طلاق دینے کا مسنون طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس حافظ صلاح الدین یوسف (مشیروفاقی شرعی عدالت پاکستان) کی کتاب ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل سے ماخوذ ہے۔

مرد کا حق طلاق اور اس کے آداب

مرد و عورت کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم ہو جانے کے بعد اکثر مذاہب میں علیحدگی اور طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے، حالانکہ بعض دفعہ جب دونوں کے مزاجوں میں موافقت اور ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکے تو طلاق اور علیحدگی ہی میں دونوں کی بھلائی ہوتی ہے، اس لیے اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے، تا ہم اس حق کو آخری چارہ کار کے طور پر ہی استعمال کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایک طرف مرد کو حق طلاق دیا ہے تو دوسری طرف اسے ایسی ہدایات بھی دی ہیں جنھیں اختیار کرنے سے عام طور پر طلاق تک نوبت ہی نہیں پہنچتی۔ لیکن عوام کی اکثریت چونکہ اسلامی تعلیمات کا صحیح شعور نہیں رکھتی، اس لیے معمولی تلخیاں بھی طلاق پر منتج ہوتی ہیں۔ بنابریں ضروری ہے کہ مرد حضرات ان ہدایات اور تعلیمات کا بھی صحیح شعور حاصل کریں جو اسلام نے بیوی کے ساتھ نباہ کرنے کے لیے دی اور بتلائی ہیں جو حسب ذیل ہیں :

عورت کے ساتھ نباہ کرنے کا طریقہ :۔

اس سلسلے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں پہلی ہدایت یہ فرمائی :
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ يَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًاسورۃ النساء : 19
اور تم ان عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو، پس اگر تم انھیں نا پسند کرو، تو بہت ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔
یعنی اپنے طور پر تم اپنی بیوی کو بعض وجوہ کی بنا پر نا پسند کرو لیکن اس ناپسندیدگی کے با وجود اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے اولاد صالح عطا فرما دے یا اس کی وجہ سے تمھارے کاروبار میں برکت ڈال دے، دونوں صورتوں میں تمھارے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدگی کے باوجود بیویوں سے حسن معاشرت اور نباہ کرنے کی تاکید فرمائی اور اس بات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے :
لا يفرك مؤمن مؤمنة ، إن كره منها خلقا رضي منها آخر
صحیح مسلم، الرضاع، باب الوصية بالنساء، حديث : 1467
کوئی مومن مرد (شوہر) کسی مومنہ عورت (بیوی) سے بغض نہ رکھے اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے، تو اس کی دوسری عادت پسند بھی ہوگی۔
مطلب یہ ہے کہ محض نا پسندیدگی کی وجہ سے بیوی کو طلاق نہ دو، بلکہ اس کے اندر جو دوسری خوبیاں ہیں انھیں سامنے رکھو۔ ایسا کرنے سے اس کی بعض ناپسندیدہ باتیں تمھارے لیے قابل برداشت ہو جائیں گی۔ بیوی کے ساتھ نباہ کرنے کا یہ کتنا بہترین نسخہ اور طریقہ ہے کیونکہ کوئی کتنا بھی برا ہو، کچھ خوبیاں بھی اس کے اندر ضرور ہوتی ہیں۔ اگر انسان خوبیوں پر نظر زیادہ رکھے، تو کوتاہیوں اور خامیوں کو نظر انداز کرنا آسان ہو جاتا ہے اور یوں معاملہ زیادہ خراب نہیں ہوتا۔ کاش مرد اس ہدایت نبوی کو اپنے سامنے رکھیں۔

