طواف سے پہلے سعی کا جواز: حدیث کی روشنی میں مکمل وضاحت
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

کیا طواف سے پہلے سعی کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج کی سعی کا حکم طواف افاضہ سے پہلے کرنے کے متعلق

جہاں تک حج کی سعی کا تعلق ہے تو اسے طواف افاضہ سے پہلے کرنا جائز ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ایک واقعے سے ملتی ہے۔

قربانی کے دن، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، لوگ آپ سے مختلف مسائل کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ:

"میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی ہے۔”
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَا حَرَجَ»

(صحيح البخاري، الحج، باب اذا رمی بعد ما امسی، ح: ۱۷۳۴، وصحيح مسلم، الحج، باب جواز تقديم الذبح علی الرمی، ح: ۱۳۰۶، وسنن ابي داؤد، المناسک باب فی من قدم شيئا… ح: ۲۰۱۵، واللفظ له)

"کوئی حرج نہیں۔”

حج تمتع، افراد اور قران کے حالات میں سعی

❀ اگر کوئی شخص حج تمتع کر رہا ہو اور وہ حج کی سعی کو طواف سے پہلے انجام دے لے

❀ یا کوئی افراد یا قران کرنے والا ہو اور اس نے طواف قدوم کے ساتھ سعی نہ کی ہو

❀ اور پھر وہ طواف سے پہلے سعی کر لے

تو ان تمام صورتوں میں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے پیش نظر،

"اس میں کوئی حرج نہیں۔”

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1