عبادت میں ریا شامل ہو تو کیا حکم ہے؟ مکمل وضاحت
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال:

ایسی عبادت کا کیا حکم ہے جس میں ریا شامل ہو؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کسی عبادت میں ریا کی آمیزش ہو جائے تو اس کی تین بنیادی صورتیں ہو سکتی ہیں، جن میں سے ہر ایک کا حکم الگ ہے:

1. عبادت کا محرک ہی ریا ہو

اگر عبادت کی نیت شروع ہی سے نمود و نمائش ہو، یعنی کوئی شخص صرف اس لیے عبادت کرے تاکہ لوگ اسے متقی، نمازی یا نیک کہیں، تو ایسی عبادت باطل شمار ہوگی۔ اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا کیونکہ یہ اخلاص کے بغیر کی گئی ہے۔

مثال:
کوئی شخص صرف لوگوں کے سامنے خود کو نیک ظاہر کرنے کے لیے نماز پڑھتا ہے تو یہ ریا ہے اور اس کی نماز قابلِ قبول نہیں۔

2. عبادت کے دوران ریا کا پیدا ہونا

اگر کسی شخص نے عبادت اخلاص کے ساتھ شروع کی، لیکن دورانِ عبادت اس میں ریا شامل ہو گئی، تو اس کی دو صورتیں ہیں:

(الف) عبادت کے حصے الگ الگ ہوں

اگر عبادت کے ابتدائی حصے کو اس کے بعد والے حصے سے جدا سمجھا جائے، تو:

پہلا حصہ (اخلاص کے ساتھ): صحیح اور قبول شدہ ہوگا۔
دوسرا حصہ (ریا کے ساتھ): باطل ہوگا۔

مثال:
کسی شخص کے پاس سو ریال ہیں۔ اس نے پہلے پچاس ریال اللہ کی رضا کے لیے صدقہ کیے، پھر باقی پچاس ریال لوگوں کو دکھانے کے لیے صدقہ کیے۔

◈ پہلے پچاس کا صدقہ قابلِ قبول ہے۔
◈ باقی پچاس کا صدقہ باطل ہے کیونکہ اس میں ریا شامل ہو گئی۔

(ب) عبادت کے تمام حصے ایک ساتھ جڑے ہوں

اس صورت میں دو امکانات ہیں:

(1) ریا کو رد کر دے

اگر عبادت کرنے والا ریا کو ناپسند کرے اور اسے دل سے نکال دے، تو اس کا عبادت پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إِنَّ اللّٰهَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسُهَا مَا لَمْ تَعْمَلِْ أَوْ تَتَکَلَّمْ»
(صحیح البخاري، الطلاق، باب الطلاق فی الاغلاق والمکرہ والسکران… ح:۵۲۶۹، وصحیح مسلم، الایمان، باب تجاوز الله عن حدیث النفس… ح:۱۲۷)

"اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں آنے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے، جب تک ان پر عمل نہ کیا جائے یا زبان سے نہ کہا جائے۔”

(2) ریا پر مطمئن ہو

اگر عبادت کرنے والا ریا کو قبول کرے اور اسے دور کرنے کی کوشش نہ کرے، تو اس سے ساری عبادت باطل ہو جائے گی۔

مثال:
کوئی شخص اخلاص کے ساتھ نماز شروع کرے، مگر دوسری رکعت میں ریا شامل ہو جائے اور وہ اسے دور نہ کرے، تو چونکہ پوری نماز ایک وحدت ہے، اس لیے پوری نماز باطل ہو جائے گی۔

3. عبادت مکمل ہونے کے بعد ریا پیدا ہو

اگر عبادت مکمل ہو جائے اور اس کے بعد ریا آ جائے تو یہ ریا عبادت پر اثر انداز نہیں ہوتی اور عبادت صحیح شمار ہوتی ہے۔ کیونکہ عبادت اس وقت مکمل ہوئی تھی جب وہ اخلاص پر قائم تھی۔

اضافی وضاحت: ریا اور فطری خوشی کا فرق

محض اس خوشی کا ہونا کہ لوگ اس کی نیکی یا عبادت کو جانتے ہیں، ریا نہیں ہے، کیونکہ یہ عبادت کے بعد کا معاملہ ہے۔
اپنے نیک عمل سے خوش ہونا بھی ریا نہیں بلکہ یہ ایمان کی نشانی ہے۔

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَائَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذٰلِکُْ مُؤْمِنُ»
(جامع الترمذي، الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعة، ح:۲۱۶۵)

"جس شخص کو اپنی نیکی اچھی لگے اور برائی بری محسوس ہو، وہ مومن ہے۔”

نیز فرمایا:
«تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُؤْمِنِ»
(صحیح مسلم، البروالصلة، باب اذا اثنی علی الصالح، ح:۲۶۴۲)

"یہ مومن کے لیے جلد نصیب ہونے والی خوشخبری ہے۔”

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1