عورت کی ایک فطری کمزوری کا لحاظ رکھنے کی ہدایت :۔

ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن المرأة خلقت من ضلع ، لن تستقيم لك على طريقة، فإن استمتعت بها استمتعت بها ، وبها عوج، وإن ذهبت تقيمها كسرتها، وكسرها طلاقها
صحیح مسلم، الرضاع، باب الوصية بالنساء حديث : 1468
عورت پَسلی سے پیدا کی گئی ہے (اس لیے اس میں پہلی ہی کی طرح کجی ہے) وہ تیرے لیے کسی طریقے پر ہرگز سیدھی نہیں رہے گی ، پس اگر تو اس سے (بطور بیوی) فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسی کجی (کے برداشت کرنے) کے ساتھ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اگر تو اسے سیدھا کرنا شروع کر دے گا تو اسے توڑ بیٹھے گا اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔
یہ عورت کے ساتھ نباہ کرنے کی دوسری نبوی ہدایت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے مزاج میں فطری طور پر کچھ کجی (کم عقلی اور ضدی پن) ہے۔ عورت کے اس مزاج کی وجہ سے بعض دفعہ گھر میں تلخی اور تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ جو مرد حوصلہ مند، بردبار، قوت برداشت کا مالک اور عورت کے اس مزاج کو سمجھنے والا ہوتا ہے، وہ بردباری اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کر کے ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس سے تلخی میں اضافہ نہیں ہوتا اور اس طرح وہ حالات پر قابو پا لیتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس کے برعکس اس نازک آبگینے (عورت) کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتے اور اپنے طور پر یہ سوچتے ہیں کہ ہم اس کو سیدھا کر کے چھوڑیں گے تو وہ اس کو سیدھا کرنے میں تو ناکام رہتے ہیں (کیونکہ پیدائشی مزاج اور فطرت کو کوئی نہیں بدل سکتا) البتہ اپنا گھر اجاڑ لیتے ہیں، یعنی معاملہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے اور جلد بازی میں طلاق دینا بھی بے حوصلہ اور بے صبر قسم کے لوگوں ہی کا شیوہ ہے۔

وعظ و نصیحت، بستر سے علیحدگی اور کچھ گوشمالی :۔

مذکورہ ہدایات پر عمل کرنے کے باوجود گھر کا ماحول خوشگوار اور عورت کا برتاؤ صحیح نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ نے مزید تین باتیں اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ وہ تین باتیں حسب ذیل ہیں :
وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا
اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی اور بددماغی سے تم ڈرو، تو انھیں وعظ ونصیحت کرو اور انھیں الگ بستروں میں چھوڑ دو اور انھیں مار کی سزا دو۔ پس اگر وہ تمھاری فرماں برداری اختیار کر لیں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔سورۃ النساء : 34
ان تین چیزوں کو جس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے، یہ حالات و واقعات پر منحصر ہے کہ ان پر عمل اسی ترتیب سے ممکن ہے یا نہیں۔ بظاہر فطری ترتیب یہی ہے۔
◈ جب کوئی ناخوشگوار بات سامنے آتی ہے تو وعظ و نصیحت اور تلقین و ہدایت ہی سے اس کی اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے۔
◈ یہ کوشش کارگر ثابت نہیں ہوتی، تو مرد اپنی خفگی اور ناراضی کا اظہار بالعموم عورت سے میل جول اور بول چال منقطع کر کے ہی کرتا ہے۔
◈ اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر تھوڑی بہت گوشمالی کی اجازت ہے، لیکن ایسی جس سے اس کو کوئی جسمانی تکلیف لاحق نہ ہو۔
لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ترتیب بالکل الٹ جاتی ہے اور گوشمالی کی نوبت پہلے آجاتی ہے۔ بہر حال یہ ترتیب ضروری نہیں ہے، ان ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔
تیسری بات پر عمل کرتے وقت بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ بعض لوگ اس مارنے کی اجازت کو نہایت بھونڈے اور وحشیانہ طریقے سے استعمال کر کے اسلام کو بدنام کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو خوب مارنے پیٹنے کی اور ان پر ظلم کرنے کی اجازت دی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، اسلام میں کسی کے ساتھ بھی ظلم و زیادتی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ عورت تو انسان کی ہم سفر اور اس کی زندگی کی گاڑی کا دوسرا پہیہ ہے۔ اس کے بغیر انسان کی زندگی بے کیف بھی ہے اور پُر مشقت بھی۔ عورت اس کی زندگی میں لطف و سرور بھی پیدا کرتی ہے اور اس کی مشقتوں (گھریلو ذمے داریوں) کا بوجھ بھی اٹھاتی ہے۔ اس کو تھوڑا بہت مارنے کی اجازت کا مطلب صرف اس کی اصلاح ہے، تاکہ زندگی کی گاڑی صحیح طریقے سے رواں دواں رہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر مارنے کی ضرورت پیش آہی جائے تو ایسی ہلکی مار مارو کہ جس سے کوئی نشان نہ پڑے اور اسی طرح چہرے پر بھی نہ مارو۔ سنن أبی داود النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجھا حدیث : 2142

حَكَمَين (دو ثالث) مقرر کرنے کی تلقین :۔

گھر کی چار دیواری کے اندر اپنے طور پر مذکورہ تینوں ہدایات پر عمل کرنے کے باوجود میاں بیوی کے درمیان تلخی اور کشیدگی دور نہ ہو، تو پھر آخری چارہ کار کے طور پر اللہ تعالی نے باہر کے لوگوں کو مداخلت کر کے ان کے درمیان صلح کرانے کا حکم دیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا النساء : 35
اور اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان اختلاف کا ڈر ہو (کہ وہ ختم نہیں ہو رہا) تو ایک ثالث (صلح کرانے والا) مرد والوں کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کے گھر والوں کی طرف سے مقرر کرو۔ اگر یہ دونوں اصلاح کے خواہش مند ہوں گے، تو اللہ ان کے درمیان ہم آہنگی (موافقت) پیدا فرمادے گا۔
ان کی سعی مصالحت کامیاب نہ ہو، تو پھر ان کو قضاء کا اختیار ہو گا تو یہ اس کے مطابق علیحدگی کا فیصلہ کر دیں گے یا یہ حاکم مجاز کو رپورٹ دیں گے، وہ ان کا فیصلہ کر دے گا۔
طلاق دینے سے قبل یہ سارے مراحل اختیار کرنے کی تاکید اسی لیے کی گئی ہے کہ طلاق تک پہنچنے والا اختلاف طلاق کے بغیر ہی حل ہو جائے۔ تاہم اس کے باوجود بھی اگر طلاق کے بغیر چارہ نہ ہو، تو طلاق کے لیے بھی ایسے آداب بتلائے گئے ہیں کہ ان سے طلاق دینے کے بعد بھی صلح و رجوع کے امکانات باقی رہتے ہیں۔ وہ آداب حسب ذیل ہیں :

طلاق دینے کے آداب :۔

اس سلسلے میں پہلی ہدایت یہ ہے کہ طلاق طہر کی حالت میں صحبت کیے بغیر دی جائے۔
قرآن مجید میں ہے :
فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ الطلاق : 1
تم طلاق عدت (کے آغاز) میں دو۔
عدت کے آغاز سے مراد عورت کا حیض سے پاک ہونا ہے، حالت طہر عدت کا آغاز ہے۔
اس پہلی ہدایت ہی کو ملحوظ رکھنے سے طلاق کی شرح بہت کم ہو سکتی ہے۔ عام طور پر غصہ اور اشتعال میں فوراً طلاق دے دی جاتی ہے۔ اگر انسان طلاق دینے کے اس ادب کو ملحوظ رکھے تو ایسے طہر کے انتظار میں، جس میں وہ ہم بستری نہ کر سکے، اس کا غصہ اور اشتعال ختم یا کم ہو جائے گا، اور
صرف وہی شخص طلاق دے گا جس نے طلاق دینے کا قطعی اور حتمی فیصلہ کر رکھا ہوگا۔
دوسرا ادب یہ ہے کہ طلاق صرف ایک ہی دی جائے، بیک وقت تین طلاقیں دینا کسی بھی مسلک کی رو سے صحیح طریقہ نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر سخت ناراضی اور برہمی کا اظہار فرمایا ہے اور اسے کتاب اللہ کے ساتھ تلعب (کھیلنا) قرار دیا ہے۔ سنن النسائي الطلاق، باب الطلاق الثلاث المجموعة وما فيه من التغليظ، حديث: 3430 والمحلى لابن حزم، أحكام الطلاق : 167/10

ایک طلاق کے فوائد :۔

اس ایک طلاق کا فائدہ یہ ہے کہ خاوند کو اگر طلاق کے بعد ندامت اور غلطی کا احساس ہو تو وہ عدت (3 حیض یا 3 مہینے) کے اندر رجوع کر سکتا ہے، عدت گزر جائے تو ان کے درمیان باہمی اتفاق دوبارہ نکاح کے ذریعے سے تعلق قائم ہوسکتا ہے، اس میں کسی بھی مسلک کا اختلاف نہیں ہے۔ دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد بھی اسی طرح عدت کے اندر رجوع اور عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مرد کو زندگی میں دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کرنے کا حق دیا ہے، یعنی ایک مرتبہ وہ طلاق دے کر رجوع کرلے، پھر کچھ عرصے کے بعد دوبارہ طلاق دے کر رجوع کرلے تو ایسا کرنا جائز ہے لیکن اس نے اس طرح کر کے اپنے دونوں حق استعمال کر لیے ہیں۔ اب اگر کسی موقع پر تیسری مرتبہ طلاق دے گا تو اس کے لیے عدت کے اندر رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا ، نہ عدت گزرنے کے بعد اس سے نکاح کرنا جائز۔ تا آنکہ اس کی مطلقہ بیوی کسی اور جگہ اپنی مرضی (اور اولیاء کی اجازت) سے با قاعدہ شادی کر لے، پھر اتفاق سے وہ خاوند فوت ہو جائے یا اپنی مرضی سے طلاق دے دے، تب پہلے خاوند سے اس کا نکاح کرنا جائز ہوگا۔

