سوال
مکرمی و محترمی جناب مولانا صاحب
مہربانی فرما کر مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔
سوالات یہ ہیں:
➊ آج کل جو لوگ اپنے آپ کو عامل کہتے ہیں، جنات کے ذریعے غیب کی خبریں معلوم کرنا، تعویذ دینا اور اس طرح کے کاروبار کرنا دین میں کہاں تک جائز ہے؟
➋ مومن کی ناراضگی اپنے چھوٹے یا بڑے سے کتنی دیر تک رکھنی چاہیے؟
➌ جو شخص اپنی ساری باتیں ختم کرکے کسی کے گھر جائے اور کہے کہ "میں تو آپ کے پاس آیا ہوں، آپ کی شفقت کی ضرورت ہے”، تو اس صورت میں ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) عاملوں اور جنات کے ذریعے غیب معلوم کرنے کا حکم
واضح ہو کہ یہ سب لوگ محض جعلساز، دھوکے باز اور جھوٹے ہیں۔ کیوں کہ غیب کا علم نہ کسی نبی مرسل کے پاس ہے، نہ کسی مقرب فرشتے کے پاس اور نہ ہی کسی جن کے پاس۔ جب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی انسان یا جن کو علم غیب ہی نہیں تو جنات کے ذریعے بتائی جانے والی سب باتیں محض جھوٹ اور افترا کے سوا کچھ نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ ﴿٦٥﴾ \[النمل: 65]
’’کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، بلکہ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘
اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی غیب نہیں تھا۔ تو جب سیدالرسل کو علم غیب نہ تھا، تو یہ پیر، شہید، مجذوب، سالک، عابد، کاہن، نجومی اور نام نہاد عامل جنات کس شمار میں آتے ہیں؟
خود جنوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں علم غیب نہیں۔ حضرت سلیمانؑ جب وفات پا گئے اور عصا پر سہارا لیے ہوئے لمبے عرصے تک کھڑے رہے، جنات کو ان کی وفات کا پتہ نہ چل سکا۔ بعد میں جب دیمک نے عصا کھا ڈالا اور حضرت سلیمانؑ زمین پر گر گئے، تب جا کر جنات کو معلوم ہوا کہ وہ وفات پا چکے ہیں۔ اس کا ذکر قرآن میں ہے:
﴿فَلَمّا قَضَينا عَلَيهِ المَوتَ ما دَلَّهُم عَلىٰ مَوتِهِ إِلّا دابَّةُ الأَرضِ تَأكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الجِنُّ أَن لَو كانوا يَعلَمونَ الغَيبَ ما لَبِثوا فِى العَذابِ المُهينِ ﴿١٤﴾ \[سبأ: 14]
’’پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم نافذ کیا تو جنات کو اس کی خبر نہ ہوئی، سوائے زمین کے کیڑے کے جس نے ان کا عصا کھا ڈالا۔ پس جب وہ گر پڑے تو جنات پر ظاہر ہوا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے۔‘‘
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ نہ نبیوں کو، نہ فرشتوں کو اور نہ جنوں کو غیب کا کوئی علم ہے۔ لہٰذا نجومیوں، رمالوں، پانڈوں، کاہنوں اور نام نہاد عاملوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ یہ سب جھوٹے اور جعلساز ہیں۔ ان کے پاس جانا اپنے ایمان کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔
جہاں تک قرآن و حدیث پر مشتمل آیات کے تعویذ کا تعلق ہے تو ان کو لٹکانا افضل نہیں۔ جیسا کہ نواب صدیق الحسن رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعویذ لکھنا ثابت نہیں۔ البتہ آیات اور احادیث پڑھ کر دم کرنا اور پھونکنا بالکل جائز ہے۔ لیکن غیر شرعی تعویذ اور گنڈے ناجائز اور ناپاک کام ہیں۔
کیونکہ حدیث میں ہے:
"جو کاہن کی تصدیق کرتا ہے اس نے شریعت کے ساتھ کفر کیا۔ فقد کفر بما انزل علی محمد ﷺ”
(2) مومن کی ناراضگی کتنی دیر تک رکھنی جائز ہے؟
زیادہ سے زیادہ تین دن تک۔ اس سے زیادہ کسی مسلمان کے ساتھ ناراضگی یا قطع تعلق شرعاً جائز نہیں۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
«عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَكُونُ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلَاثَةٍ، فَإِذَا لَقِيَهُ سَلَّمَ عَلَيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ كُلُّ ذَلِكَ لَا يَرُدُّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِإِثْمِهِ» (ابوداؤد)
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کو یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ پس جب اسے ملے تو تین بار السلام علیکم کہے، اگر دوسرا جواب نہ دے تو گناہ بائیکاٹ کرنے والے پر نہیں بلکہ جواب نہ دینے والے پر ہوگا۔‘‘
البتہ اگر معاملہ دینی سبب کی وجہ سے ہو یا ظلم کا پہلو ہو تو حکم مختلف ہوگا۔
(3) صلح کی پیشکش قبول کرنے کا حکم
جو شخص صلح کی نیت سے آئے اور معافی مانگے یا محبت و شفقت کا طلبگار ہو، اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ اس کی حوصلہ افزائی اور آمد کی قدر کرنی چاہیے۔ ورنہ وہ شخص سخت گناہگار ہوگا۔
جیسا کہ اوپر بیان شدہ حدیث میں ذکر آیا ہے کہ صلح سے انکار کرنے والا گناہ کا ذمہ دار ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب