عاشوراء پر ماتم و سینہ کوبی: اسلام کی روشنی میں حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال:

شیعہ حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 9 اور 10 محرم کو جو ہم عمل کرتے ہیں، وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار ہے، اور ان اعمال میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے یوسف کی گمشدگی پر "یَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ” کہا تھا۔ براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں سینہ کوبی اور ماتم کرنے کا حکم بیان کریں۔

جواب:

عاشوراء کے موقع پر شیعہ حضرات جو ماتم، سینہ کوبی، اور زنجیروں اور چھریوں کے ذریعے اپنے آپ کو زخمی کرتے ہیں، دین اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ عمل اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔

قرآن و سنت کی روشنی میں ممانعت:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اعمال سے سختی سے منع فرمایا ہے اور ان کا شمار جاہلی عملوں میں کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا:

"لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ”
(صحیح بخاری: 1294، صحیح مسلم: 103)

"جو رخسار پیٹے، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی آوازیں لگائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔”

اہلِ بیت کی تعلیمات اور صحابہ کا طرز عمل:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کئی صحابہ کی شہادت ہوئی، جیسے حضرت حمزہ بن عبد المطلب، حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر بن ابی طالب، اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم۔ ان کی شہادت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غم کا اظہار کیا لیکن کبھی بھی ان کا ماتم نہیں کیا۔ اگر ایسا کوئی عمل جائز ہوتا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کا حکم دیتے۔

یعقوب علیہ السلام کا طرز عمل:

شیعہ حضرات کی طرف سے حضرت یعقوب علیہ السلام کا حوالہ دینا بھی درست نہیں ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کی جدائی میں سینہ کوبی یا خود کو زخمی نہیں کیا، بلکہ وہ صبر کے ساتھ اپنے غم کا اظہار کرتے تھے۔ ان کا رونا اور غم کرنا ایک فطری عمل تھا، لیکن ماتم اور سینہ کوبی جیسی بدعات سے بالکل مختلف ہے۔

ماتم کرنے کا پس منظر:

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ہر مسلمان کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر غم محسوس ہونا چاہیے، کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور ایک عظیم صحابی تھے۔ لیکن شیعہ حضرات جو ماتم اور جزع و فزع کرتے ہیں، ان کا یہ عمل نیک نہیں ہے۔”

تاریخی تناظر:

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے مطابق، بنو بویہ کے دور حکومت میں رافضی شیعہ حضرات نے یوم عاشوراء پر ماتم کرنے کی رسم شروع کی۔ اس دوران بغداد وغیرہ میں ماتم کی مختلف شکلیں رائج کی گئیں۔ اس کے برعکس اہلِ شام میں نواصب نے اس دن کو خوشی کے دن کے طور پر منانا شروع کر دیا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سبب شیطان نے لوگوں میں دو قسم کی بدعات پیدا کیں: ایک تو ماتم اور سینہ کوبی، اور دوسری خوشی کا اظہار۔ دونوں ہی اسلام کے دائرے سے باہر ہیں۔”

بدعت اور استعمار کا تعلق:

موسٰی الموسوی اپنی کتاب "الشیعۃ والتصحیح” میں لکھتے ہیں کہ:

"عاشوراء کے دن سینہ کوبی اور زنجیر زنی کا عمل برطانوی سامراج کے دور میں ایران اور عراق میں شروع ہوا۔ انگریزوں نے اس عمل کی پشت پناہی کی تاکہ شیعہ لوگوں کی جہالت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں۔ اس سے وہ یورپ میں اسلام کی منفی تصویر پیش کرنا چاہتے تھے۔”

خلاصہ:

اسلام میں کسی عزیز کی موت پر ماتم، سینہ کوبی، اور اپنے آپ کو زخمی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس طرح کے اعمال کی ممانعت کی ہے۔ جو کچھ شیعہ حضرات کرتے ہیں، وہ دین اسلام کی اصل تعلیمات سے بالکل متضاد ہے اور اسے بدعت قرار دیا گیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے