عبادت کیا ہے؟ انسان کی زندگی کا اصل مقصد قرآن و سنت کی روشنی میں
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

یہ مضمون اس بنیادی سوال کا تفصیلی جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیوں پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟
کیا انسان صرف مال جمع کرنے، عہدے حاصل کرنے، دنیاوی آسائشوں میں گم رہنے یا نفس و شیطان کی پیروی کے لیے پیدا کیا گیا ہے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ مضمون واضح کرتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی ہے۔
اس مضمون میں عبادت کا مفہوم، اس کی جامع تعریف، عبادت کی اقسام، انبیاء علیہم السلام کی دعوت، اللہ کے نیک بندوں کی صفات اور عبادت کے بنیادی اصول وضوابط کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، تاکہ ہر مسلمان اپنی زندگی کو حقیقی مقصد کے مطابق ڈھال سکے۔

انسان کی تخلیق کا مقصد

ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیوں پیدا کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ، جو ہمارا خالق، مالک اور رازق ہے، خود ہمارے مقصدِ تخلیق کو واضح فرماتا ہے:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾
[الذاریات: 51:56]

ترجمہ

“اور میں نے جنّوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔”

اس آیتِ کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ تمام انسانوں اور جنّوں کی تخلیق کا واحد مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔

عبادت کا مفہوم اور جامع تعریف

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کسے کہتے ہیں؟

عبادت کی پہلی تعریف

بعض اہلِ علم نے عبادت کی تعریف یوں کی ہے:

(طَاعَۃُ اللّٰہِ بِفِعْلِ أَوَامِرِہِ وَاجْتِنَابِ نَوَاہِیْہِ مَعَ مَحَبَّۃِ اللّٰہِ وَخَوْفِہِ وَرَجَائِہِ)

ترجمہ

“اللہ کے احکام پر عمل کرنا، اس کی منع کردہ چیزوں سے بچنا، اس حال میں کہ دل میں اللہ کی محبت، اس کے عذاب کا خوف اور اس کی رحمت کی امید موجود ہو۔”

عبادت کی دوسری تعریف

کچھ اہلِ علم نے عبادت کی تعریف یوں کی ہے:

(اِسْمٌ لِکُلِّ مَا یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَیَرْضَاہُ مِنَ الْأقْوَالِ وَالْأعْمَالِ الظَّاہِرَۃِ وَالْبَاطِنَۃِ)

ترجمہ

“عبادت ہر اس ظاہری اور باطنی قول و عمل کا نام ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہو۔”

ان دونوں تعریفوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عبادت صرف چند مخصوص اعمال کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کا نام ہے۔

عبادت صرف نماز، روزہ تک محدود نہیں

اس جامع مفہوم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عبادت صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تک محدود نہیں، بلکہ ہر وہ عمل جو اللہ کی رضا کے مطابق ہو، عبادت ہے۔

اللہ کا ذکر ہر حال میں عبادت ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ ۝ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ…﴾
[آل عمران: 190–191]

ترجمہ

“بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے الٹ پھیر میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اے ہمارے رب! تو نے یہ سب بے کار نہیں پیدا کیا، تو پاک ہے، پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔”

رزقِ حلال کی تلاش بھی عبادت ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِھَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ﴾
[الملک: 67:15]

ترجمہ

“وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے تابع بنایا، پس اس کے راستوں میں چلو پھرو اور اللہ کا رزق کھاؤ۔”

اسی طرح فرمایا:

﴿فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ﴾
[الجمعہ: 62:10]

ترجمہ

“جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔”

نیند، کھانا اور ازدواجی تعلق بھی عبادت بن سکتے ہیں

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ أَتٰی فِرَاشَہُ وَہُوَ یَنْوِی أَنْ یَّقُوْمَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ فَغَلَبَتْہُ عَیْنَاہُ…)
[النسائی: 687، وصححہ الالبانی]

ترجمہ

“جو شخص اس نیت سے بستر پر جائے کہ رات کو نماز پڑھے گا، پھر نیند غالب آ جائے، تو اس کی نیت کا اجر لکھ دیا جاتا ہے اور اس کی نیند اللہ کی طرف سے صدقہ ہوتی ہے۔”

حلال طریقے سے شہوت پوری کرنا بھی عبادت ہے

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

(وَفِی بُضْعِ أَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ)
[مسلم: 1006]

ترجمہ

“اور تم میں سے کسی ایک کے جماع کرنے میں بھی صدقہ ہے۔”

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے کوئی شخص اپنی شہوت پوری کرے تو کیا اسے اجر ملے گا؟

