اشارے و کنائے سے بھی طلاق ہو جائے گی جبکہ اس میں طلاق کی نیت موجود ہو
➊ طلاق بالکنایہ یہ ہے کہ شوہر ایسے الفاظ میں طلاق دے جس کا مفہوم طلاق بھی ہو سکتا ہو اور کچھ اور بھی ۔ مثلاً کہے کہ اپنے گھر چلی جا، یا کہے کہ تو آج سے آزاد ہے وغیرہ۔ ایسی صورت میں اگر مرد کی نیت طلاق کی ہو گی تو طلاق واقع ہو جائے گی۔
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جون کی بیٹی جب نکاح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت گاہ میں لائی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب ہوئے تو اس نے کہا میں اللہ سے آپ کی پناہ چاہتی ہوں ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لقد عذت بعظيم الحقى بأهلك
”تو نے بڑی عظیم الشان ذات کی پناہ طلب کی ہے تو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل جا ۔“
[بخاري: 5254 ، كتاب الطلاق: باب من طلق وهل يواجه الرجل امرأته بالطلاق ، ابن ماجة: 2050 ، نسائي: 150/6 ، حاكم: 35/4]
➌ جس روایت میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا قصہ مذکور ہے اس میں ہے کہ ”ان پچاس دنوں میں سے جب چالیس دن گزر چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلچی میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی کے بھی قریب نہ جاؤ۔ میں نے پوچھا میں اسے طلاق دے دوں یا پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں:
بل اعتزلها ولا تقربها
”بلکہ صرف اس سے علیحدہ رہو اور اس کے قریب نہ جاؤ ۔“
تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا:
الحقى بأهلك
”اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا ۔“
[بخارى: 4418 ، كتاب المغازي: باب حديث كعب بن مالك ، مسلم: 2769 ، ترمذي: 3102]
معلوم ہوا کہ اگر ارادہ و نیت ہو تو ایسے الفاظ کے ساتھ طلاق ہو جائے گی اور اگر نیت نہ ہو تو طلاق نہیں ہو گی ۔
(امیر صنعانیؒ ) طلاق کا ایسا کنایہ و اشارہ جس سے طلاق مقصود ہو طلاق کے حکم میں ہی ہو گا۔
[سبل السلام: 1456/3]
اختیار دینے سے بھی طلاق واقع ہو جائے گی جب عورت علیحدگی پسند کر لے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا 28 وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا [الأحزاب: 28 – 29]
”اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیاوی زندگی اور دنیاوی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھا ہے ۔“
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دے دیا۔
[بخاري: 4785 ، كتاب التفسير: باب قوله: يايها النبى قل لأزواجك ، مسلم: 1475]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
خيرنا رسول الله …..
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دے دیا اور ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو ہی پسند کیا تو اسے ہم پر کچھ بھی (یعنی طلاق وغیرہ ) شمار نہیں کیا گیا۔
[بخارى: 5262 ، كتاب الطلاق: باب من خير نسائه ، مسلم: 1477 ، ابو داود: 2203 ، ترمذي: 1189 ، ابن ماجة: 2052 ، أحمد: 239/6]
معلوم ہوا کہ جب عورت کو اختیار دیا جائے اور وہ علیحدگی پسند کر لے تو اسے طلاق ہو جائے گی لیکن محض خاوند کے اختیار دینے سے ہی طلاق واقع نہیں ہو گی جیسا کہ گذشتہ صحیح حدیث میں ہے۔
فلم بعد ذلك علينا شيئا
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم پر کچھ شمار نہ کیا ۔“
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 337/4 ، تحفة الأحوذى: 391/4 ، حلية العلماء فى معرفة مذاهب الفقهاء: 39/7 ، بداية المجتهد: 71/2]
جب خاوند طلاق کو کسی اور کے سپرد کر دے تو اس کی طرف سے بھی طلاق واقع ہو جائے گی بیوی کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے طلاق واقع نہیں ہو گی
چونکہ معاملات میں بیشتر دلائل سے مطلقا وکیل بنانا ثابت ہے لٰہذا طلاق میں بھی کسی کو اپنا وکیل بنایا جا سکتا ہے۔ الا کہ کوئی ایسی دلیل مل جائے جو اس سے منع کرتی ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ایسے آدمی کے متعلق دریافت کیا گیا جو اپنی بیوی کا معاملہ اپنے والد کے ہاتھ میں دے دیتا ہے (یعنی اپنے والد کو اجازت دے دیتا ہے کہ وہ اس کی بیوی کو طلاق دے دے) تو ان سب نے اس کی طلاق کو جائز قرار دیا جیسا کہ امام ابوبکر البرقانیؒ نے اپنی کتاب المخرج على الصحيحين میں اسے نقل کیا ہے۔
[كما فى الروضة الندية: 119/2]
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
إذا حرم امرأته ليس بشيي
”اگر کسی نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا تو یہ کچھ نہیں ہے ۔“
اور مزید فرمایا کہ
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ [الأحزاب: 21]
”تمہارے لیے یقیناََ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ “
صحیح مسلم کی روایت میں یہ لفظ ہیں:
إذا حرم الرجل عليه امرأته فهو يمين يكفرها
”جب مرد نے اپنی بیوی کو حرام قرار دے دیا تو وہ قسم شمار ہو گی اور اس کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔“
[بخاري: 5266 ، كتاب الطلاق: باب لم تحرم ما أحل الله لك ، مسلم: 1473]
➋ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لونڈی کو اپنے نفس پر حرام کر لیا تو یہ آیت نازل ہوئى:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ [التحريم: 1]
”اے نبی ! تو کیوں حرام کرتا ہے جس کو اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 3695 ، كتاب عشرة النساء: باب الغيرة ، نسائى: 3959 ، حافظ ابن حجرؒ نے اس حديث كو صحيح كها هے۔ فتح الباري: 376/9]
امام ابن قیمؒ رقمطراز ہیں کہ اس مسئلے میں سلف و خلف میں اختلاف ہونے کی وجہ سے اہل علم کے تیرہ اصولی اقوال ہیں جو کہ بیسں مذاہب پر متفرع ہوتے ہیں۔
[زاد المعاد: 302/5]
ان سب میں سے راجح قول یہ ہے کہ عورت کو حرام کر لینے سے کوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی بلکہ یہ قسم ہے اور اس کا کفارہ ادا کر دیا جائے گا جیسا کہ گذشتہ روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے نیز اس کے قسم ہونے کی دلیل قرآن کی یہ آیت بھی ہے:
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ [التحريم: 2]
”تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کھول دینا مقرر کر دیا ہے ۔“
(اس آیت میں قسم سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اوپر شہد کو حرام کر لینا ہے جیسا کہ اس سے پچھلی آیت میں حرمت کا ذکر ہے )۔
(ابو حنیفہؒ) اسے قسم تصور کرتے ہیں۔
(شافعیؒ) اسے (یعنی حرام قرار دینے کو ) لغو قرار دیتے ہیں لٰہذا ان کے نزدیک کفارہ لازم نہیں۔
(امیر صنعانیؒ ) کفارہ صرف اس صورت میں ہو گا جب قسم کھائی ہو ورنہ صرف حرام کر لینا لغو ہو گا۔
[سبل السلام: 1454/3]
آدمی عدت طلاق میں اپنی بیوی کا زیادہ مستحق ہے جب چاہے رجوع کر سکتا ہے جبکہ طلاق رجعی ہو
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا [البقرة: 228]
”ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے زیادہ حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو۔“
➋ وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ [البقرة: 231]
”جب اپنی بیویوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کے ختم ہونے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں روک لو (یعنی رجوع کر لو) ۔“
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:
مره فليراجعها
”اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے ۔“
[مسلم: 1471 ، ابو داود: 2181]
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر رجوع کر لیا ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1998 ، كتاب الطلاق: باب فى المراجعة ، ابو داود: 2283 ، ابن ماجة: 2016 ، نسائي: 213/6 ، دارمي: 160/2]
➎ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے ایسے آدمی کے متعلق پوچھا گیا جو طلاق دیتا ہے پھر رجوع کر لیتا ہے اور اس پر گواہ نہیں بناتا تو انہوں نے کہا: ”عورت کو طلاق دیتے وقت اور رجوع کرتے وقت گواہ مقرر کرو ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1915 ، كتاب الطلاق: باب الرجل يراجع ولا يشهد ، إرواء الغليل: 2078 ، ابو داود: 2186 ، ابن ماجة: 2025]
➏ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت:
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ [البقرة: 228]
کے متعلق مروی ہے کہ (جاہلیت میں ) جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تو وہ اس سے رجوع کا زیادہ حق دار ہوتا خواہ اس نے تینوں طلاقیں ہی دے دی ہوں پھر آیت:
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ
نے اسے (یعنی تین طلاقوں کے بعد رجوع کو ) منسوخ کر دیا۔
[حسن صحيح: صحيح ابو داود: 1921 ، كتاب الطلاق: باب نسخ المراجعة بعد التطليقات الثلاث ، ابو داود: 2195 ، نسائي: 187/6]
اہل علم نے اجماع کیا ہے کہ جب کوئی آزاد شخص اپنی آزاد بیوی کو پہلی یا دوسری رجعی طلاق دے تو وہ اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے اگرچہ عورت اسے نا پسند ہی کیوں نہ کرتی ہو۔
[فتح البارى: 606/10 ، نيل الأوطار: 348/4 ، المغني: 547/10]
(ابن قدامہؒ ) رجوع میں عورت کی رضامندی کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اور اس پر اجماع ہے۔
[المغني: 553/10]
رجوع کس طرح کیا جائے گا
راجح بات یہ ہے کہ رجوع قول و فعل ہر طرح سے کیا جا سکتا ہے یعنی گفتگو و کلام وغیرہ کے ساتھ یا جماع ہم بستری کے ساتھ ، دونوں طرح درست ہے۔
(شوکانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 347/4]
(احناف ، اوزاعیؒ) ہم بستری کے ذریعے رجوع ہو جائے گا خواہ نیت ہو یا نہ ہو۔ سعید بن مسیّب، امام حسنؒ ، امام ثوریؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ کا بھی یہی موقف ہے۔
(مالکؒ ، اسحاقؒ) ہم بستری کے ذریعے تب رجوع ہو گا جب اس کی نیت ہو۔
(شافعیؒ) رجوع صرف کلام کے ساتھ ہی کیا جائے گا۔ امام احمدؒ سے بھی ایک یہی قول مروی ہے۔
[المغنى: 559/10 ، الأم: 244/5 ، المبسوط: 19/6 ، بداية المجتهد: 75/2 ، نيل الأوطار: 348/4]
حقِ رجوع کی حکمت
یہ ہے کہ انسان جب اپنی بیوی کے ساتھ ہوتا ہے تو اسے علم نہیں ہوتا کہ اس کی جدائی اسے گراں گزرے گی یا نہیں لیکن جب جدائی ہو جاتی ہے تب یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے تو اگر اللہ تعالی ایک طلاق کو ہی رجوع سے رکاوٹ بنا دیتے تو انسان پر مشقت بہت زیادہ ہو جاتی کہ جب جدائی کے بعد دوبارہ محبت پیدا ہوتی تو اس وقت تجربہ ہوتا۔ لٰہذا اگر عورت کو روک لینا زیادہ مناسب ہو تو وہ اس سے رجوع کرے اور اسے معروف طریقے سے رکھے اور اگر چھوڑ دینا زیادہ پر مصلحت ہو تو اچھے طریقے سے اسے رخصت کر دے۔
[تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 134/4]
وَلَا تَحِلُّ لَهُ بَعْدَ الثَّالِثَةِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ
البتہ تیسری طلاق کے بعد جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے پہلے کے لیے حلال نہیں ہو گی
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ [البقرة: 230]
” (اگر اسے تیسری بار طلاق دے دے تو اب اس کے لیے حلال نہیں ) جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے۔“
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رفاعہ قرظمی کی بیوی سے کہا کہ تو پہلے شوہر کی طرف اس وقت تک نہیں لوٹ سکتی:
حتـى تـذوفـي عسيلته و يذوق عسيلتك
”جب تک كہ تو اس (یعنی دوسرے شوہر ) سے جماع کا لطف نہ پائے اور وہ تجھ سے لطف اندوز نہ ہو جائے ۔“
[بخارى: 2639 ، كتاب الشهادات: باب شهادة المختبئ ، مسلم: 1433 ، ابو داود: 2309 ، ترمذي: 1118 ، ابن ماجة: 1932]
(جمہور) مطلقہ ثلثہ پہلے خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک کہ وہ عدت گزارنے کے بعد کسی اور سے نکاح نہ کر لے اور پھر وہ اس سے مباشرت نہ کر لے۔
(سعید بن مسیّبؒ ، سعید بن جبیرؒ) مجرد عقدِ نکاح سے ہی وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی۔
[تفسير قرطبي: 147/3 ، تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 146/4]
(راجح) پہلا قول ہی راجح ہے جیسا کہ گذشتہ صحیح حدیث اس پر شاہد ہے۔