کے مرتکب ہیں اور بدعتی ہیں۔ فقہ جعفریہ میں بھی ان کلمات کا اذان میں کہنا ثابت نہیں ہے بلکہ فقہ جعفریہ کی رو سے یہ کلمات اذان میں کہنا گناہ ہے اور کہنے والا لعنت کا مستحق ہے۔
فقہ جعفریہ کی صحاح اربعہ وغیرہ میں مرقوم اذان اور اہل سنت کی اذان میں فرق صرف یہ ہے کہ حي على الفلاح کے بعد فقہ جعفریہ کی طرف سے حي على خير العمل دو مرتبہ کہنا ہے۔ باقی اذان کے الفاظ وہی ہیں جو اہل سنت کی اذان کے ہیں۔ شیعہ مذہب کی معتبر کتاب الفقيه من لا يحضره الفقيه، ص: 188/1 پر ابن بابویہ قمی نے اذان کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
هذا هو الأذان الصحيح لا يزاد فيه ولا ينقص منه ، و المفوضة لعنهم الله قد وضعوا أخبارا و زادوا فى الآذان محمدا و أل محمد خير البرية مرتين ، و فى بعض رواياتهم بعد أشهد أن محمدا رسول الله ، اشهد ان عليا ولي الله مرتين ، و منهم من ، ومنهم من روى بدل ذلك اشهد أن عليا أمير المؤمنين حق مرتين ، ولا شك فى ان عليا ولي الله نه أمير المؤمنين حقا، وأن محمدا واله صلوات الله عليهم خير البرية ، ولكن ليس ذلك فى أصل الآذان، و إنما ذكرت ذلك ليعرف بهذه الزيادة المتهمون بالتفويض المدلسون انهم فى جملتنا
” یہی اذان صحیح ہے نہ اس میں زیادتی کی جائے گی اور نہ کمی، اور مفوضہ فرقہ پر اللہ کی لعنت ہو۔ انہوں نے بہت سی روایات گھڑیں اور اذان میں محمد و آل محمد خیر البریہ دو مرتبہ کہنے کے لیے بڑھا دیئے، اور ان کی بعض روایات میں اشهد ان محمدا رسول الله ، کے بعد اشهد ان عليا ولى الله دو دفعہ ذکر کیا گیا ہے۔ ان مفوضہ میں سے بعض نے ان
الفاظ کی بجائے یہ الفاظ روایت کیے ہیں اشهد ان عليا أمير المؤمنين حَقًّا یہ بات یقینی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اللہ کے ولی اور سچے امیر المومنین ہیں، اور محمد و آل محمد خیر البریۃ ہیں لیکن یہ الفاظ اصل اذان میں نہیں ہیں۔ میں نے یہ الفاظ اس لیے ذکر کیے ہیں تا کہ ان کی وجہ سے وہ لوگ پہچانے جائیں جو مفوضہ ہونے کی اپنے اوپر تہمت لیے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے آپ کو اہل تشیع میں شمار کرتے ہیں۔ انتہی
ابن بابویہ قمی شیعہ محدث کی اس صراحت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اشهد ان عليا ولى الله وغیرہ کلمات اصل اذان کے کلمے نہیں، بلکہ اس لعنتی فرقہ مفوضہ نے یہ گھڑے ہیں اور اذان میں داخل کر دیئے ہیں۔ ائمہ محدثین کے ہاں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔
(10) نماز کی نیت میں بدعت :
جس نماز کی ادائیگی کا ارادہ ہو، فرض ہو یا نفل دل میں اس کی نیت کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
أنما الأعمال بالنيات صحیح بخاری ، کتاب الایمان والنذور، رقم: 6689 ، صحیح مسلم، رقم: 1907 .
اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔
نیت کا محل دل ہے، اور زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قطعی ثابت نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”الفاظ سے نیت کرنا علماء مسلمین میں سے کسی کے نزدیک بھی مشروع نہیں ۔ “ الفتاوى الكبرى .
مزید فرماتے ہیں: ”اگر کوئی انسان سیدنا نوح علیہ السلام کی عمر کے برابر تلاش کرتا رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے زبان سے نیت کی ہو تو ہرگز کامیاب نہیں ہو گا، سوائے چٹا جھوٹ بولنے کے۔ اگر اس میں خیر و بھلائی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے پہلے ایسا کرتے اور ہمیں بتا کر جاتے ۔اغاثة اللفهان 608/1 .
مزید فرماتے ہیں: نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں۔ قصد و ارادہ کا مقام دل ہے، زبان نہیں۔ الفتاوى الكبرى: 1/1 .
امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ زبان سے نیت کو بدعت گردانتے ہیں۔ زاد المعاد: 201/1
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نیت صرف دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔ شرح المهذب: 352/1 .
مزید فرماتے ہیں: زبان سے نیت کرنا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ کسی صحابی سے نہ تابعی سے اور نہ ہی ائمہ اربعہ (ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد ) سے۔ حواله ايضا .
ملاعلی قاری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الفاظ کے ساتھ نیت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے۔ مرقاة شرح مشكوة 41/1
شیخ احمد سر ہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنے مکتوب ( دفتر اول، حصہ سوم، مکتوب نمبر 186) میں لکھتے ہیں: ”زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت صحیح اور نہ بروایت ضعیف ثابت ہے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ زبان سے نیت نہیں کرتے تھے، بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف اللہ اکبر کہتے تھے، پس زبان سے نیت بدعت ہے۔
(11) ماتم، تعزیہ اور شبیہ :
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مصیبت کے وقت صبر کی تلقین کی ہے اور گریبان چاک کرنا، سینہ کوبی کرنا وغیرہ صبر کے خلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ (البقرة:153)
” اے ایمان والو صبر اور نماز سے مد دلو بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
انسان کو احکام شریعت پر عمل کرنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں اور مصائب و آلام برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ صبر و صلاة ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین معاون ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے: مومن کے لیے ہر حال میں بہتری ہے تکالیف کی حالت میں صبر کرتا ہے اور خوشحالی میں شکر گزار رہتا ہے۔
اس آیت کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے احکامات اور مومنین کی آزمائش کا ذکر کیا ہے کہ:
﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ . وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ . الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ .﴾ (البقرة:154 تا 156)
” جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے اور البتہ ہم آزمائیں گے تم کو کسی ایک چیز کے ساتھ ڈر سے اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی کے ساتھ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وه إنا لله وإنا إليه جعون کہتے ہیں۔“
مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ مومن آدمی کو اللہ تعالیٰ مختلف طرق سے آزماتا ہے۔ کبھی خوف و ڈر کے ذریعے، کبھی جانوں اور مالوں کی کمی کے ذریعے اور کبھی پھلوں کے نقصانات سے۔ ایمان دار آدمی کو جب ان تکالیف میں سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ بے صبری نہیں کرتا بلکہ صبر کے ساتھ ان مصائب کو برداشت کرتا ہے جو لوگ مصیبت یا پریشانی دیکھ کر بے صبری کریں اور واویلا بر پا کر دیں، گریبان چاک کریں، بال نوچیں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق امت محمد سے نہیں ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ليس منا من ضرب الحدود ، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم : 285 .
” جس شخص نے رخسار پیٹے اور گریبان چاک کیا اور جاہلیت کے واویلے کی طرح واویلا کیا وہ ہم میں سے نہیں۔ “
عشرہ محرم الحرام میں جو لوگ سیدنا علی، سیدنا حسین اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہم کا نام کا لے کر گلی کوچوں میں نکلتے ہیں اور گریبان چاک کرتے ہیں، سینہ کوبی کرتے ہیں، ان کا یہ عمل قرآن و سنت کے خلاف ہونے کے علاوہ ائمہ اہل بیت اور مجتہدین فقہ جعفریہ کے فتاویٰ کے بھی خلاف ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق یہ قبیح عمل 352ھ دس محرم الحرام کو بغداد میں معز الدولہ شیعہ کے حکم سے جاری ہوا ہے۔ اس سے قبل اس عمل قبیح کا نام و نشان نہیں ملتا۔ تاریخ ابن اثیر ، ص : 197 پر مرقوم ہے:
عشرہ محرم الحرام میں اس قبیح رسم کا رواج بغداد میں معز الدولہ شیعہ سے ہوا، جس نے دس محرم 352ھ کو حکم دیا کہ دکانیں بند کر دی جائیں، بازار اور خرید و فروخت کا کام روک دیا جائے ، اور لوگ نوحہ کریں، مکمل کالا لباس پہنیں، عورتیں پراگندہ ہو کر گریبان چاک کریں، پیٹتی ہوئی شہر کا چکر لگائیں۔“
ہم فقہ جعفریہ کی معتبر کتاب سے چند روایات درج کرتے ہیں:
عن أبى عبد الله قال: إن الصبر والبلاء ليأتيان إلى المومن ، فيأتيه البلاء وهو صبور، وإن الجزع والبلاء ليأتيان إلى الكافر، فيأتيه البلاء و هو جزوع
” امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا یقیناً صبر اور آزمائش دونوں مومن پر آتے ہیں۔ مومن پر جب آزمائش آتی ہے تو وہ صبر کرنے والا ہوتا ہے اور بے صبری اور آزمائش دونوں کافر پر آتے ہیں اور جب اس پر آزمائش آتی ہے تو وہ بے صبری کرتا ہے۔ “ فروع کافی، کتاب الجنائز: 131/1
امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ صبر کرنے والا مومن ہے اور جو بے صبری کرتا ہے وہ مومن نہیں ہے۔
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لفاطمة إذا أنا مت فلا تخمشى على وجها ، ولا ترخي على شعرا ، ولا تنادى بالويل، ولا تقيمي على نائحة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمتہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا : جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھ پر چہرہ نہ نوچنا اور نہ مجھ پر اپنے بال بکھیرنا اور نہ واویلا کرنا اور نہ مجھ پر نوحہ کرنا ۔فروع ،کافی کتاب النكاح ص 228
قال أبو عبد الله : لا ينبغي الصياح على الميت ، و لا شق الثياب
امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے فرمایا : میت پر چیخ و پکار اور کپڑے پھاڑنا جائز نہیں۔“ فروع کافی 188/1
قال أبو جعفر: من جدد قبرا أو مثل مثالا فقد خرج عن الإسلام
امام باقر نے فرمایا: ”جس نے قبر کی تجدید کی یا کوئی شبیہ بنائی، وہ اسلام سے خارج ہو گیا۔ “من لا يحضره الفقيه، باب النوادر .
مندرجہ بالا فقہ جعفریہ کی چار روایات سے معلوم ہوا کہ فقہ جعفریہ میں بھی مصیبت کے وقت بال بکھیرنا، چہرے پیٹنا، سینہ کوبی کرنا ، واویلا کرنا ، مر ثیے پڑھنا، شبیہیں بنانا ، قبروں کی تجدید کرنا نا جائز اور حرام ہیں۔
(12) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سن کر انگوٹھے چومنا:
کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے چومنے اور آنکھیں ملنے کا حکم دیا ہو۔ نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک صحابی سے صحیح سند سے ثابت ہے۔ حتی کہ ائمہ اربعہ سے کوئی اس کی سند پیش نہیں کر سکتا۔
اس صریح اور واضح حدیث کے ہوتے ہوئے جس میں اشهد ان محمدا رسول الله کے جواب میں صرف وہی کلمہ دہرانے کی ہی تعلیم ہے اور اس سارے جواب پر جنت کی گارنٹی ہے۔ کہیں بھی انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر ملنے کا ذکر نہیں ہے۔ افسوس صد افسوس کہ لوگوں نے کہیں انگوٹھے چومنے ، کہیں ”قرة عینی“ والے الفاظ کہنے شروع کر دیئے ہیں۔ یہ خود ساختہ حرکتیں اور خود ساختہ الفاظ ایسے ہیں جن کا دین اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
یہ بات بھی یاد ر ہے کہ اس بارے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اور دوسری جتنی روایات ہیں وہ سب کی سب موضوع یعنی بناوٹی اور خود ساختہ ہیں۔
چنانچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب رد المحتار 293/1 میں ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
لم يصح فى المرفوع من كل هذا شيء
اس بارے میں جتنی بھی مرفوع روایات ہیں ایک بھی صحیح سند سے ثابت نہیں۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے ابن طاہر حنفی کی کتاب ”التذکرہ “ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جس روایت میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انگوٹھا چومنے کا بیان کیا جاتا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ الفوائد المجموعه في الاحاديث الموضوعة 9
حسن بن علی ہندی تعلیقات مشکوۃ میں لکھتے ہیں:
كل ما روي فى وضع الإبها مين على العينين عند سماع الشهادة المؤذن لم يصح
”مؤذن سے شہادتین کے کلمے سنتے وقت آنکھوں پر انگوٹھے رکھنے کے بارے میں جو کچھ روایت کیا گیا ہے ان میں سے کچھ بھی صحیح نہیں۔“
(13) شب برات:
جب انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر اتارا تو اسے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
﴿فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (البقره: 38)
” جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔“
یہ ہدایت انبیاء ورسل علیہم السلام کے ذریعے انسانوں تک مختلف اوقات و احوال میں پہنچتی رہی۔ اور انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ والسلام کمال امانت کے ساتھ من وعن پہنچا کر اپنے فریضے سے سبکدوش ہوتے چلے گئے ، حتی کہ اس ہدایت کا اتمام اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس انداز سے کیا۔
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ (المائدة:3)
”آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا، اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا۔“
اور اللہ تعالی نے جب اپنی ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام کر دی، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی من و عن کما حقہ اس ہدایت کو پہنچا دیا تو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلا لیا۔ اور اسلام کے ماننے والوں کو مختلف انداز سے وعظ ونصیحت فرما دی۔ کہ ان کے روز شب، ماہ و سال، خلوت جلوت، خانگی ، معاشرتی ، معاملات، کس نہج و ڈگر پر گامزن رہیں گے۔ اور اگر کہیں اختلاف کی صورت رونما ہو جائے تو اس اختلاف کے خاتمہ کے لیے اصول مقرر فرما دیا :
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء:59)
” پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ ،اللہ کی طرف اور رسول کی طرف ، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بہت اچھا ہے۔“
اس آیت میں اس بات کا واضح حکم دیا گیا ہے کہ متنازعہ امور میں رجوع الی اللہ و الی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو گا۔ یہاں یہ بات قابل توجہ و فکر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی فیصل ہوں گے۔ اب اگر اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے تمام معاملات کے متنازعہ امور کا حل ہی نہ بتا سکیں تو اس حکم کا فائدہ؟
نتیجہ یہی نکلے گا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات تو ہر قدم پر راہنمائی کرتے ہیں۔ بس انہیں تلاش کرنے میں ہم سے ہی کمی، کوتاہی و سستی ہوتی ہے۔ خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو۔ اس کے برعکس چونکہ شیطان بھی انسانوں کو بہکانے و بھٹکانے میں مسلسل مصروف عمل ہے۔ تو مختلف لوگوں کو مختلف انداز سے لوگوں کو اپنی چالوں میں پھانستا ہے ، کسی کو دین کے نام پر تو کسی کو مغربی تہذیب و کلچر کا رسیا بنا کر ، الغرض مختلف حربوں کے ذریعے ۔
دین کے نام پر گمراہی کی ایک صورت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی اصل صورت کو مسخ کر کے، یا اس میں ترمیم و اضافہ کیا جائے۔ اس لیے مختلف ایام وشہور میں احکامات اسلامیہ کے بجائے مختلف طریقے جن میں سے کئی اغیار سے اخذ کردہ ہیں، ان پر لوگ عمل کرتے نظر آتے ہیں، مثلاً :
(1)شعبان کے مہینے میں شب برات کے موقعہ پر آتش بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اور اسے مذہبی عقیدت کا رنگ دے کر روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہا کر آتش بازی کی جاتی ہے۔ حالانکہ اسلام میں عبادات میں آتش کا کہیں تصور نہیں۔
بلکہ آتش پرست جنہیں مجوسی کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی عبادت و خوشی کے مواقع پر آگ روشن کرتے ، چراغاں کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ۔ جیسا کہ ایران میں جشن نو روز پر آتش بازی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اور ہندوستان میں دیوالی اسی آتش پرستی کے یادگار کے حوالے سے منائی جاتی ہے۔ غیر مذاہب کے ساتھ یا قریب رہنے سے بہت سی خرابیاں مسلمانوں میں داخل ہو گئیں۔ جس میں سے ایک شب برات کے موقع پر آتش بازی کا اہتمام کرنا بھی ہے۔
علامہ طاہر پٹنی ہندی لکھتے ہیں۔
علی بن ابراہیم فرماتے ہیں: آگ روشن کرنے کی بدعت سب سے پہلے برا مکہ نے جاری کی، وہ آگ کے پجاری تھے۔ جب اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے اسلام میں ایسی چیز کو داخل کر دیا، جس کو ملمع سازی کے ذریعے وہ دین کی سنت کہتے تھے۔ حالانکہ ان کا مقصد آگ کی عبادت تھا۔ اور شریعت میں کسی موقع پر ضرورت سے زیادہ چراغاں کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ “ تذكرة الموضوعات، ص: 46.
(2)شب برات کے موقعہ پر لوگ لمبی لمبی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اور مخصوص سورتیں متعین کردہ تعداد کے مطابق پڑھتے ہیں۔
امام ابومحمد عز الدین بن عبدالسلام المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بیت المقدس میں رجب کے مہینے میں صلوۃ الرغائب اور نصف شعبان کی صلوۃ قطعاً نہ تھیں۔ یہ بدعت 448ھ میں ایجاد ہوئی ، نابلس میں ایک شخص جو ابوالحی نام سے معروف تھا۔ ہمارے ہاں آیا ، وہ اچھی تلاوت کر لیتا تھا۔ وہ نصف شعبان کی رات مسجد اقصیٰ میں نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔ آہستہ آہستہ اس کے پیچھے لوگ جمع ہونے لگے۔ حتی کہ اختتام نماز پر بہت سے لوگ جمع ہو گئے ، آئندہ سال وہ پھر آیا۔ اس کے ساتھ ایک جم غفیر نے نماز ادا کی اور یہ نماز مسجد اقصیٰ اور لوگوں کے گھروں و دیگر مقامات میں عام ہو گئی، یہ اس طرح سمجھی جانے لگی گویا کہ یہ سنت ہے۔ اور آج تک یہ بدعت چلی آرہی ہے۔“حلبي الكبير ، ص 434 ، الباعث على انكار البدع والحوادث، ص: 32، كتاب الحوادث و البدع للطرطوشي، ص: 103 .
امام ابو بکر محمد بن الوليد الطرطوشی فرماتے ہیں: جب مجھے امام عزالدین نے یہ بات بیان کی تو میں نے انہیں کہا: آپ کو بھی تو میں نے اس جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ تو امام عز الدین رحمہ اللہ نے فرمایا : جی ہاں (میں اس میں شامل ہوا تھا) اور پھر میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی
مانگ لی۔ كتاب البدع و الحوادث، ص: 103
زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
ما أدركنا أحدا من مشيختنا ولا فقهائنا يلتفتون إلى النصف من شعبان، ولا يلتفتون إلى حديث مكحول ولا يرون لها فضلا على ما سواها معجم البدع لابن الوضاع، ص: 110 ، كتاب الحوادث والبدع للطرطوشي، صفحه 101 ، تذكره الموضوعات، صفحه 45.
” ہم نے اپنے مشائخ اور فقہاء میں سے کسی کو بھی شب برأت کی طرف توجہ دیتے (التفات کرتے ) نہیں پایا، وہ مکحول کی حدیث کی طرف التفات کرتے ، اور نہ ہی اس رات کی کوئی زائد فضیلت جانتے تھے۔“
لیکن عوام الناس میں قصہ گو خطباء کی وجہ سے اس رات کی فضیلت اس قدر شائع ہو چکی ہے کہ وہ لیلتہ القدر سے بھی اسے افضل قرار دینے میں تامل نہیں کرتے۔
امام ابن ابی ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد الخمیری جو کہ ایک قصہ گو واعظ تھا۔ یہ کہتا ہے کہ شب برأت کا اجر و ثواب لیلتہ القدر کی مثل ہے۔ تو ابن ابی ملیکہ نے فرمایا:
لوسمعته و بيدى عصاء لضربته كتاب الحوادث والبدع ، صفحه 101 – 102 ، معجم البدع لابن وضاح ، ص: 111 .
