عالمی خلافت کے قیام کے شرعی اصول اور عملی صورتیں

اسلامی تعلیمات اور خلافت کا نظام

اسلامی تعلیمات کے مطابق، خلافت ایک ایسا نظام ہے جو پوری امت مسلمہ کو ایک وحدت میں جوڑنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ ایک وقت میں مسلمانوں کا صرف ایک ہی خلیفہ ہونا چاہیے، اور مختلف ممالک میں الگ الگ خلفاء کا قیام درست نہیں۔ یہ اصول احادیث کی بنیاد پر ہے، جن میں رسول اکرم ﷺ نے ایک وقت میں ایک خلیفہ کی بیعت کو لازم قرار دیا ہے۔

مختلف آراء کا جائزہ

جمہور علماء کا موقف

  • جمہور علماء کے مطابق، مسلمانوں کا ایک ہی خلیفہ ہونا چاہیے تاکہ امت مسلمہ کی وحدت برقرار رہے۔
  • خلافت راشدہ کے دور میں، جب اسلام کی حدود وسیع ہو کر دنیا کے ایک بڑے حصے تک پہنچ گئیں، تب بھی ایک خلیفہ کے تحت نظام چلتا رہا۔

دوسرا موقف: ایک سے زیادہ خلفاء کا قیام

  • علامہ ماوردی اور دیگر علماء کے مطابق، اگر اسلامی حکومت کا دائرہ اتنا وسیع ہو جائے کہ ایک خلیفہ کے ذریعے تمام علاقوں کا انتظام مشکل ہو، تو ہر علاقے کے لیے علیحدہ خلیفہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔
  • علامہ عبدالقادر بغدادی نے فرمایا کہ اگر علاقوں کے درمیان ایسی رکاوٹیں موجود ہوں (جیسے سمندر) جو ایک دوسرے تک پہنچنے میں مانع ہوں، تو الگ امام یا خلیفہ مقرر کرنا جائز ہو سکتا ہے۔
  • علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس رائے کی تائید کی ہے اور امام جوینی کی عبارت کو بھی انہی الفاظ میں نقل کیا ہے۔

دلیل: ایک وقت میں دو نبیوں کی بعثت

بعض علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر ایک وقت میں دو نبی مبعوث ہو سکتے ہیں اور اس سے نبوت کا انکار لازم نہیں آتا، تو اسی طرح امامت میں بھی یہ اصول لاگو ہو سکتا ہے۔

موجودہ حالات کا تناظر

عالمی خلافت کا قیام

آج کے دور میں، جب مسلمان مختلف ممالک میں تقسیم ہیں اور 50 سے زیادہ آزاد حکومتیں قائم ہیں، عملی طور پر ایک خلیفہ کا قیام مشکل معلوم ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں:

  • تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔
  • اگر ایسا نہ ہو تو زبردستی خلافت قائم کرنے کی کوشش مزید اختلافات اور جنگ کا باعث بن سکتی ہے، جو بڑی برائی ہے۔

ماضی کا تجربہ

تاریخ میں کئی حکومتیں بیک وقت موجود رہی ہیں، اور علماء نے ان حکومتوں کے احکام کو نافذ العمل تسلیم کیا ہے۔

عملی حل: عالمی خلافت کے قیام کی ممکنہ صورت

  • اسلامی قوانین کا نفاذ: مسلم ممالک میں اسلامی نظام اور قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔
  • کنفیڈریشن کا قیام: اسلامی نظام اپنانے والے مسلم ممالک مل کر ایک کنفیڈریشن تشکیل دیں۔
    • اس کنفیڈریشن کا سربراہ "خلیفۃ المسلمین” کہلائے۔
    • کنفیڈریشن کے تحت تمام ممالک داخلی طور پر خود مختار ہوں، لیکن دفاع، کرنسی، بین الاقوامی تعلقات، اور خارجہ پالیسی جیسے معاملات مرکز کے تحت ہوں۔
  • عالمی سطح پر ذہن سازی: امت مسلمہ کو خلافت کے قیام کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جائے تاکہ اسلامی حکومتوں کا قیام ممکن ہو سکے۔

غیر حقیقی اقدامات سے اجتناب

وہ لوگ جو چند افراد کو اپنے گرد جمع کر کے خلافت کا اعلان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ حقیقت میں ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ایسے اقدامات خلافت کے حقیقی مقصد کو نقصان پہنچاتے ہیں اور صرف توانائیوں کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔

نتیجہ

خلافت کے قیام کے لیے سنجیدہ اور عملی جدوجہد کی ضرورت ہے، جس میں امت مسلمہ کے اتحاد کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ یہ عمل مرحلہ وار اور دانشمندی سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے