طلاقِ ثلاثہ کا شرعی حکم: رابعہ بی بی کے کیس پر تفصیلی فتویٰ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1، ص790

سوال

یہ دریافت پیش خدمت ہے کہ میں عبدالعزیز ولد فولا قوم گجر، محلہ دھوپ سڑی 240 موڑ، جڑانوالہ ضلع فیصل آباد کا رہائشی ہوں۔ مجھے ایک شرعی مسئلہ درپیش ہے جو ذیل میں پیش کرتا ہوں:

میری حقیقی بھانجی، مسمات رابعہ بی بی کا نکاح مسمیٰ سردار ولد رحمہ قوم گجر، چک نمبر 86 شمالی تحصیل و ضلع سرگودھا سے تقریباً چودہ سال قبل انجام پایا۔ نکاح کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہ کر حقوقِ زوجیت ادا کرتی رہی۔

تاہم بعد ازاں دونوں کے درمیان ناچاقی پیدا ہو گئی کیونکہ سردار ولد رحمہ آوارہ مزاج شخص تھا اور اکثر جھگڑا و بدتمیزی کرتا رہتا تھا۔ میری بھانجی رابعہ بی بی اس کے ہاں نہایت تنگ دستی اور تکلیف کے ایام گزارتی رہی۔ آخرکار سردار ولد رحمہ نے اسے مار پیٹ کر اور یہ کہتے ہوئے کہ "تو مجھ پر حرام ہے”، زبانی طور پر تین مرتبہ طلاق، طلاق، طلاق کہہ کر گھر سے نکال دیا۔

یہ واقعہ تقریباً دس سال قبل پیش آیا۔ میں، سائل عبدالعزیز (حقیقی ماموں مسمات رابعہ بی بی)، اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اس بیان کو سچ جانتا ہوں۔ اگر اس میں کوئی غلط بیانی ہو تو اس کی ذمہ داری مجھ پر ہوگی۔

تصدیق:
ہم اس سوال کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں کہ یہ مکمل طور پر درست اور سچائی پر مبنی ہے۔ اگر یہ غلط ثابت ہو تو ہم خود شرعاً ذمہ دار ہوں گے۔
تصدیق کنندگان:

  • محمد ولد نتھا، قوم گجر، چک نمبر 86، تحصیل و ضلع سرگودھا
  • غلام محمد ولد عبداللہ، قوم گجر، چک نمبر 86 شمالی، تحصیل و ضلع سرگودھا

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورتِ مسؤلہ میں — بشرط صحت سوال — بلا شک و شبہ طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اس معاملے میں علمائے اہل حدیث اور علمائے احناف کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔

البتہ اختلاف اس بات میں ہے کہ:

  • علمائے احناف کے نزدیک اگر تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو تینوں واقع ہو جاتی ہیں اور اس صورت میں طلاق مغلظہ بائنہ شمار ہوتی ہے۔ یعنی بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح ممکن نہیں۔
  • جبکہ علمائے اہل حدیث اور محققین علمائے شریعت کے نزدیک اکٹھی دی گئی تین طلاقیں شرعاً ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہیں، اور عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق حاصل رہتا ہے۔ عدت گزر جانے کے بعد بغیر حلالہ دوبارہ نکاح ثانی کی اجازت ہے۔

تاہم، زیرِ نظر مسئلہ میں طلاق واقع ہوچکی ہے، اس پر اتفاق ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ… ٢٢٩﴾ …البقرة
(رجعی) طلاقیں دو تک ہیں، پھر (اختیار یہ ہے کہ) بھلائی سے بیوی کو روک لیا جائے یا اچھی طرح رخصت کر دیا جائے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"أی إذا طلقتھا واحدۃ او اثنتین فانت مخیر فیھا مادامت عدتھا باقیة بین ان تردھا الیک ناویا لاصلاح بھا والاحسان الیھا وبین ان تترکھا حتیٰ تنقضی عدتھا فتبین منک.”
(تفسیر ابن کثیر، ج1، ص272)

یعنی اگر شوہر نے بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو عدت کے دوران اسے اختیار ہے کہ وہ بیوی کی بھلائی اور اصلاح کے ارادے سے رجوع کرے، یا پھر اسے عدت پوری ہونے دے تاکہ وہ جدا ہو جائے۔

اس آیتِ کریمہ اور تفسیر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عدت گزر جانے پر نکاح ختم ہو جاتا ہے، خواہ طلاق پہلی ہو یا دوسری۔

اللہ تعالیٰ کا مزید فرمان ہے:

﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ … ٢٢٨﴾ …البقرة
’’اور مطلقہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو ٹھہرائے رکھیں۔‘‘

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"هَذَا الْأَمْرُ مِنَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لِلْمُطَلَّقَاتِ الْمَدْخُولِ بِهِنَّ مِنْ ذَوَاتِ الْأَقْرَاءِ، بِأَنْ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ، أَيْ: بِأَنْ تَمْكُثَ إِحْدَاهُنَّ بَعْدَ طَلَاقِ زَوْجِهَا لَهَا ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ؛ ثُمَّ تَتَزَوَّجَ إِنَّ شَاءَتْ”
(تفسير ابن كثير، ج1، ص299)

یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ طلاق یافتہ عورت تین حیض گزرنے تک کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عدت گزرنے کے بعد نکاح ختم ہو جاتا ہے۔

زبانی طلاق کا حکم

اگر طلاق زبانی طور پر دی گئی ہو، تو بھی وہ شرعاً واقع ہو جاتی ہے۔ اس پر محدثین و احناف کا بھی اتفاق ہے۔

شیخ نذیر حسین محدث دہلوی فرماتے ہیں:

"واضح ہو کہ جب شوہر شریعت کے مطابق اپنی زوجہ کو طلاق دے گا، زبانی دے یا تحریری، تو طلاق بہرحال واقع ہو جائے گی۔ طلاق کے واقع ہونے کے لیے زوجہ کی منظوری ضروری نہیں۔”
(فتاویٰ نذیریہ، ج3، ص73)

اسی طرح مفتی محمد شفیع دیوبندی بھی زبانی طلاق کے وقوع کے قائل ہیں:
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج2، ص658)

حتمی فیصلہ

صورتِ مسؤلہ میں بشرط صحتِ سوال:

  • اہل حدیث کے نزدیک یہ ایک رجعی طلاق واقع ہوئی۔
  • احناف کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔

تاہم چونکہ سردار ولد رحمہ نے اپنی بیوی مسمات رابعہ بی بی کو دس سال قبل طلاق دی تھی، لہٰذا عدت گزر جانے کے بعد نکاح ختم ہو چکا ہے۔

اس بنا پر رابعہ بی بی کو شرعاً دوبارہ نکاح کرنے کی اجازت ہے، اور مفتی کسی قانونی ذمہ داری کا پابند نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے