بیہقی کہتے ہیں ہمیں خبر دی ابو عبد اللہ حافظ نے وہ کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی احمد بن کامل قاضی نے زبانی طور پر کہ احمد بن اسماعیل سلمی نے ان کو حدیث بیان کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی ہے ابوصالح عبد اللہ بن صالح نے وہ کہتے ہیں کہ مجھے حدیث بیان کی معاویہ بن صالح نے ابو الحکم تنوخی سے وہ کہتے ہیں کہ قریش میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ اس کوقریش کی عورتوں کے حوالے کر دیتے تھے صبح تک وہ اس پر ہنڈیا نصب کر دیتی تھیں۔
جب حضور پیدا ہوئے تو عبدالمطلب نے ان کو قریش کی عورتوں کے حوالے کر دیا اسی طرح کا ٹونکا کرنے کے لیے۔ عورتوں نے جب صبح کو دیکھا تو وہ ہنڈیا دو ٹکرے ہو چکی تھی اور حضور کو دیکھا کہ وہ آنکھیں کھولے ہوئے اوپر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے لہٰذا وہ عورتیں عبدالمطلب کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ ہم نے ایسا بچہ نہیں دیکھا جو ہنڈیا اس پر پھیری تھی وہ بھی ٹوٹ چکی ہے اور اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور نگاہیں آسمان کی طرف تھیں عبدالمطلب نے کہا کہ تم لوگ اس کی حفاظت کرو اور میں امید کرتا ہوں کہ شاید وہ جنت کو پہنچے گا۔ جب ساتواں دن ہوا تو عبدالمطلب نے حضور کی طرف سے جانور نہ کیا اور قریش کیی دعوت کی جب دعوت کھا چکے تو انہوں نے پوچھا : ارے عبد المطلب جس بچہ کی وجہ سے تو نے ہماری ضیافت کی آپ نے اس کا نام کیا رکھا ہے۔ عبدالمطلب نے بتایا کہ محمد نام رکھا ہے لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے یہ نام اس کے گھر کے ناموں سے بالکل مختلف رکھا ہے آپ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں پر اس کی تعریف کرے اور اللہ کی مخلوق دھرتی پر اس کی تعریف کرے۔
اس واقعہ کو سعید الفت نے اس انداز میں بیان کیا ہے :
محمد دے چاچے تے بابے تےتائے
محمد جاں ست دن دے هوئے تاں آئے
کٹھے ہو کے دعوت تے بہندے نے سارے
محمد دے دادا نوں کہندے نے سارے
جو عبداللہ دی بن نشانی ہے آیا
ہے کیہ نام لڑکے دا رکھیا رکھایا
میں اس لڑکے دا ناں محمد رکھایا
ایہہ دادا نے سن کے تے اگوں سنایا
عبد عزیٰ رکھ دوں یا عبد منات ای
ایہہ پھر بھی تاں ہندی کوئی گل بات ای
ایہہ ساڈے تے نزدیک اوکھا جیہا اے
ایہہ کہ ناں محمد انوکھا جیہا اے
ایہہ دادا نے سنیا تے اندر سدھائے
محمد نوں گودی اٹھا کے لے آئے
لگے کہن سب نوں لے اکھاں تے چکو
میرے سوہنے بیٹے دا مکھڑا تے تکو
جنہوں تک تک کے نئیں رج دیاں اکھاں
محمد نہ رکھاں تے کیہ نام رکھاں
تسیں دسو تہاڈیاں ٹھریاں نئیں اکھاں
محمد نہ رکھا تے کیہ نام رکھاں
جاں حسن محمد دے کیتے نظارے
کوئی گل نہ کیتی تے چپ ہو گئے سارے
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[دلائل النبوة للبيهقي جلد 1 صفحه 103 – البداية والنهايه 325/2] ، [واورده ابن منظور فى مختصر تاريخ دمشق 123/1]
اس کی سند میں ابوصالح عبداللہ بن صالح صدوق ہے مگر بکثرت غلطیاں کرتا ہے نیز اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