مروجہ حلالہ قطعا حرام اور نا جائز ہے :۔

پہلے خاوند سے نکاح جائز کرنے کی نیت سے کسی سے مشروط نکاح کرنا، جسے حلالہ کہا جاتا ہے، نکاح نہیں، زنا کاری ہے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے :
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له
جامع الترمذي، النكاح، باب ماجاء في المحل والمحلل له حديث : 1120 وسنن النسائي، الطلاق، باب إحلال المطلقة ثلاثا …… حديث: 3445 وسنن ابن ماجه، النكاح، باب المحلل والمحلل له حديث : 1934 1935 و اللفظ له
حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے ، دونوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
جس کام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت اور بددعا فرمائیں، وہ کام کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اس لیے مروجہ حلالہ لعنتی فعل ہے، اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔
بہر حال بیک وقت تین طلاقیں دینے کی بجائے ، ایک طلاق دینا ہی طلاق کا احسن طریقہ ہے۔ اس طریقہ طلاق سے وہ خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں جو بیک وقت تین طلاقیں دینے سے پیدا ہوتی ہیں اور نہ علماء کے درمیان کوئی اختلاف ہی پیدا ہوتا ہے اور نہ حلالہ مروجہ کی ضرورت ہی پیش آتی ہے جو لعنتی فعل ہے۔ علاوہ ازیں اس سے طلاق کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ طلاق دینے کے بعد اگر رجوع نہ کیا جائے حتی کہ تین حیض گزر جائیں تو طلاق مؤثر ہو جاتی ہے اور عورت کا تعلق پہلے خاوند سے ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد وہ جہاں چاہے، نکاح کر سکتی ہے۔
تیسرا ادب طلاق کا یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد (پہلی اور دوسری طلاق میں) عورت کو گھر سے نہ نکالا جائے، نہ وہ خود گھر سے نکلے بلکہ وہ خاوند ہی کے گھر میں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ سورۃ الطلاق : 1
(طلاق دینے کے بعد) ان عورتوں کو گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔
اس کی حکمت خود اللہ تعالیٰ نے یہ بتلائی ہے :
لا تدري لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا سورۃ الطلاق : 1
تم نہیں جانتے ، شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کر دے، اس کے گھر ہی میں رہنے کی وجہ سے اسے اس پر ترس آجائے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ اسی لیے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت میں اللہ نے صرف ایک طلاق دینے کی تلقین کی ہے اور بیک وقت تین طلاقیں دینے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اگر وہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دے اور شریعت اسے جائز قرار دے کر نافذ بھی کر دے تو پھر یہ کہنا بے فائدہ ہے کہ شاید اللہ کوئی نئی بات پیدا کر دے۔فتح القدير للإمام الشوكاني: 288/5
ہمارے معاشرے میں اس ہدایت کی بھی کوئی پروا نہیں کی جاتی اور مرد کے طلاق دیتے ہی عورت کو اس کے والدین یا بہن بھائی وغیرہ لے جاتے ہیں اور عورت کو خاوند کے گھر میں رہنے ہی نہیں دیتے، حالانکہ طلاق بائن (طلاق بائنہ ، یعنی تیسری طلاق) کے بعد تو ایسا کرنا صحیح ہے کیونکہ اس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق ہی نہیں ہے لیکن پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ایسا کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے، اس لیے اس کے گھر میں رہنے سے صلح و مفاہمت کا امکان موجود رہتا ہے، اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
ایک چوتھا ادب یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ طلاق دینے کے بعد رجوع نہ ہو سکے تو مطلقہ عورت کو اچھے طریقے سے رخصت کیا جائے۔ اور او تسريح باحسان کا مطلب یہی ہے۔ سورۃ البقرہ : 241
علاوہ ازیں اس موقع پر انھیں کوئی ہدیہ یا تحفہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا :
وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدْرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ البقرہ : 236
اور ان (مطلقہ) عورتوں کو فائدہ پہنچاؤ! خوش حال پر اس کی طاقت کے مطابق (فائدہ پہنچانا) ہے اور تنگ دست پر اس کی طاقت کے مطابق، دستور کے مطابق فائدہ پہنچانا ہے، یہ احسان کرنے والوں کے لیے ضروری ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ البقرہ : 241
اور مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق فائدہ پہنچانا ہے، یہ پرہیز گاروں کے لیے ضروری ہے۔
اس متاع (فائدے) کی بابت بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد خادم یا 500 درہم یا ایک یا چند سوٹ وغیرہ ہیں لیکن یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے، شریعت میں ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق متاع دینے کا اختیار اور حکم ہے۔ علاوہ ازیں یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا چاہیے۔ قرآن کریم کی مذکورہ دوسری آیت سے عموم ہی معلوم ہوتا ہے۔
اس حکم متاع میں جو حکمت اور فوائد ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ تلخی ، کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر جو طلاق کا سبب ہوتا ہے، احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام کرنا، مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سد باب کا نہایت اہم ذریعہ ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان وسلوک کی بجائے ، مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر قرآنی حکم کے مطابق تفریق کے اس موقع پر حسن سلوک اور تطبیب قلوب (دلجوئی) کا اہتمام کیا جائے تو اس کے بے شمار معاشرتی فوائد ہیں۔ کاش! مسلمان اس نہایت ہی اہم نصیحت پر عمل کریں جسے انھوں نے فراموش کر رکھا ہے۔
آج کل کے بعض مجتہدین نے متاعٌ اور مَتَّعُوهُنَّ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مطلقہ عورت کو اپنی جائیداد میں سے با قاعدہ حصہ دو یا عمر بھر نان ونفقہ دیتے رہو۔ یہ دونوں باتیں بے بنیاد ہیں، بھلا جس عورت کو مرد نے نہایت نا پسندیدہ سمجھ کر اپنی زندگی ہی سے خارج کر دیا، وہ ساری عمر کس طرح اس کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے تیار ہو گا؟ یا اپنی جائیداد میں سے
اسے حصہ دے گا ؟

بیک وقت تین طلاقیں دینے کے نقصانات :۔

◈ بیک وقت تین طلاقیں دینا، ایک تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور قرآن کریم کے خلاف ہے، گویا اس میں قرآن وسنت سے صریح انحراف ہے۔
◈ اسے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے تلعب بكتاب الله (اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل، مذاق) قرار دیا ہے اور اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل مذاق بھی کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
◈ اسے فقہی مذاہب کو اہمیت دینے والے تین ہی شمار کر لیتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی وہ حکمت اور منشا فوت ہو جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلی اور دوسری طلاق میں رکھی ہے کہ انسان اس میں طلاق دینے کے بعد آنے والی مشکلات پر سوچ بچار کر لے۔ اگر وہ محسوس کرے کہ طلاق سے اس کی پیچیدگیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے تو وہ مذکورہ دونوں بتلائی ہوئی طلاقوں میں عدت کے اندر رجوع اور عدت گزر جانے کے بعد اپنی مطلقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔
◈ بیک وقت تین طلاقوں کے نفاذ سے صلح و مفاہمت کے تمام امکانات ختم ہو جاتے ہیں جس سے خاندان اجڑ جاتے ہیں اور معصوم بچے بے سہارا ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں تمام فقہی مذاہب والوں کے نزدیک بھی جائز نہیں (گو وہ اس کے اجراء و نفاذ کے قائل ہیں) حتی کہ اکتوبر 2001 ء کے اخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش بھی شائع ہوئی ہے کہ بیک وقت تین طلاقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ یہ ایک اچھی تجویز ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ان مجموعی طلاقوں کو جبکہ طلاق دینے والے کی نیت صرف ایک طلاق دینا ہی ہو اور تین کا لفظ اس نے تاکید کے طور پر استعمال کیا ہو، اسے ایک ہی طلاق شمار کیا جائے ، تو اس قانون سے عوام کو فوری سہارا (Relief) ملے گا، عوام کو فوری سہارے کی ضرورت ہے نہ کہ تعزیر (سزا) کی ، موجودہ حالات اور عوام کی جہالت کے پیش نظر ہمارے اس نقطۂ نظر کی بہت سے علمائے احناف نے بھی تائید کی ہے جس کی ضروری تفصیل آپ اس کتاب میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

طلاق مرد کا حق ہے :۔

طلاق کے مذکورہ آداب اور انھیں نظر انداز کرنے کے نقصانات تو ضمنی طور پر اس لیے بیان کیے گئے ہیں تاکہ مرد اپنا یہ حق صحیح طریقے سے استعمال کریں اور اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے اسلام کی بدنامی کا باعث نہ بنیں کیونکہ اسلام نے انھیں یہ حق اس لیے نہیں دیا کہ وہ اس کے ذریعے سے عورتوں پر ظلم کریں یا اسلام کو بد نام کریں۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو یہ حق دے کر ان کی فوقیت و برتری کا اثبات کیا ہے، انھیں اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنا چاہیے، نہ کہ وہ اس استحقاق کی نفی کریں۔

عورت کو اللہ نے طلاق کا حق نہیں دیا :۔

عورت کو اللہ نے یہ حق نہیں دیا کہ وہ مرد کو جب چاہے طلاق دے کر مرد سے علیحدہ ہو جائے ، اس لیے کہ عورت مرد کے مقابلے میں جسمانی اعتبار سے بھی کمزور ہے اور ذہنی و دماغی کیفیتوں میں بھی کم تر۔ جسمانی کمزوری کی وجہ سے اس کے اندر صبر و ضبط کی کمی ہے اور دماغی صلاحیتوں میں تفاوت کی وجہ سے اس کے اندر سوچنے سمجھنے کی استعداد بھی کم ہے اور ان دونوں کمزوریوں کی وجہ سے اس کے فیصلے میں عجلت اور جذباتیت کا اثر غالب رہتا ہے، اگر عورت کو بھی طلاق کا حق مل جاتا تو وہ اپنا یہ حق نہایت جلد بازی یا جذبات میں آکر استعمال کر لیا کرتی اور اپنے پیروں پر آپ کلہاڑا مار لیا کرتی ، اس سے معاشرتی زندگی میں جو فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا، اس کا تصور ہی نہایت روح فرسا ہے، اس کا اندازہ آپ مغرب اور یورپ کی ان معاشرتی رپورٹوں سے لگا سکتے ہیں جو وہاں عورتوں کو حق طلاق مل جانے کے بعد مرتب اور شائع ہوئی ہیں۔
ان رپورٹوں کے مطالعے سے اسلامی تعلیمات کی حقانیت کا اور عورت کی اس کمزوری کا اثبات ہوتا ہے جس کی بنا پر مرد کو تو حق طلاق دیا گیا ہے لیکن عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ عورت کی جس زود رنجی، سریع الغضبی، ناشکرے پن اور جذباتی ہونے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، حدیث سے بھی اس کا اثبات ہوتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ورأيت النار فإذا أكثر أهلها النساء يكفرن، قيل : أيكفرن بالله؟ قال : يكفرن العشير ، ويكفرن الإحسان، لو أحسنت إلى إحداهن الدهر ثم رأت منك شيئا قالت : ما رأيت منك خيرا قط
صحيح البخاري، الإيمان، باب کفران العشير و كفر دون كفر، حدیث: 29
میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی ، (اس کی وجہ یہ ہے کہ) وہ ناشکری کا ارتکاب کرتی ہیں۔ پوچھا گیا : کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) وہ خاوند کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ایک عورت کے ساتھ احسان کرتے رہو، پھر وہ تمھاری طرف سے کوئی ایسی چیز دیکھ لے جو اسے ناگوار ہو تو وہ فورا کہ اٹھے گی کہ میں نے تیرے ہاں کبھی سکھ دیکھا ہی نہیں۔
جب ایک عورت کی افتاد طبع اور مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ عمر بھر کے احسان کو مرد کی کسی ایک ناگوار بات پر فراموش کر دیتی ہے تو اسے اگر حق طلاق مل جاتا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس آسانی کے ساتھ وہ اپنا گھر اجاڑ لیا کرتی۔ اور عورت کے اس مزاج کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمایا بلکہ دانش وران مغرب اور ان کے مفکرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔ بہر حال عورت کی یہی وہ کمزوری ہے جس کی وجہ سے اللہ نے مرد کو تو حق طلاق دیا ہے لیکن عورت کو نہیں دیا، اس لیے کہ اس میں عورت ہی کا مفاد ہے۔ عورت کا مفاد ایک مرد سے وابستہ اور اس کا رفیقہ حیات بن کر رہنے ہی میں ہے، نہ کہ گھر اجاڑنے میں۔ اور عورت کے اس مفاد کو عورت کے مقابلے میں مرد ہی صبر وضبط اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کر کے زیادہ ملحوظ رکھتا اور رکھ سکتا ہے۔ بنابریں اسلام کا یہ حکم بھی عورت کے مفاد ہی میں ہے، گو آج کی عورت گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار ہوکر اسے اپنے پر ظلم تصور کرے۔ لیکن اللہ ارحم الراحمین نے اس قانون طلاق کے ذریعے سے اس پر اس کی فطری کمزوری کو ملحوظ رکھتے ہوئے، رحم ہی فرمایا ہے، اس پر ظلم نہیں کیا ، چنانچہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِحم السجدہ : 46
اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
اس کی مزید تفصیل و تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، الطاف احمد اعظمی صاحب کا مضمون ”اسلام کا قانون طلاق“ جو اس کتاب میں شامل ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے