سوال:
عادل و ثقہ راوی اور مجروح راوی کی روایت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
عادل وثقہ راوی کی روایات صحیح اور مقبول ہیں، تا آنکہ اس کی کسی خاص روایت پر ائمہ عمل طعن کر دیں اور مجروح وضعیف راوی کی روایات ضعیف ہیں ۔
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إن الجرح والعدالة ضدان فمتى كان الرجل مجروحا لا يخرجه عن حد الجرح إلى العدالة إلا ظهور أمارات العدالة عليه فإذا كان أكثر أحواله أمارات العدالة صار من العدول كذلك كذا إذا كان الرجل معروفا بالعدالة يكون جائز الشهادة فهو كذلك حتى يظهر منه أمارات الجرح فإذا صار أكثر أحواله أسباب الجرح خرج عن حد العدالة إلى الجرح وصار فى عداد من لا تجوز شهادته وإن كان صدوقا فيما يقول وتبطل أخباره الصحاح التى لم يخلط فيها .
”جرح اور عدالت دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، پس جب راوی مجروح ہو، تو وہ جرح کی قبیل سے نکل کر عدالت کی قبیل میں تب ہی داخل ہوگا، جب اس پر عدالت کے اسباب ظاہر ہو جائیں، جس میں عدالت کے اکثر اسباب پائے جائیں، وہ عادل ہو جاتا ہے، اسی طرح جب کوئی راوی عدالت میں معروف ہو، تو ( روایت حدیث میں ) اس کی گواہی قبول ہوگی ، تا آنکہ اس میں جرح کے اسباب غالب ہو جائیں، پس جس میں جرح کے اسباب زیادہ ہو جائیں ، وہ عدالت کی قبیل سے نکل کر جرح کی قبیل میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کا شمار ان راویوں میں ہوتا ہے، جن کی شہادت قبول نہیں ، اگر چہ وہ بات میں سچا ہی کیوں نہ ہو، اس کی وہ صحیح روایات بھی باطل قرار پائیں گی، جن میں اس کا ضعف اثر انداز نہیں ہوا۔“
(كتاب المجروحين : 104/3)