تو آپ ﷺ نے فرمایا:
“بتاؤ! اگر وہ اپنی شہوت حرام طریقے سے پوری کرے تو کیا گناہ ہوگا؟”
پھر فرمایا:
“اسی طرح اگر وہ حلال طریقے سے پوری کرے تو اسے ثواب ملے گا۔”

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیت درست ہو تو زندگی کے فطری تقاضے بھی عبادت بن جاتے ہیں۔

معاشرتی اور اخلاقی اعمال بھی عبادت ہیں

❀ لین دین میں سچائی، دیانت، امانت اور دھوکہ دہی سے بچنا
❀ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک
❀ رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ
❀ بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا
❀ عام مسلمانوں سے محبت اور خیر خواہی
❀ خوش اخلاقی، نرم گفتگو اور خندہ پیشانی

یہ سب اعمال اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبادت کے دائرے میں آتے ہیں۔

عبادت کا خلاصہ

عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ:

➊ اللہ کی اطاعت کرے
➋ نافرمانی سے بچے
➌ اس کی محبت دل میں رکھے
➍ اس کی رحمت کی امید رکھے
➎ اس کے عذاب سے ڈرتا رہے

یہی وہ بندگی ہے جو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ ہے۔

تمام انبیاء کی بنیادی دعوت: عبادتِ الٰہی

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾
[النحل: 36]

ترجمہ

“اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔”

اسی طرح فرمایا:

﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْ اِلَیْہِ أَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا أَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾
[الانبیاء: 25]

ترجمہ

“اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا، اس پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔”

عبادت: انبیاء اور فرشتوں کا شرف

اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

﴿لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ أَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ﴾
[النساء: 4:172]

ترجمہ

“مسیح اس بات کو عار نہیں سمجھتے کہ وہ اللہ کے بندے ہوں۔”

اسی طرح فرشتوں کے بارے میں فرمایا:

﴿بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ﴾
[الانبیاء: 26]

ترجمہ

“بلکہ وہ سب اللہ کے معزز بندے ہیں۔”

رسول اللہ ﷺ کا سب سے بڑا وصف: بندگی

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ﴾
[الفرقان: 25:1]

ترجمہ

“بہت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا۔”

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

(لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ، اِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ)
[بخاری: 3445]

ترجمہ

“مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں۔”

اللہ کے بندوں کیلئے خوشخبری

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ﴾
[الزخرف: 43:68]

ترجمہ

“اے میرے بندو! آج تم پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ تم غمگین ہوگے۔”

بندگی: رحمان کی یا شیطان کی؟

اب تک کی گفتگو سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ بندگی صرف اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے، کیونکہ بندگی دو ہی کی ہو سکتی ہے:
➊ رحمان کی
➋ شیطان کی

اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتا ہے:

﴿اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ۝ وَّاَنِ اعْبُدُوْنِيْ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ﴾
[یٰس: 60–61]

ترجمہ

“اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی بندگی نہ کرنا، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور یہ کہ تم میری ہی عبادت کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔”

شیطان کی بندگی کیسے ہوتی ہے؟

شیطان کی بندگی دراصل اللہ کی نافرمانی کے ذریعے ہوتی ہے، کیونکہ شیطان ہی انسان کے سامنے گناہوں کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے۔

❀ وہی شیطان ہے جو لوگوں کو اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت سے ہٹا کر مزاروں، درباروں اور قبروں کی طرف لے جاتا ہے۔
❀ وہی شیطان ہے جو سنتِ رسول ﷺ سے دور کر کے بدعات ایجاد کرواتا ہے۔
❀ وہی شیطان ہے جو حلال کے بجائے حرام طریقوں سے شہوت پوری کرنے پر اکساتا ہے۔
❀ وہی شیطان ہے جو انسان کو نفس پرستی کا غلام بنا دیتا ہے۔
❀ وہی شیطان ہے جو حرام کمائی، سود، رشوت، جوا اور خیانت کی طرف مائل کرتا ہے۔

مال و دولت کی بندگی

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ)
[البخاری: 2887]

ترجمہ

“ہلاک ہو گیا دینار کا بندہ، درہم کا بندہ اور لباس کا بندہ۔ اگر دیا جائے تو راضی اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتا ہے۔”

یہ بندگی سجدے کی صورت میں نہیں بلکہ دل کی غلامی کی صورت میں ہوتی ہے، جب انسان مال کے حصول میں حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔

انسان کیسے پہچانے کہ وہ کس کی بندگی کر رہا ہے؟

ہر انسان کو اپنی حالت کا جائزہ لینا چاہیے:

◈ اگر وہ
✔ صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے
✔ شرک سے بچتا ہے
✔ فرائض ادا کرتا ہے
✔ سنتِ رسول ﷺ کا پابند ہے

تو وہ رحمان کی بندگی میں ہے۔

◈ اور اگر وہ
✖ شرک میں مبتلا ہے
✖ فرائض سے غافل ہے
✖ سنت سے دور ہے

تو وہ شیطان کی بندگی میں ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص میں دونوں کی آمیزش ہو، جتنا اللہ کا مطیع ہوگا اتنا رحمان کا بندہ اور جتنا نافرمان ہوگا اتنا شیطان کا بندہ ہوگا۔

رحمان کے بندوں کی صفات

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان کے آخر میں اپنے خاص بندوں کی صفات بیان فرمائی ہیں۔

عاجزی
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا﴾
[الفرقان: 63]
ترجمہ:
“رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔”

حلم و بردباری
﴿وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾
ترجمہ:
“اور جب جاہل لوگ ان سے بات کریں تو سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں۔”

قیام اللیل
﴿وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا﴾
ترجمہ:
“اور جو راتیں اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام میں گزارتے ہیں۔”

جہنم سے پناہ
﴿رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ﴾
ترجمہ:
“اے ہمارے رب! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔”

اعتدال
﴿لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُرُوْا﴾
ترجمہ:
“نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل۔”

شرک، قتل اور زنا سے اجتناب

﴿وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ… وَلَا يَزْنُوْنَ﴾
ترجمہ
“اور وہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے، ناحق قتل نہیں کرتے اور زنا نہیں کرتے۔”

پھر فرمایا:

﴿اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا﴾
ترجمہ:
“سوائے اس کے جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔”

یہ صفات اختیار کرنے والوں کیلئے عظیم خوشخبری

﴿اُولٰٓئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ﴾
[الفرقان: 75–76]
ترجمہ
“ایسے لوگوں کو جنت کے بالا خانے عطا کیے جائیں گے۔”

عبادت و بندگی کے اصول و ضوابط

اب ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کے وہ بنیادی اصول بیان کرتے ہیں کہ جن کی پابندی کے بغیر عبادت اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہوتی۔

پہلا اصول: عبادت میں اخلاص

عبادت میں اخلاص بنیادی شرط ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَمَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَاءَ﴾
[البیّنۃ: 5]

ترجمہ

“انہیں اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں، دین کو اسی کے لیے خالص رکھیں، ہر باطل سے یکسو ہو کر۔”

اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لیے ہو، اس میں شرک، دکھلاوا اور ریا شامل نہ ہو۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(اَنَا اَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا اَشْرَكَ فِيْهِ مَعِيَ غَيْرِيْ تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ)
[مسلم: 2985]

ترجمہ

“میں شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو شخص ایسا عمل کرے جس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کرے، میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔”

اخلاص کا لازمی تقاضا: صرف اللہ سے مدد

ہر مسلمان ہر رکعت میں کہتا ہے:

﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾
[الفاتحہ: 5]

ترجمہ

“ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔”

عملی زندگی میں غیر اللہ سے مدد مانگنا، نذر و نیاز دینا، خوف یا امید باندھنا اخلاص کے منافی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ﴾
[ہود: 11:123]

ترجمہ

“پس اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔”

دوسرا اصول: عبادت کا ثبوت قرآن و حدیث سے ہو

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ اَحْدَثَ فِيْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ)
[بخاری: 2697، مسلم: 1718]

ترجمہ

“جس نے ہمارے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں، وہ مردود ہے۔”

اور فرمایا:

(مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ)
[مسلم: 1718]

ترجمہ

“جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں، وہ مردود ہے۔”

لہٰذا بدعت عبادت نہیں بلکہ مردود عمل ہے۔

تیسرا اصول: عبادت کی مقدار اور کیفیت سنت کے مطابق ہو

عبادت:

➊ اتنی ہی ہو جتنی نبی ﷺ نے کی
➋ اسی طریقے سے ہو جیسے نبی ﷺ نے کی

نبی ﷺ نے فرمایا:

(صَلُّوْا كَمَا رَاَيْتُمُوْنِيْ اُصَلِّيْ)
[البخاری: 631]

ترجمہ

“نماز اس طرح پڑھو جیسے تم مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔”

