طلاق کی وجہ سے حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور حائضہ کی تین حیض ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

طلاق کی وجہ سے حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور حائضہ کی تین حیض ہے
لفظِ عدة کی جمع عدد مستعمل ہے۔ یہ لغت میں ”شمار کرنے“ کو کہتے ہیں جو کہ عدد سے ماخوذ ہے کیونکہ یہ حیضوں یا مہینوں کے عدد پر مشتمل ہوتی ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 7165/9]
حافظ ابن حجرؒ رقمطراز ہیں کہ ”عدت ایسی مدت ہے جسے عورت شادی کی وجہ سے اپنے شوہر کی وفات پر ، یا اس کے چھوڑ دینے پر، ولادت (وضع حمل) کے ساتھ یا حیضوں کے ساتھ یا مہینوں کے ساتھ گزارتی ہے۔
[فتح البارى: 589/10]
عدت کا حکم: کتاب و سنت اور اجماع کے ساتھ عدت عورت پر واجب ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 6167/9 ، المغنى: 448/7]
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ [الطلاق: 4]
”حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ۔“
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث سے بھی یہی بات ثابت ہے۔
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1646 ، كتاب الطلاق: باب المطلقة الحامل إذا وضعت ذا بطنها بانت ، ابن ماجة: 2026 ، إرواء الغليل: 2117]
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ [البقرة: 228]
”مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں ۔“
آیت میں موجود لفظِ قروء سے مراد حیض ہے جیسا کہ حدیث میں یہ لفظ حیض کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مستحاضہ عورت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:
أن تدع الصلاة أيام أفرائها
”کہ وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 2118 ، ابو داود: 297 ، 281 ، 285 ، كتاب الطهارة: باب فى المرأة تستحاض ، أبو عوانة: 322/1 ، ترمذى: 126 ، ابن ماجة: 625]
في الحقيقت لفظِ قرء طہر اور حیض دونوں کے درمیان مشترک ہے لیکن یہاں صحیح دلائل کی وجہ سے ایک معنی (یعنی حیض) متعین ہو چکا ہے جیسا کہ گذشتہ حدیث اس پر شاہد ہے اور ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کے لیے فرمایا:
أن تعتد بثلاث حيض
”کہ وہ تین حیض عدت گزارے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1690 ، كتاب الطلاق: باب خيار الأمة إذا أعتقت ، إرواء الغليل: 2120 ، صحيح ابو داود: 1937 ، ابن ماجة: 2077]
(ابن قیمؒ) لفظِ قرء شارع علیہ السلام کے کلام میں صرف حیض کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔
[زاد المعاد: 609/5]
البتہ فقہا نے اس میں اختلاف کیا ہے۔
(احناف) قرء سے مراد حیض ہے۔
(شافعیؒ ، مالکؒ) قرء سے مراد طہر ہے۔
[المبسوط: 13/6 ، المغني: 199/11 ، الأم: 209/5 ، نيل الأوطار: 392/4]
ان دونوں کے علاوہ کی عدت تین ماہ ہے
یعنی حاملہ اور حائضہ کے علاوہ بچی جسے حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا یا ایسی عمر رسیدہ عورت جسے حیض آنے کے بعد بڑھاپے کی وجہ سے حیض منقطع ہو چکا ہے وغیرہ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ [الطلاق: 4]
”تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو ۔“
◈ جس عورت کو کسی مرض کی وجہ سے حیض آ رہا ہو تو اس کی عدت کے متعلق اختلاف تو ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ وہ تین ماہ عدت گزارے کیونکہ وہ ایسی عورتوں میں شامل ہے جنہیں حیض نہیں آ رہا یعنی: وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1