سوال:
"طلع البدر علینا” کے اشعار اور اس واقعے کی صحت؟
بعض علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں قدم رکھا، تو اہل مدینہ کی بچیوں نے یہ اشعار گائے:
اشرق البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا ما دعا لله داع
ایها المبعوث فینا جنت بالامر المطاع
اس کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے:
"ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب، چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا
کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے، شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا
ہے اطاعت فرض تیرے حکم کی، بھیجنے والا ہے تیرا کبریا”
یہ اشعار کتاب رحمت للعالمین (جلد 1، صفحہ 93) اور الرحیق المختوم اردو (صفحہ 240، 241) میں مذکور ہیں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روایت کی حیثیت اور اس کی اسناد:
- یہ واقعہ مذکور تو ہے، مگر رحمت للعالمین میں اسے بغیر کسی سند یا حوالہ کے ذکر کیا گیا ہے۔
- قاضی محمد سلیمان منصور پوری نے اس واقعے کی صحت پر کوئی ناقابلِ تردید دلیل پیش نہیں کی۔
- صاحب الرحیق المختوم نے بھی یہی واقعہ رحمت للعالمین سے بلا تحقیق نقل کیا ہے۔
اسناد کے ماخذ:
یہ روایت مختلف مصادر میں بغیر سند یا منقطع سند کے ساتھ بیان ہوئی ہے:
- التمهید لابن عبدالبر (14/82)
- کتاب الثقات لابن حبان (1/131)
- مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ (18/377)
- الضعیفہ للالبانی (حدیث نمبر 488)
حافظ ابن حجر العسقلانی کی تحقیق:
وقد روینا بسند منقطع فی الحلبیات قول النسوة لما قدم النبی صلی الله علیه وسلم: طلع البدر علینا من ثنیات الوداع، فقیل: کان ذلک عند قدومه فی الهجرة وقیل عند قدومه من غزوة تبوک
(فتح الباری، جلد 8، صفحہ 129، حدیث 4427)
اس کا مفہوم ہے کہ:
یہ اشعار "الحلبیات” میں منقطع سند کے ساتھ مروی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے وقت کا واقعہ ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ اشعار آپ ﷺ کی غزوہ تبوک سے واپسی کے موقع پر پڑھے گئے تھے۔
اصل روایت کا محل وقوع:
حافظ بیہقی نے دلائل النبوۃ (جلد 2، صفحات 506-507) میں یہ واقعہ صحیح سند کے ساتھ ابن عائشہ سے نقل کیا ہے۔
وضاحت:
- بعض نسخوں میں الخصائص الکبریٰ للسيوطی (جلد 1، صفحہ 190) میں غلطی سے "عن عائشہ” چھپ گیا ہے، جو طباعت یا ناسخ کی غلطی ہے۔
- ابن عائشہ سے مراد ہیں: عبیداللہ بن محمد بن عائشہ، جن کا انتقال 228 ہجری میں ہوا۔
(تاریخ بغداد 10/318، ترجمہ 5462؛ تقریب التہذیب: 4334)
روایت کی سند کی نوعیت:
- یہی روایت الریاض النضرہ (1/480، حدیث 393) میں بھی ہے: "عن ابن عائشہ و أراه عن أبیه”۔
- اس میں آخر میں ذکر ہے:
خرجہ الحلوانی علی شرط الشیخین
یعنی اسے حلوانی نے بخاری و مسلم کی شرط پر روایت کیا ہے۔
راوی کی حیثیت:
- ابن عائشہ کے والد محمد بن حفص بن عمر بن موسیٰ کا حال مجہول ہے۔
- ابن حبان کے سوا کسی اور نے ان کی توثیق نہیں کی۔
(تعجیل المنفعہ، صفحہ 363) - نیز، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کئی سال بعد ابن عائشہ اور ان کے والد کی پیدائش ہوئی، اس لیے یہ سند سخت منقطع ہونے کی وجہ سے ناقابلِ قبول (مردود) ہے۔
مقام وقوع کی جغرافیائی حقیقت:
وهو وهم ظاهر لان ثنیات الوداع وانما هی من ناحیة الشام، لا یراها والقادم من مکة الی المدینة، ولا یمربها الا اذا توجه الی الشام
(زاد المعاد، جلد 3، صفحہ 551)
یعنی یہ روایت ظاہر طور پر وہم ہے، کیونکہ ثنیات الوداع مدینہ کے شام کی طرف واقع ہے، اور مکہ سے آنے والے اس راستے سے گزرتے ہی نہیں۔ یہ مقام صرف شام جانے والوں کے لیے راستے میں آتا ہے۔
خلاصہ تحقیق:
یہ واقعہ اور اس کے اشعار کسی بھی صحیح اور متصل سند سے ثابت نہیں ہیں، اس لیے مردود ہیں۔
اضافی تنبیہ:
- موارد الظمآن (حدیث 2015) کے ایک نسخے میں ایک مجہول کاتب نے ایک حسن روایت کے آخر میں یہ اشعار اضافہ کیے:
وقالت: اشرق البدر علینا من ثنیات الوداع، وجب الشکر علینا مادعا للہ داع
- لیکن یہ اضافہ اصل صحیح ابن حبان کے مستند نسخوں (مثلاً: الاحسان حدیث نمبر 4371 اور دوسرا نسخہ 4386) میں موجود نہیں۔
- اس لیے یہ اضافہ بھی مجہول کاتب کی وجہ سے مردود اور موضوع ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب