حضرت عبداللہ بن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما نے عاتکہ بنت زید بن عمر و بن نفیل سے شادی کی، عاتکہ حسین و جمیل اور عمدہ اخلاق کی مالک تھی۔ ان سے شادی کے بعد عبداللہ کا ذہن رفتہ رفتہ شوق شہادت اور جوش جہاد سے ہٹتا گیا، یہ دیکھ کر ان کے والد صدیق اکبر نے انہیں طلاق دینے کا حکم دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس نے تمہیں جہاد سے روک رکھا ہے۔ صاجزادے نے طلاق دے دی۔ ایک دن باپ ان کے پاس سے گزرے تو یہ اشعار پڑھ رہے تھے :
«فلم أر مثلي طلق اليوم مثلها ولا مثلها فى غير ذنب تلطق»
”آج میں نے اپنے جیسا کسی کو نہیں دیکھا جس نے اس جیسی بیوی کو طلاق دی ہو اور اس جیسی کو شاید کسی گناہ کے بغیر طلاق بھی نہیں دی گئی ہوگی۔“
«لها خلق جزل وراي و منصب علي كبر مني و اني لوامق !»
”وہ بڑی اخلاق والی، بہترین رائے اور مقام والی ہے۔ مجھ سے عمر میں بڑی تھی پھر بھی میں اس کا عاشق ہوں۔“
صدیق اکبر نے یہ سنا تو ان کا دل بھر آیا، انہوں نے رجعت کر لی۔ اس کے بعد عبداللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۃ طائف میں شرکت کی۔ اس جنگ میں آپ کو ایک تیر لگا جس کے زخم سے آپ جانبر نہ ہوئے اور مدینہ منورہ میں انتقال کیا۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف۔
[اعتلال القلوب الخرثعني ج 1، ص 945، رقم 430]