اور حج کے بارے میں فرمایا:

(لِتَاْخُذُوْا مَنَاسِكَكُمْ)
[مسلم: 1297]

ترجمہ

“اپنے حج کے طریقے مجھ سے سیکھ لو۔”

چوتھا اصول: عبادت محبت، خشیت اور توجہ کے ساتھ

حضرت جبریل علیہ السلام کے سوال پر نبی ﷺ نے فرمایا:

(اَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ، فَاِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَاِنَّهُ يَرَاكَ)
[مسلم: 8]

ترجمہ

“احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ نہ ہو سکے تو یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔”

عمل کا حسن، کثرت سے زیادہ اہم ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾
[الملک: 2]

ترجمہ

“تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے۔”

اور فرمایا:

﴿اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا﴾
[الکہف: 30]

ترجمہ

“ہم اچھے عمل کرنے والے کا اجر ضائع نہیں کرتے۔”

اسی لیے نبی ﷺ یہ دعا سکھاتے تھے:

(اَللّٰهُمَّ اَعِنِّيْ عَلٰى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ)
[ابو داود: 1522، صحیح]

ترجمہ

“اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اچھی عبادت پر میری مدد فرما۔”

پانچواں اصول: پوری زندگی عبادت بن جائے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾
[الحجر: 99]

ترجمہ

“اپنے رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے۔”

اللہ تعالیٰ کی بندگی کے عظیم ثمرات

اب ہم اختصار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کے وہ عظیم ثمرات بیان کرتے ہیں جو قرآن و حدیث میں واضح طور پر ذکر ہوئے ہیں۔

پہلا ثمرہ: شیطان کا غلبہ ختم ہو جاتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِيْنَ﴾
[الحجر: 15:42]

ترجمہ

“بے شک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چل سکتا، سوائے ان گمراہ لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔”

یعنی جو شخص خالص اللہ کا بندہ بن جاتا ہے، اس پر شیطان کا کوئی بس نہیں چلتا۔

دوسرا ثمرہ: عذابِ الٰہی سے نجات

اللہ تعالیٰ پچھلی قوموں کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

﴿فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِيْنَ ۝ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ﴾
[الصافات: 73–74]

ترجمہ

“پس دیکھ لو جنہیں ڈرایا گیا تھا ان کا انجام کیا ہوا، سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے۔”

حضرت الیاس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

﴿فَكَذَّبُوْهُ فَاِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ۝ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ﴾
[الصافات: 127–128]

ترجمہ

“انہوں نے جھٹلایا تو وہ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے، سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے۔”

تیسرا ثمرہ: جنت کی عظیم نعمتیں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ ۝ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ ۝ فَوَاكِهُ وَهُمْ مُّكْرَمُوْنَ ۝ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ﴾
[الصافات: 40–43]

ترجمہ

“سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے، انہی کے لیے معلوم رزق ہے، پھل ہیں اور وہ معزز ہوں گے، نعمتوں والی جنتوں میں۔”

حدیثِ قدسی میں ہے:

(اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَاَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰى قَلْبِ بَشَرٍ)
[بخاری: 3244، مسلم: 2823]

ترجمہ

“میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا۔”

چوتھا ثمرہ: بے حیائی سے حفاظت

اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:

﴿كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَاءَ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ﴾
[یوسف: 12:24]

ترجمہ

“اسی طرح ہم نے یوسف کو برائی اور بے حیائی سے بچا لیا، بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔”

آخری نصیحت

دنیا کا اصول یہ ہے کہ
◈ جس کے محتاج ہو جاؤ، اس کے غلام بن جاتے ہو
◈ جس سے بے نیاز ہو جاؤ، اس کے برابر ہو جاتے ہو

لیکن اللہ کے معاملے میں اصول اس کے برعکس ہے۔
جتنا بندہ اللہ کے سامنے جھکتا ہے، اتنا ہی وہ اللہ کے ہاں بلند ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ﴾
[الزمر: 39:36]

ترجمہ

“کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟”

یعنی جو اللہ کا بندہ بن جاتا ہے، اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔

نتیجہ

اگر ہم دنیا و آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں
✔ صرف اللہ کے بندے بننا ہوگا
✔ شرک، بدعت اور نافرمانی سے بچنا ہوگا
✔ اپنی پوری زندگی کو عبادت بنانا ہوگا

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا سچا بندہ بنائے،
اپنی خالص عبادت کی توفیق دے
اور اپنے سوا ہر ایک سے بے نیاز کر دے۔
آمین یا رب العالمین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے