سوال:
میرے والد نے میری والدہ کو تقریباً تین سال قبل طلاق دی تھی اور انہوں نے اسی ہفتے کے اندر اندر دوسرا نکاح کر لیا تھا۔ میری چھوٹی بہن کچھ ماہ تک ہمارے ساتھ رہی لیکن پھر وہ بھی والدہ کے پاس چلی گئی اور وہیں رہنا شروع کر دیا۔ میری والدہ نے اس کی بھی شادی کر دی۔ اس شادی میں نہ میرے والد، نہ میں اور نہ میرا چھوٹا بھائی شریک تھا۔ اسی لیے میں نے اور میرے والد نے چھوٹی بہن سے ملنا بند کر دیا۔ اب اس بات کو تقریباً ڈیڑھ یا دو سال گزر چکے ہیں، میرے والد اور چھوٹے بھائی کبھی کبھی چھوٹی بہن کے گھر جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا میری والدہ کا نکاح درست ہے، دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا میرے والدین کا آپس میں ملنا جلنا جائز ہے، تیسرا سوال یہ کہ کیا میری بہن کا نکاح جائز ہے اور آخری سوال کہ کیا ہمارے لیے اپنی بہن سے ملنا جائز ہے؟
جواب:
آپ کے سوالوں کے جواب بالترتیب درج ذیل ہیں:
① آپ کی والدہ نے طلاق کے بعد، جو اسی ہفتے آگے نکاح کر لیا، یہ بالکل حرام اور ناجائز ہے، کیونکہ طلاق کے بعد عدت کے اندر اندر نکاح کرنا منع ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ﴾(البقرہ: 235)
”اور عقد نکاح کی نیت نہ کرو جب تک کہ عدت ختم نہ ہو جائے۔“
امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: حرم الله تعالى عقدة النكاح فى العدة”اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران عقد نکاح حرام کیا ہے۔“
(تفسیر قرطبی (27/3))
پھر مذکورہ بالا آیت لکھ کر لکھتے ہیں:
وهذا من المحكم المجمع علىٰ تأويله أن بلوغ أجله انقضاء العدة
”یہ بات محکم، پختہ اور اتفاقی ہے کہ بلوغ اجل سے مراد عدت کا پورا ہونا ہے (جب تک عدت پوری نہیں ہوتی عورت آگے نکاح نہیں کر سکتی)۔“
اور یہ بھی یاد رہے کہ مطلقہ رجعیہ کو دوران عدت تعریض و کنائے میں بھی نکاح کی بات نہیں کی جا سکتی، وہ بیوی کی طرح ہوتی ہے، یہ بات اجتماعی اور اتفاقی ہے۔ (ملخصاً از تفسیر قرطبی (124/3))
جب مطلقہ رجعیہ کے ساتھ اشارے اور کنائے میں بھی نکاح کی بات جائز نہیں تو اس کے ساتھ نکاح کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فأما المطلقة الرجعية فلا خلاف فى أنه لا يجوز لغير زوجها التصريح بخطبتها ولا التعريض لها والله أعلم
”مطلقہ رجعیہ کے بارے اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس کے شوہر کے علاوہ دوسرے آدمی کے لیے اسے نہ صراحتاً اور نہ اشارہ نکاح کا پیغام دینا جائز نہیں (واللہ اعلم)۔“
(تفسیر ابن کثیر (573/1)بتحقیق عبد الرزاق المہدی)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
وقد أجمع العلماء على أنه لا يصح العقد فى مدة العدة
”علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دوران عدت کیا گیا نکاح جائز نہیں۔“
(تفسیر ابن کثیر (574/1))
اگر کسی شخص نے دوران عدت نکاح کر لیا تو ان کے درمیان تفریق اور جدائی کرائی جائے گی۔
لہذا آپ کی والدہ کا نکاح درست نہیں ہے، شرعاً ان دونوں میں تفریق اور جدائی کرائی جائے گی۔
② آپ کے والد نے اگر طلاق دینے کے بعد دوران عدت رجوع کیا تھا پھر تو وہ ان سے مل سکتے ہیں اور وہ ان کی بیوی ہے اور قانونی چارہ جوئی کر کے اسے دوسرے شوہر سے علیحدہ کرایا جائے اور اگر عدت کا انتقام ہو گیا تھا، صلح و رجوع نہیں ہوا تو وہ آپ کے باپ کے نکاح سے خارج ہے، اس سے ملنا جائز نہیں ہے۔ خاوند کو دوران عدت رجوع کا حق ہوتا ہے اور عدت گزرنے پر نکاح ختم ہو جاتا ہے۔