”اگر میں نے اس سے یہ بات سن لی ، اور میرے ہاتھ میں لاٹھی ہوئی تو میں اسے ماروں گا۔ “
علامہ پٹنی فرماتے ہیں:
نصف شعبان کی رات جو نماز الفیہ ادا کی جاتی ہے یہ بدعات میں سے ہے، اس نماز میں 100 رکعات میں، ہر رکعت میں 10 بارسورۃ الاخلاص پڑھی جاتی ہے۔ اور لوگ عید سے زیادہ اس کا اہتمام کرتے ہیں اس سے متعلق مروی احادیث و آثار یا تو ضعیف ہیں۔ یا موضوع۔
امام غزالی نے احیاء العلوم میں اور تفسیر ثعلبی میں جو اس کا ذکر ہے تو اس سے دھوکہ نہ کھائیں کہ انہوں نے اسے شب قدر قرار دیا ہے۔ جس سے عوام الناس ایک عظیم فتنہ میں مبتلا ہے، حتی کہ وہ اس کی وجہ سے کثرت سے چراغاں کرتے اور فسق و فجور، اور عفت و عصمت دری تک کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جو کہ نا قابل بیان ہے۔ یہ نماز سب سے پہلے بیت المقدس میں 448 ھ میں شروع ہوئی ۔“ تذكرة الموضوعات، صفحه 45.
امام ابوبکر بن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تیسرا مسئلہ اس رات کے تعین کا ہے۔ جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ اور بعض نے نصف شعبان کی رات قرار دیا ہے۔ اور یہ باطل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی اور قطعی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ اس نے واضح کر دیا کہ قرآن کا نزول کے وقت رمضان میں ہے۔ پھر رات کے وقت کی یہاں تعبیر (سورۃ الدخان میں ) لیلہ مبارکہ سے کی ہے۔ جس نے یہ کہا کہ رمضان کے علاوہ کسی اور رات میں قرآن نازل ہوا، تو اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا، اور نصف شعبان کی رات کے حوالے سے اس کی فضیلت اور اس میں مردوں کے نام لکھے جانے کے بارہ میں قابل اعتماد روایت موجود نہیں، لہذا اس کی طرف توجہ نہ دو۔“ احكام القرآن 1690/4
شب برات کی فضیلت سے متعلق مروی جمله احادیث ضعیف و موضوع ہیں۔
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”نصف شعبان کی رات میں نزول باری تعالیٰ کے متعلق مرویات کمزور ہیں۔ اور ہر رات میں نزول احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ تو نصف شعبان بھی اس میں شامل ہے۔ “الضعفاء الكبير : 29/3 .
یعنی نصف شعبان کی الگ سے فضیلت ثابت نہیں۔
حافظ ابو الخطاب ابن دحیہ فرماتے ہیں:
”اہل الجرح والتعدیل کا کہنا ہے کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ “الباعث على انكار البدع والحوادث، صفحه: 34 .
حافظ ابو شامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كل ذلك بأسانيد ضعاف الباعث صفحه 35 .
”یعنی اس کے متعلق تمام روایات ضعیف اسناد سے مروی ہیں۔“
خلاصہ کلام یہ کہ شب برات سے متعلق احادیث و روایات ثابت نہیں ہیں۔
(14) ماہِ رجب کے کونڈے:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا:
﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ﴾ (التوبه: 36)
جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، اس دن سے اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں، یہی صحیح دین ہے۔“
مہینوں کی تعداد اللہ نے 12 مقرر فرمائی، اور اسلام میں شرعی احکام کا تعلق عربی مہینوں سے ہے۔ جو قمری مہینے ہیں اور جس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے، اسلام سے پہلے مہینہ اور سال کی تعیین کے لیے عام الفیل کا اعتبار ہوتا تھا، اور ابتدائے اسلام میں سال کی ابتداء ربیع الاول سے ہوتی تھی۔ اس کے بعد سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے قمری مہینوں کی ابتدا محرم کے مہینے سے کی، جس پر امت کا اتفاق ہو گیا۔ ان مہینوں میں سے اللہ تعالیٰ نے چار مہینوں کو حرمت والا قرار دیا۔ جن میں لڑائی جنگ و جدال حرام ہے، سوائے اس کے اگر کفار و دشمن حملہ کریں ، تو اس صورت میں ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ چار مہینے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے :
”ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔“ صحيح البخاری، کتاب التفسير ، رقم: 4662.
اللہ تعالیٰ نے جو شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی، اس میں تمام ایام و شہور کے متعلق ہمیں تفصیلات، احکامات و مسائل وضاحت سے بیان فرما دیے۔ ہاں! تکمیل اسلام کے بعد یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی خاص واقعہ، معاملہ کسی مہینے یا دن میں پیش آئے، اور اس واقعہ کی مناسبت سے وہ دن ، یا مہینہ، یا گھڑی مشہور ہو جائے۔ لیکن اسے شرعی حیثیت نہیں دی جا سکتی، کیونکہ کسی بھی دن ، وقت، مہینے یا سال کی شرعی حیثیت اللہ ہی متعین کرتا ہے اور اس کے حکم سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
اگر کسی دن یا مہینے میں کوئی عظیم واقعہ، یا معاملہ رونما ہو جائے اور اس کی پشت پر شرعی دلیل نہ ہو تو وہ اس واقعہ کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن وہ دین کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ انہی حرمت والے مہینوں میں سے رجب کے مہینے میں بھی کچھ ایسے کام کیے جاتے ہیں۔ جو شریعت مقدسہ سے قطعاً ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يرد فى فضل شهر رجب، ولا فى صيامه، ولا فى صيام شيء منه معين، ولا فى قيام ليلة مخصوصة فيه ، حديث صحيح يصلح للحجة تبيين العجب بما ورد في فضل رجب ، ص : 71 .
رجب کے مہینے کی فضیلت میں ، اس کے روزوں کے متعلق اور اس کے کسی مخصوص معین روزے کے بارے میں ، اور نہ ہی اس کی کسی مخصوص رات ، میں قیام سے متعلق کوئی حدیث صحیح بیان نہیں ہوئی، جو قابل احتجاج ہو۔
رجب کے فضائل سے متعلق احادیث کی تفصیل امام ابو محمد الحسن الخال البغدادی کے رسالہ ”فضائل شہر رجب“ اور حافظ ابن حجر کے” تبیین العجب بما ورد فی فضائل وردفی رجب“ میں موجود ہے۔
رجب کے مہینے میں جہاں اور کئی امور سر انجام دیئے جاتے ہیں، وہاں ” کونڈے“ بھی عوام الناس کے نزدیک رجب کا ایک خاصہ تصور کیے جاتے ہیں۔ جو رجب کی بائیس (22) تاریخ کو کئے جاتے ہیں۔ اور اس میں اکثر لوگوں کا یہ نظریہ ،سوچ ہوتی ہے کہ اگر یہ کونڈے نہ کیے گئے تو مال و اولاد میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ کونڈوں سے آفت ٹل جاتی ہے۔
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین سے متعلق تمام امور سے آگاہ کر دیا ۔ حتی کہ قرب قیامت کے احوال، اس کی علامات، اس کے علاوہ میدان حشر ، میزان، پل صراط، کوثر ، جنت و جہنم کے معاملات سے متعلق کتب احادیث میں تفصیل موجود ہے۔
اگر ہمیں ذکر نہیں ملتا تو اس طرز کی تو ہمانہ رسومات و بدعات کا نہیں ملتا، اگر کونڈے اتنے ہی اہمیت کے حامل ہیں کہ آنے والی آفات و بلیات سے حفاظت کر سکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی خبر ، اطلاع کیوں نہ دی، اس کے فضائل و مناقب بیان کر کے اس عمل کی ترغیب کیوں نہ دلائی؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں تو پھر دین کے نام پر ایسے اعمال ، افعال سرانجام دینا ضلالت کے سوا کچھ نہیں۔
مزید آگے چلئے ۔ ائمہ محدثین رحمہم اللہ اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ سوائے اس کے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے نام یہ موسوم کیے جاتے ہیں۔ جبکہ امام جعفر رحمہ اللہ سے بھی بسند صحیح اس بارے میں کچھ منقول نہیں۔
