ظالم حکمرانوں پر صبر اور ان کو نصیحت کرنے کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

ان کے ظلم پر صبر اور انہیں نصیحت کرنا لازم ہے
گذشتہ مسئلے میں بیان کردہ احادیث اس پر بھی شاہد ہیں:
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من رأى من أميره شيئا يكرهه فليصبر ……
”جو شخص اپنے امیر میں کوئی قابل کراہت بات دیکھے تو صبر سے کام لے اس لیے کہ جو شخص بھی جماعت (کے نظم ) سے بالشت بھر بھی الگ ہوا اور پھر اسی حالت میں فوت ہو گیا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔“
[بخاري: 7053 ، كتاب الفتن: باب قول النبى سترون بعدي أمورا تنكرونها]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء چلاتے تھے جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین بن جاتا ۔ بلاشبہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ۔ البتہ بہت زیادہ خلفاء ہوں گے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے خلیفہ ، پھر پہلے کی بیعت کو پورا کرو یعنی ہر دور میں جس کی بیعت پہلے ہو:
أعطوهم حقهم فإن الله سائلهم عما استرعاهم
”ان کے حقوق پورے ادا کرو یقیناََ اللہ تعالیٰ انہیں ان کی رعایا کے بارے میں سوال کریں گے ۔“
[بخارى: 3455 ، كتاب أحاديث الأنبياء: باب ما ذكر عن بني اسرائيل ، مسلم: 1842 ، ابن ماجة: 2871 ، ابن حبان: 4555 ، بيهقى: 144/8 ، احمد: 297/2]
➌ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہو گا جب میرے بعد کچھ امراء ایسے ہوں گے جو مال فیٔی کو (اپنے لیے ) خاص کر لیں گے ۔ میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھوں گا پھر تلوار چلاتا رہوں گا حتی کہ میری آپ سے ملاقات ہو جائے گی (یعنی میں فوت ہو جاؤں گا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں؟ وہ یہ ہے کہ :
تصبر حتى تلقاني
”تو صبر کر حتی کہ تیری مجھ سے ملاقات ہو جائے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 1020 ، كتاب السنة: باب فى الخوارج ، ابو داود: 4759 ، احمد: 179/5 ، عبدالله بن احمد: 180/5]
➍ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تسمع وتطيع وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك فاسمع وأطع
”تم سنو اور اطاعت کرو اگرچہ وہ (حکمران) تیری پیٹھ پر مارے اور تیرا مال چھین لے تم سنو اور اطاعت کرو ۔“
[مسلم: 1847 ، كتاب الإمارة: باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن وفي كل حال ، احمد: 384/5]
(ابن حجرؒ ) فقہا کا اس بات پر اجماع ہے کہ سلطنت پر زبردستی قابض ہونے والے حکمران کی اطاعت اور اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا واجب ہے اور بلا تردد اس کی اطاعت ہی اس کے خلاف خروج سے بہتر و اولٰی ہے ۔
[فتح البارى: 496/14]
➊ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدين النصيحة
”كہ دین اسلام وعظ و نصیحت کا نام ہے“
تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ نصیحت کا حق کس کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لله ولكتابه ولرسوله ولائمة المسلمين وعامتهم
”اے اللہ کے لیے ، اس کی کتاب کے لیے ، اس کے رسول کے لیے ، مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے ۔“
[مسلم: 55 ، كتاب الإيمان: باب بيان أن الدين النصيحة]
ائمہ کی خیر خواہی یہی ہے کہ حق کے معاملے میں ان کی اطاعت کی جائے ، بلا وجہ ان کے خلاف خروج نہ کیا جائے اور جب وہ مشورہ طلب کریں تو ان کی حسب توفیق صحیح رہنمائی کی جائے ۔
➋ وہ تمام دلائل جن میں عمومی طور پر نصیحت و خیر خواہی کرنے کا ذکر ہے اس کی بھی تائید کرتے ہیں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے