ظہار: کفارہ کے بغیر بیوی سے تعلق حرام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

ظہار یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی سے کہے ، تو مجھے پر میری ماں کی پشت کی مانند ہے ، یا کہے، میں نے تجھ سے ظہار کیا ، یا اس معنی کے کوئی اور الفاظ استعمال کرے تو اس پر لازم ہے کہ اسے چھونے سے پہلے ایک غلام آزاد کرے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ (60) مساکین کو کھانا کھلائے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے
لفظِ ظِهَار باب ظَاهَرَ يُظَاهِرُ (مفاعلة وفعال) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”مدد کرنا“ ہے۔
[المنجد: ص/ 530]
قاموس میں ہے ظہار یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے کہے:
انت على كظهر أمى
”تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مانند ہے۔“
[القاموس المحيط: ص/392]
بلاشبہ باقی تمام اعضاء میں سے پشت کو ہی صرف اس لیے خاص کیا گیا ہے کیونکہ اغلبا یہی جائے سواری ہے اور اسی وجہ سے سواری کو ”ظهر“ بھی کہتے ہیں اور بیوی کو اس کے ساتھ مشابہت اس لیے دی گئی ہے کیونکہ وہ مرد کی سواری ہے ۔
[تحفة الأحوذى: 462/4 ، فتح البارى: 542/10]
فی الحقیقت ظہار پشت کو پشت کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے یعنی حلال پشت کو حرام پشت کے ساتھ تشبیہ دینا ظہار کے حکم کا موجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا نے اجتماع کیا ہے کہ جس نے اپنی بیوی سے کہا: ”تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہے۔“ وہ ظہار کرنے والا ہے۔

ظہار کے الفاظ:
یہ الفاظ دو طرح کے ہو سکتے ہیں:
صریح: مثلاََ أنت على كظهر أمى يا کہے فرجك على كظهر أمى يا كہے بطنك على كظهر امي وغیرہ۔ ایسے تمام الفاظ سے بالاتفاق ظہار ہو جائے گا۔ البتہ اس مسئلے میں فقہا نے اختلاف کیا ہے کہ اگر ماں کے علاوہ دیگر محرمات مثلاََ بیٹی ، بہن ، پھوپھی اور خالہ وغیرہ کے ساتھ تشبیہ دے تو کیا ظہار ہو جائے گا؟
(ابو حنیفہؒ ، اوزاعیؒ) دیگر محارم کو بھی ماں پر قیاس کیا جائے گا (یعنی ان کے ساتھ تشبیہ دینے سے بھی ظہار ہو جائے گا۔ ایک روایت کے مطابق امام شافعیؒ کا بھی یہی موقف ہے)۔
(جمہور ) ظہار صرف ماں کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ قرآن میں أمهات کا ہی ذکر ہے۔
[نيل الأوطار: 356/4 ، فتح البارى: 542/10 ، تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 519/18 ، تفسير قرطبي: 177/17 – 178]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
[السيل الجرار: 415/2]
کنایہ: مثلاََ انسان اپنی بیوی سے کہے:
انت على مثل أمى
”تو مجھ پر میری ماں کی طرح ہے۔“
اس میں دونوں احتمال ہیں یعنی معزز ہونے میں بھی ماں کی طرح ہو سکتی ہے اور حرام ہونے میں بھی۔ اس کا حکم نیت کے ساتھ ملحق ہے اگر یہ الفاظ کہنے والوں کی نیت ظہار کی ہو گی تو ظہار ہو جائے گا بصورت دیگر نہیں ہو گا ۔
[السيل الجرار: 417/2]
➊ امام شوکانیؒ نے متن میں جو ترتیب ظہار کے کفارے کے لیے بیان کی ہے وہ درست نہیں کیونکہ قرآن میں غلام آزاد کرنے کے ذکر کے بعد روزے رکھنے کا حکم ہے پھر مساکین کو کھلانے کا حکم ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ …. [المجادلة: 3 – 4]
”جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کر لیں تو ان کے ذمہ آپس میں ایک دوسرے کو چھونے (یعنی ہم بستری) سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ ہاں جو شخص اس کی طاقت نہ پائے اس کے ذمہ دو ماہ کے مسلسل روزے ہیں…… ۔
اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے ۔“
➋ حضرت سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں بھی یہی کفارہ اسی قرآنی ترتیب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے۔
[حسن: صحيح ابو داود: 1933 ، كتاب الطلاق: باب فى الظهار ، ابو داود: 2213]
کفارے میں ترتیب کا حکم
کفارہ دیتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھنا واجب ہے جیسا کہ یہ بات قرآن کی اس آیت سے ہی واضح ہے کہ :
فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا
”یعنی اگر غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں تب دو ماہ کے روزے رکھے گا ایسا نہیں ہے کہ اس کی طاقت کے باوجود روزے رکھ لے یا مساکین کو کھانا کھلا دے ۔“
[تفسير قرطبي: 185/17]
کیا کفارے میں غلام کا مومن ہونا ضروری ہے
(ابو حنیفہؒ) کافر غلام بھی کفایت کر جائے گا کیونکہ قرآن میں مطلقا رقبه ”کوئی گردن“ کا حکم ہے۔
(شافعیؒ) غلام کا مومن ہونا ضروری ہے رقبتہ کو قتل کے کفارے رقبة مومنه کے ساتھ مقید کیا جائے گا۔
[بدائع الصنائع: 235/3 ، الأم: 280/5 ، المغني: 81/11 ، نيل الأوطار: 357/4]
(راجح) غلام کا مومن ہونا ضروری نہیں۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے قدرے تفصیل کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں بحث اصولی ہے۔ یعنی کفارہ ظہار میں مطلقا غلام آزاد کرنے کا حکم ہے اور کفارہ قتل میں مومن غلام آزاد کرنے کا حکم ہے۔ اب جو لوگ مطلق و مقید کرتے ہیں ان کے نزدیک حکم ایک ہونے کے ساتھ سبب ایک ہونا مطلق کو مقید پر محمول کرنے کے لیے شرط نہیں جیسا کہ امام شافعیؒ اسی کے قائل ہیں۔ لیکن راجح بات یہ ہے کہ اس کے لیے دونوں حکموں کا سبب ایک ہونا بھی شرط ہے لٰہذا چونکہ یہاں غلام آزاد کرنے کا سبب ظہار ہے اور وہاں غلام آزاد کرنے کا سبب قتل ہے تو افتراق السبب کی وجہ سے مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا تو ثابت ہوا کہ کوئی بھی غلام آزاد کر دیا جائے تو کفایت کر جائے گا۔
[الوجيز: ص/ 286 ، لطائف الإشارات: ص/ 32 – 33 ، إرشاد الفحول: ص/ 145 – 146]
روزوں کا تسلسل برقرار رہے
جیسا کہ قرآن میں ہے:
فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ
”پے در پے بلا ناغہ دو ماہ کے روزے رکھے ۔“
یعنی اگر درمیان میں بغیر کسی شرعی عذر (بیماری یا سفر وغیرہ) کے روزہ چھوڑ دیا تو نئے سرے سے پورے دو ماہ کے روزے دوبارہ رکھنے پڑیں گے۔
(شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) بیماری کی وجہ سے بھی اگر روزہ چھوڑا تو نئے سرے سے روزے رکھے گا۔
[تفسير قرطبي: 184/17]
(راجح) پہلا موقف انشاء اللہ راجح ہے۔
کفارے کی ادائیگی سے پہلے ہم بستری
جائز نہیں کیونکہ قرآن میں ہے کہ :
فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا
”ایک دوسرے کو چھونے (یعنی ہم بستری) سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا لازم ہے۔“
اسی طرح روزوں کے متعلق فرمایا:
فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا
”ایک دوسرے کو چھونے (یعنی جماع) سے پہلے لگا تار دو ماہ کے روزے رکھنا لازم ہے۔“
البتہ مساکین کو کھلانے سے پہلے یہ قید نہیں لٰہذا اگر روزوں کی تکمیل سے پہلے ہم بستری کر لی تو نئے سرے سے مکمل روزے رکھے گا اور اگر ساٹھ مساکین کو مکمل کرنے سے پہلے ہم بستری کر لی تو دوبارہ پہلے مسکین سے کھلانا شروع نہیں کرے گا۔
ہر مسکین کو کتنا کھانا کھلایا جائے
(ابن عبد البرؒ ) افضل یہ ہے کہ (ہر مسکین کو ) دو مد کھانا کھلایا جائے۔
[الاستند كار لابن عبد البر: 104/10]
(ابو حنیفہؒ) ہر مسکین کو ایک صاع (تقریباً اڑھائی کلو) کھجور ، یا مکئی ، یا جو، یا منقی کھلانا ، یا نصف صاع گندم کھلانا واجب ہے۔
(شافعیؒ) ہر مسکین کے لیے ایک مد دینا واجب ہے ۔
[نيل الأوطار: 358/4 ، الأم: 284/5 ، المغنى: 94/1]
(راجح) قرآن کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسکین کو اتنا کھانا کھلا دیا جائے جس سے وہ شکم سیر ہو جائے ۔
◈ تمام مساکین کو اکٹھا کھانا کھلانا بھی ضروری نہیں بلکہ وقفے وقفے سے بھی کھلایا جا سکتا ہے۔
(مالکؒ ، شافعیؒ) ساٹھ مساکین سے کم کو کھانا کھلا دینا کفایت نہیں کرے گا۔
(ابو حنیفہؒ) اگر ایک ہی مسکین کو روزانہ نصف صاع کھلا دے حتی کہ عدد مکمل کر دے تو کفایت کر جائے گا۔
(احمدؒ) اگر اس شخص کو صرف ایک مسکین ملے اور وہ اسے ساٹھ دنوں کی تعداد کے برابر کھانا کھلا دے تو درست ہے۔
[الحاوى للماوردي: 513/10 ، المبسوط: 17/7 ، الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف: 230/9 ، تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 528/18]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1