طہارت کا مکمل بیان قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس مکتبہ دارالاندلس کی جانب سے شائع کردہ کتاب صحیح نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے جو الشیخ عبدالرحمٰن عزیز کی تالیف ہے۔

پانی کے احکام:

❀ طہارت نماز کے لیے شرط ہے، اس کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تقبل صلاة بغير طهور
”طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں ہوگی۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة : 224)
❀ طہارت صرف دو چیزوں سے حاصل ہو سکتی ہے:
➊ پاک پانی سے۔ (الانفال : 11)
➋ پانی نہ ہونے کی صورت میں پاک مٹی سے (اس کی تفصیل تیمم کے بیان میں ملاحظہ فرمائیں)۔
❀ پانی (برف ہو یا اولے، کھڑا ہو یا بہتا، کم ہو یا زیادہ) اپنی تمام صورتوں میں پاک ہے، ان سے طہارت کرنا جائز ہے۔
❀ مندرجہ ذیل صورتوں میں پانی ناپاک ہے، اس سے طہارت نہیں ہوگی:
➊ تھوڑے پانی میں نجاست گر جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كان الماء قلتين فإنه لا ينجس
”جب پانی کی مقدار دو بڑے مٹکوں کے برابر ہو تو ناپاک نہیں ہوتا۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب ما ينجس الماء : 65۔ صحیح)
یعنی مذکورہ مقدار سے کم ہوگا تو نجاست گرنے سے ناپاک ہو جائے گا۔ دو قلّتین میں موجودہ حساب سے پانچ (5) من اور ستائیس (27) سیر پانی آتا تھا۔
(اتحاف الكرام اردو : 29)
پانی مذکورہ مقدار سے زیادہ ہو تو اس وقت ناپاک ہوگا جب نجاست اس کے رنگ، بو اور ذائقہ میں سے کوئی وصف تبدیل کر دے۔ اس مسئلہ پر علماء کا اجماع ہے۔
(دیکھیے صحیح ابن حبان، تحت الحديث : 1249۔ سبل السلام : 44/1)
➋ کسی برتن سے کتا پانی پی لے تو وہ ناپاک ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا ولغ الكلب فى إناء أحدكم فليرقه ثم ليغسله سبع مرات
”جب تمھارے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس چیز کو بہا دو، پھر اسے سات مرتبہ دھوؤ۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب حكم ولوغ الكلب : 279)
➌ جس پانی( کے پاک یا ناپاک ہونے) میں شک پڑ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دع ما يريبك إلىٰ ما لا يريبك
(نسائي، کتاب الأشربة، باب الحث على ترك الشبهات : 5714۔ صحیح)
”جس چیز میں شک پڑ جائے اسے چھوڑ دے اور اس چیز کو اختیار کر جس میں شک نہیں۔“
➍ جنبی مرد یا عورت کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے وضو یا غسل نہ کریں تو بہتر ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مرد کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے عورت غسل نہ کرے اور عورت کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے مرد غسل نہ کرے۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب النهي عن ذلك : 81۔ نسائی : 239۔ صحیح)

رفع حاجت کے آداب:

❀ پیشاب و پاخانہ کی حاجت شدید ہو تو نماز نہیں پڑھنی چاہیے، بلکہ پہلے حاجت سے فارغ ہوا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلاة بحضرة الطعام ولا وهو يدافعه الأخبثان
”جب کھانا حاضر ہو اور پیشاب و پاخانہ تنگ کر رہے ہوں تو اس وقت نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔“
(مسلم، کتاب المساجد، باب كراهية الصلاة بحضرة الطعام الخ : 560)

رفع حاجت بیٹھنے کے آداب:

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے دور جاتے اور چھپ کر بیٹھتے کہ کوئی آپ کو دیکھ نہ سکے۔
(بخاري، كتاب الصلاة، باب الصلاة فى الحبة الشامية : 363. مسلم : 274/77)
❀ ایسی جگہ بیٹھیں کہ پیشاب کے چھینٹے جسم پر نہ پڑیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں کے پاس سے گزرتے ہوئے فرمایا:
إنهما ليعذبان وما يعذبان فى كبير، أما أحدهما فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة
”ان دو قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ عذاب کسی بڑے کام پر نہیں ہو رہا جس سے بچنا مشکل ہو بلکہ ایک کو پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنے پر اور دوسرے کو چغلی کرنے پر ہو رہا ہے۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب : 218۔ مسلم : 677)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے صحرا میں جاتے تو زمین نرم کرنے کے لیے ایک نیزہ لے جاتے تاکہ پیشاب کے چھینٹے جسم پر نہ پڑیں۔
(بخاری، کتاب الوضوء، باب حمل العنزة مع الماء في الاستنجاء : 152۔ مسلم : 271)

قبلہ رخ بیٹھنا:

❀ قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے نہ بیٹھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها
”جب تم پیشاب و پاخانہ کے لیے جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ نہ کرو۔“
(بخاری، کتاب الصلاة، باب قبلة أهل المدينة وأهل الشام والمشرق : 394۔ مسلم : 264)
❀ قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے کی ممانعت فضا میں ہے، کمرہ یا کوئی اوٹ ہو تو جائز ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کر کے قضائے حاجت کرتے ہوئے دیکھا۔
(بخاری، کتاب الوضوء، باب من تبرز على لبنتين : 145۔ مسلم : 266)

پیشاب کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر؟:

اگر بیٹھنا ممکن نہ ہو تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أتى النبى صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوڑا کرکٹ والی جگہ آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب البول قائمًا وقاعدًا : 224۔ مسلم : 273۔ مسند امام اعظم ابو حنيفة، ص : 46، مترجم دوست محمد شاكر و نسخة ديوبنديه، ص : 119، باب البول قائما)
تنبیه:
صحیح بخاری میں کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پیشاب کرنے کی روایت ہے، جبکہ مسند امام اعظم میں صرف کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی روایت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ بیٹھ کر پیشاب کرنے کا تھا، آج بھی ضرورت ہو تو اس پر عمل کرنا جائز ہے۔

بوقت قضائے حاجت قریب قریب بیٹھنا:

❀ قضائے حاجت کے وقت ایک دوسرے سے چھپ کر بیٹھنا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب دو آدمی قضائے حاجت کے لیے بیٹھیں تو ایک دوسرے سے چھپ کر بیٹھیں اور وہ آپس میں گفتگو بھی نہ کریں، کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔“
(السلسلة الصحيحة : 321/7، ح : 312)

قضائے حاجت کے وقت باتیں کرنا:

❀ مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے وقت باتیں کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور حدیث بھی ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے کہ ایک آدمی نے گزرتے ہوئے سلام کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔
(مسلم، کتاب الحیض، باب التيمم : 370)

بیت الخلا کی دعائیں:

❀ بیت الخلا میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھیں:
بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ
”اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ! میں خبیث جنوں اور خبیث جننیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب ما يقول عند الخلاء : 142۔ مسلم : 375۔ شروع میں ”بسم اللہ“ کا اضافہ سعید بن منصور سے مروی ہے، دیکھیے فتح الباری : 244/1)

بیت الخلا سے باہر نکل کر یہ دعا پڑھیں:

غُفْرَانَكَ
”(اے اللہ! میں) تیری بخشش چاہتا ہوں۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب ما يقول الرجل إذا خرج من الخلاء : 30۔ ترمذی : 7۔ ابن ماجه : 300۔ صحیح)

کن مقامات پر پیشاب کرنا ممنوع ہے؟

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل مقامات پر پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے:
➊ لوگوں کے راستے میں اور سایہ دار درخت کے نیچے۔ (مسلم، کتاب الطهارة، باب النهي عن التخلي في الطرق والظلال : 269) قبرستان میں۔ (ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء في النهي الخ : 1567۔ صحیح)
➋ غسل خانہ میں۔ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب البول في المستحم : 27۔ صحیح)
➌ کھڑے پانی میں۔ (مسلم، کتاب الطهارة، باب النهي عن البول في الماء الراكد : 281)

استنجا کے مسائل:

❀ پانی میسر ہو تو پانی ہی سے استنجا کریں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستنجي بالماء
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی سے استنجا کرتے تھے۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب حمل العنزة مع الماء في الاستنجاء : 152۔ مسلم : 271)
❀ پانی میسر نہ ہو تو پتھر یا مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا کریں۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب الاستنجاء بروث : 156)
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پانی موجود ہو تب بھی پہلے ضرور ڈھیلے استعمال کیے جائیں، پھر پانی، یہ ضروری والی شرط فضول ہے۔ ہاں اگر باہر کھیت وغیرہ میں پیشاب کیا اور ڈھیلے استعمال کر لیے، پھر پانی ملنے پر استنجا کر لیا جائے تو یہ اچھی بات ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يستنجي أحدكم بدون ثلاثة أحجار
”تم میں سے کوئی شخص تین سے کم ڈھیلوں سے استنجا نہ کرے۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب الاستطابة : 262)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے اور اسی طرح دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے بھی منع کیا ہے۔
(مسلم، کتاب الطهارة، باب الاستطابة : 262)
❀ استنجا کے بعد زمین کے ساتھ ہاتھ ملنا مستحب ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے ایک برتن سے استنجا کیا، پھر اپنا ہاتھ زمین کے ساتھ ملا۔
(ابن ماجه، کتاب الطهارة و سننها، باب من ذلك يده بالأرض بعد الاستنجاء : 358۔ أبو داود : 45۔ صحیح)
❀ استنجے اور وضو کے لیے الگ الگ برتن استعمال کرنے چاہییں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کے لیے جاتے تو میں برتن میں پانی لاتا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم استنجا کرتے پھر دوسرا برتن لاتا، اس سے وضو کرتے تھے۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب الرجل يدلك بالأرض إذا استنجى : 45۔ صحیح)
❀ ہوا خارج ہونے سے استنجا کرنے کا ذکر کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے، حدیث میں اس سے صرف وضو کرنے کا ذکر ہے۔

استنجا اور وضو کا باہمی تعلق

کچھ لوگ استنجا اور وضو کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں اور ان میں یہ معروف ہے کہ پیشاب یا پاخانہ کے بعد لازمی طور پر وضو کرنا چاہیے، یہ بات غلط ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوٹے میں پانی لے کر پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فارغ ہو کر پوچھا: ”اے عمر! یہ کیا ہے؟“ عرض کی: ”یہ پانی ہے، وضو کر لیں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ہر مرتبہ پیشاب کے ساتھ وضو کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب في الاستبراء : 42۔ حسن۔ صحيح الجامع : 5551)
❀ اسی طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وضو کرنے سے پہلے لازمی طور پر استنجا کرنا چاہیے، یہ بات بھی غلط ہے، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس دلائل موجود ہیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری (859) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رات بسر کرنے والا واقعہ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیدار ہونے کے بعد صرف وضو کیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے