سوال:
طلاق رجعی میں رجوع پر کیا دلیل ہے؟
جواب:
جب کوئی اپنی بیوی کو طلاق رجعی دے، وہ پہلی طلاق ہو یا دوسری، اسے رجوع کا حق حاصل ہے۔
﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ﴾
(البقرة: 228)
شوہر رجوع کا زیادہ حق رکھتے ہیں، اگر صلح کا ارادہ ہو۔
﴿لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا﴾
(الطلاق: 1)
شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی صورت پیدا کر دے۔
اہل علم کہتے ہیں کہ اس سے مراد رجوع ہے۔
❀ سیدنا معتقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كانت لي أخت تخطب إلى فأتاني ابن عمي فأنكحتها إياه، ثم طلقها طلاقا له رجعة، ثم تركها حتى انقضت عدتها، فلما خطبت إلى أتاني يخطبها، فقلت: لا، والله لا أنكحها أبدا، قال: ففيها نزلت هذه الآية: ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ﴾ ﴿البقرة: 232﴾ الآية، قال: فكفرت عن يميني فأنكحتها إياه.
میری طرف میری ایک بہن سے نکاح کے لیے پیغام آئے، میرا ایک چچا زاد بھی آیا، میں نے اس سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا، پھر اس نے اسے رجعی طلاق دے دی، پھر اس کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ اس کی عدت پوری ہو گئی، جب میری طرف (دوسرے لوگوں کی طرف سے) نکاح کے پیغام آنے لگے، تو وہ بھی نکاح کا پیغام لے کر آ گیا، میں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں کبھی اپنی بہن کا نکاح تجھ سے نہیں کرے گا۔ میرے بارے میں ہی یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ﴾ ﴿البقرة: 232﴾ پھر میں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اور اسی سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔
(صحيح البخاري: 5130، سنن أبي داود: 2087، واللفظ له، سنن الترمذي: 2981)
❀ امام ابن منذر رحمہ اللہ (319ھ) فرماتے ہیں:
أجمعوا أن الحر إذا طلق زوجته الحرة وكانت مدخولا بها، تطليقة أو تطليقتين، أنه أحق برجعتها حتى تنقضي العدة.
اہل علم کا اجماع ہے کہ جب آزاد آدمی اپنی آزاد بیوی کو ایک یا دو طلاق دے اور وہ بیوی مدخولہ ہو، تو عدت ختم ہونے تک خاوند کو اس سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
(الأوسط: 579/9)