سوال :
اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے، پھر پانچ یا چھ ماہ بعد دوبارہ اسی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو نکاح درست ہوگا ، یا وہ عورت پہلے کسی اور کے ساتھ شادی کرے، پھر اس پہلے خاوند کے ساتھ نکاح ہو گا ؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب :
جب کوئی آدمی اپنی منکوحہ کو ایک یا دو طلاقیں دے ڈالے اور عدت گزر جائے تو پھر اگر یہی شخص اور عورت آپس میں اکٹھے رہنا چاہیں تو نیا نکاح کر کے اکٹھے ہو سکتے ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری اور نسائی وغیرہ میں حدیث ہے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ کو ایک طلاق ہوگئی اور عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ یہ دونوں آپس میں اکٹھے رہنے پر راضی ہو گئے تو معقل رضی اللہ عنہ نے نکاح کرنے سے روک دیا، کیونکہ یہ اپنی مطلقہ بہن کے ولی تھے، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل کی:
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ﴾
(البقرہ: 232)
”جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو انھیں ان کے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو، جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔“
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ طلاق رجعی میں عدت گزر جانے کے بعد از سرنو نکاح کر کے گھر آباد کیا جاسکتا ہے اور اگر مرد نے تیسری طلاق بھی دے ڈالی تو پھر عورت اس مرد پر پکی حرام ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے اس طرح بسنے کی نیت سے نکاح کرے، جیسا کہ پہلے آدمی سے کیا تھا، پھر وہ مرد اپنی مرضی سے کسی موقع پر طلاق دے ڈالے یا فوت ہو جائے تو پھر عدت گزارنے کے بعد یہ دونوں اگر اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں تو دوبارہ جمع ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر کسی دوسرے مرد سے صرف اس غرض سے نکاح کیا جائے کہ ایک یا دو دن گزارنے کے بعد اس سے طلاق لے کر پہلے آدمی سے نکاح کیا جائے تو یہ حلالہ ہے، جس پر شریعت محمدی میں لعنت وارد ہوئی ہے۔ مسند احمد (350/1، 1351 خ 4308) ابن ماجه (1933 تا 1936) وغیرہ میں حدیث ہے : ”حلالہ کرنے اور کروانے والے پر اللہ کی لعنت بر سے۔“ لہذا اس ملعون عمل کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ مختصر سا طریقہ ہے عدت گزارنے کے بعد دوبارہ ملنے کا۔ (واللہ اعلم!)