کچھ اس دن امام جعفر صادق کی پیدائش ہوئی نہ وفات، امام جعفر رحمہ اللہ کی تاریخ پیدائش باختلاف اقوال : 17 ربیع الاول 83ھ یا 17 ربیع الاول 80ھ ہے۔ اور تاریخ وفات 15 شوال 148 ھ ہے۔ چودہ ستارے از نجم الحسن کراروی صفحه 25-26، اسلامی انسائیکلو پیڈ یا صفحہ: 625
اور نہ ہی اس ماہ ان سے کوئی قابل ذکر واقعہ منقول ہے۔ تو معلوم ہوا کہ ان کی طرف کونڈوں کی طرف نسبت ہی ہے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ اور وہ یہ کہ رجب کے مہینے میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ یعنی رجب 60ھ ۔ تاریخ ابن خلدون : 60/2 ، بحوالہ اسلامی مہینے اور مروجہ بدعات ، ص : 98۔
شیعہ حضرات کی طرف سے بھی یہ بیان سامنے آتا ہے کہ 22 رجب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا یوم وفات ہے۔ گویا کہ شیعہ حضرات سیدنا جعفر صادق رحمہ اللہ کے نام کی آڑ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ کے یوم وفات پر ” کونڈوں“ کے نام سے خوشی مناتے ہیں، اور شیعہ حضرات کی اسلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم دشمنی کسی ذی شعور و علم سے مخفی نہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہا سے ان کی دشمنی ، بغض، عداوت، حسد، کینہ بالخصوص اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بالعموم ہے۔ جو کسی بھی شیعہ کی زبانی سنی جا سکتی ہے۔
ان حضرات نے کونڈوں کے فضائل اس انداز سے مزین کیے کہ سادہ لوح لوگوں کے ساتھ ساتھ اصحاب جبہ و دستار بھی ” پیٹ بھرائی “کی خاطر ان کے دام تزویر میں پھنس گئے۔
اب اس رسم بد کی مذمت کرنے والوں کو عجیب نگاہوں سے دیکھتے ہوئے، اسے اسلام دشمن گردانا جاتا ہے، اور ان پر طعن و تشنیع کی جاتی ہے، گویا کہ خرافات کو حقیقت جانتے بوجھتے تسلیم کر لیا گیا ہے۔
کونڈوں کی ابتداء:
پیر جماعت علی شاہ کے ایک مرید مصطفیٰ علی خان نے ”جواہر المناقب“ کے نام سے کتابچہ لکھا کہ :
کونڈوں کی ابتداء 1906ء میں ریاست رام پور ۔ یو۔ پی (UP) سے ہوئی، ایک مشہور شاعرا میر مینائی کے بیٹے خورشید احمد مینائی نے داستان عجیب کے نام سے کونڈوں کے متعلق کتاب 1906ء میں چھپوا کر تقسیم کرائی۔ رام پور سے یہ رسم لکھنو کے قریبی علاقوں اودھ ، روہیل کھنڈ وغیرہ میں پھیلتی چلی گئی۔ اس کے بعد اب برصغیر پاک و ہند میں یکساں صورت ہے۔ ملخص از اسلامی مہینے اور مروجہ بدعات صفحہ: 90-96
کونڈوں کا اس دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے، باقی رہی لوگوں کی بات تو عوام کا لانعام جہاں زیادہ لوگ نظر آئیں، اسی کو حقیقت و مرکز بنا لیتے ہیں۔ خواہ کوئی بے تکی بات ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا ہے کہ وہ ہمیں دین حق کو سمجھ کر اس پر عمل کی توفیق بخشے۔ کو شرک و بدعات سے اجتناب کی توفیق عنایت فرمائے اور تو حید وسنت کا فہم اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین
صلى الله تعالى على خير خلقه محمد و آله و صحبه وسلم