③ آپ کی بہن کا نکاح ولی کے بغیر ہوا ہے، ماں کا کیا ہوا نکاح منعقد نہیں ہوتا، کیونکہ عورت کسی عورت کی ولی نہیں بن سکتی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تزوج المرأة المرأة ولا تزوج المرأة نفسها فإن الزانية هي التى تزوج نفسها
”کوئی عورت کسی عورت کی شادی نہ کرے اور نہ عورت بذات خود اپنی شادی کرے، اس لیے کہ جو عورت بذات خود اپنی شادی کرتی ہے وہ زانیہ ہے۔“
(ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب لا نکاح إلا بولی (1882)، السنن الکبری للبیہقی (0110/7 ح: 13635/13634))
یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لا نكاح إلا بولي
”ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔“
(ترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء لا نکاح إلا بولی (1101))
علامہ سیوطی کہتے ہیں: ”جمہور نے اس حدیث کو نفی صحت پر محمول کیا ہے اور امام ابو حنیفہ نے نفی کمال پر۔“ علامہ مبارکپوری لکھتے ہیں:
والراجح أنه محمول على نفي الصحة بل هو المتعين كما يدل عليه حديث عائشه الآتي وغيره
”راجح بات یہ ہے کہ یہ نفی صحت پر محمول ہے، بلکہ یہی بات متعین ہے، جیسا کہ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کی حدیث دلالت کرتی ہے، جو آگے آنے والی ہے۔“ (تحفہ الأحوذی (235/4))
حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا یہ ہے:
أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها، فنكاحها باطل
”جس بھی عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کیا گیا اس کا نکاح باطل ہے۔“
یہ حدیث ابو داؤد (2083) اور ترمذی (1102) میں موجود ہے اور اسے ترمذی نے حسن اور ابو عوانہ، ابن خزیمہ، ابن حبان (4073) اور حاکم (168/2) نے صحیح کہا ہے، جیسا کہ فتح الباری میں ہے ۔
(تحفہ الا حوذی 235/4)
امام ابن قدامہ مقدسی لکھتے ہیں: ”ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے، عورت اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی اور نہ کسی دوسری عورت کا اور اپنی شادی کے لیے اپنے ولی کے علاوہ کسی کو وکیل نہیں بنا سکتی، اگر ایسا کرے گی تو نکاح صحیح نہیں ہو گا۔ یہ بات عمر فاروق، علی المرتضی، ابن مسعود، ابن عباس، ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور اس طرف سعید بن مسیب، حسن بصری، عمر بن عبد العزیز، جابر بن زید، سفیان ثوری، ابن ابی لیلی، ابن شبرمہ، عبد اللہ بن المبارک، عبید اللہ حمری، اور اعتمر کی، شافعی، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید رحمہ اللہ گئے ہیں۔“ (المغنی (345/9))
لہذا آپ کی ہمشیرہ کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر منعقد ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے۔ یہی جمہور علمائے امت محمدیہ اور فقہائے ملت اسلامیہ اور ماہرین علوم حدیثیہ کا مذہب ہے۔
④ آپ اپنی بہن کے گھر جایا کریں اور اسے دینی مسائل کی دعوت دیں اور سمجھائیں اور اس نکاح کی حقیقت سے آگاہ کریں، ہو سکتا ہے کہ آپ کے ملنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نواز دے۔ (ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب)