طائفۂ منصورہ اور فرقۂ ناجیہ: اہلِ حدیث کا منہج، اصولِ دعوت اور قرآنی دلائل
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات انہوں نے رسول اکرم ﷺ کی عبادت کا بغور مشاہدہ کیا، یہاں تک کہ فجر ہو گئی۔ آپ ﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی، سلام پھیرنے کے بعد حضرت خباب رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کیا:

((یَا رَسُولَ اللّٰہ! بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْ، لَقَدْ صَلَّیْتَ اللَّیْلَۃَ صَلَاۃً مَا رَأَیْتُکَ صَلَّیْتَ نَحْوَہَا))

’’اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آج رات آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ اس سے پہلے میں نے آپ کو ایسی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔‘‘

(مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ساری رات نماز پڑھتے رہے)

تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَجَلْ إِنَّہَا صَلَاۃُ رَغَبٍ وَرَہَبٍ))

’’ہاں، یہ ایسی نماز تھی جس میں اللہ سے امید بھی تھی اور خوف بھی۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے فرمایا:

((سَأَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فِیْہَا ثَلَاثَ خِصَالٍ، فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ، وَمَنَعَنِیْ وَاحِدَۃً))

’’میں نے اس نماز میں اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں، اس نے مجھے دو دے دیں اور ایک نہیں دی۔‘‘

❀ پہلی دعا:
((سَأَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ أَن لَّا یُہْلِکَنَا بِمَا أَہْلَکَ بِہِ الْأُمَمَ قَبْلَنَا، فَأَعْطَانِیْہَا))

’’میں نے دعا کی کہ میری امت کو اس طرح ہلاک نہ کیا جائے جیسے پچھلی امتیں ہلاک کی گئیں، تو اللہ نے یہ دعا قبول فرما لی۔‘‘

❀ دوسری دعا:
((وَسَأَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ أَن لَّا یُظْہِرَ عَلَیْنَا عَدُوًّا مِّنْ غَیْرِنَا، فَأَعْطَانِیْہَا))

’’میں نے دعا کی کہ ہماری امت پر کوئی بیرونی دشمن مکمل غلبہ حاصل نہ کرے، تو یہ دعا بھی قبول کر لی گئی۔‘‘

❀ تیسری دعا:
((وَسَأَلْتُ رَبِّیْ أَنْ لَّا یَلْبِسَنَا شِیَعًا، فَمَنَعَنِیْہَا))
(سنن النسائی: 1638، مسند احمد: 21091)

’’اور میں نے دعا کی کہ ہماری امت گروہوں میں تقسیم نہ ہو، تو اللہ نے یہ دعا قبول نہیں کی۔‘‘

اسی مضمون کی تائید حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دعائیں مانگیں، دو قبول ہوئیں اور ایک رد کر دی گئی:

((وَسَأَلْتُہُ أَن لَّا یَجْعَلَ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ، فَمَنَعَنِیْہَا))
(صحیح مسلم: 2890)

’’میں نے دعا کی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے، تو یہ دعا قبول نہیں کی گئی۔‘‘

اختلاف اور فرقہ بندی: نبوی پیشین گوئی

ان دونوں احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس امت میں اختلاف، گروہ بندی اور باہمی نزاع ہونا اللہ کی مشیت میں شامل ہے۔ اسی حقیقت کی طرف رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی اشارہ فرما دیا تھا:

((فَإِنَّہُ مَن یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا))
(سنن ابی داود: 4609، سنن ابن ماجہ: 43)

’’تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا، وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔‘‘

چنانچہ تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد امت میں اختلافات نے جنم لیا، جو رفتہ رفتہ شدید اختلاف، پھر نزاع اور جنگ کی صورت اختیار کر گئے، اور آج امتِ مسلمہ کی حالت انہی احادیث کی عملی تصویر بن چکی ہے۔

طائفہ منصورہ: حق پر قائم گروہ

اگرچہ اختلاف امت کی تقدیر میں ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ خوشخبری بھی دی کہ ہر دور میں ایک گروہ حق پر قائم رہے گا:

((لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ أُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ، لَا یَضُرُّہُمْ مَّنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰی یَأْتِیَ أَمْرُ اللّٰہِ))
(صحیح مسلم: 1920)

’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والے انہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘

امام ابن المبارک، امام احمد بن حنبل، امام علی بن المدینی اور امام بخاری رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اصحاب الحدیث ہیں۔ بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے:

((إِن لَّمْ یَکُونُوا أَہْلَ الْحَدِیْثِ فَلَا أَدْرِیْ مَنْ ہُمْ؟))

"اگر یہ لوگ اہلِ حدیث نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ اہلِ حدیث کون ہیں؟”

فرقۂ ناجیہ کون سا ہے؟

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں فرقہ بندی کی خبر دیتے ہوئے واضح طور پر یہ بھی بیان فرمایا کہ نجات پانے والا گروہ کون سا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

((إِنَّ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً، کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا وَاحِدَۃً))

’’بنی اسرائیل بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے تھے، اور میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے ایک کے سوا سب جہنم میں ہوں گے۔‘‘

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! وہ نجات پانے والا گروہ کون سا ہوگا؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی))

’’وہ (گروہ) جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘

ایک روایت میں فرمایا:

((وَہِیَ الْجَمَاعَۃُ))

"اور وہی جماعت ہے۔”

(سنن الترمذی: 2641، سنن ابی داود: 4597، سنن ابن ماجہ: 3993، حسنہ الألبانی)

ان احادیث سے یہ بات قطعی طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ فرقۂ ناجیہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے منہج پر قائم ہو۔

اہلِ حدیث ہی طائفہ منصورہ کیوں؟

یہ ایک تاریخی اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں کوئی فقہی مسلک یا گروہی تقسیم موجود نہ تھی۔ اس وقت صرف ایک ہی معیار تھا: قرآن اور سنت۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم:

  • قرآن و سنت کے پابند تھے
  • کسی تیسرے ماخذ کو واجب الاتباع نہیں مانتے تھے
  • ہر مسئلے میں دلیل کو بنیاد بناتے تھے

آج اگر کوئی جماعت اسی منہج پر قائم ہے تو وہ جماعت اہلِ حدیث ہے، جو:

  • قرآن و سنت کو ہی دین کا اصل ماخذ مانتی ہے
  • صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کو معیار سمجھتی ہے
  • کسی امام یا مسلک کی اندھی تقلید کو لازم نہیں سمجھتی

اسی لیے اہلِ حدیث حضرات کو بجا طور پر طائفہ منصورہ اور فرقۂ ناجیہ کہا جاتا ہے، جو ہر دور میں حق پر قائم رہا ہے اور قیامت تک رہے گا، ان شاء اللہ۔

اہلِ حدیث کے بارے میں پھیلائے گئے اعتراضات

پہلا اعتراض: یہ نیا ٹولہ ہے

یہ اعتراض حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔
اہلِ حدیث کوئی نیا گروہ نہیں، بلکہ یہ وہی منہج ہے جو:

  • صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا
  • تابعین اور تبع تابعین کا تھا

سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ﴾
(التوبہ 9:100)

ترجمہ:
’’اور سب سے پہلے ایمان لانے والے مہاجرین و انصار اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کریں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔‘‘

اہلِ حدیث حضرات ہی وہ لوگ ہیں جو مہاجرین و انصار کی احسان کے ساتھ پیروی کرتے ہیں۔

دوسرا اعتراض: اہلِ حدیث انتہا پسند ہیں

یہ الزام بھی بے بنیاد ہے۔
اہلِ حدیث:

  • اعتدال پسند ہیں
  • حکمت اور نرمی کے قائل ہیں
  • تشدد اور انتہا پسندی سے بری ہیں

ان کا دعوتی منہج قرآن کے اس حکم پر مبنی ہے:

﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ﴾
(النحل 16:125)

ترجمہ:
’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے۔‘‘

تیسرا اعتراض: اہلِ حدیث ائمہ کے دشمن ہیں

یہ بھی سراسر بہتان ہے۔
اہلِ حدیث:

  • تمام ائمۂ دین رحمہم اللہ کا احترام کرتے ہیں
  • انہیں سلف صالحین مانتے ہیں
  • مگر ان کی اندھی تقلید کو واجب نہیں سمجھتے

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ائمۂ اربعہ کے اصل منہج کے سب سے زیادہ قریب اہلِ حدیث ہی ہیں، کیونکہ خود ائمۂ کرام رحمہم اللہ نے قرآن و سنت کی پیروی کا حکم دیا تھا۔

دعوتِ اہلِ حدیث اور منہجِ سلف کا پہلا اصول

دین کی بنیاد دو اصولوں پر ہے:

  • اخلاص: ہر عبادت اور ہر عمل صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو۔
  • متابعت: ہر عبادت اور عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ﴾
(البقرۃ 2:112)

ترجمہ:
’’جو شخص اپنا چہرہ اللہ کے تابع کر دے اور نیکی کرنے والا ہو تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔‘‘

﴿اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ﴾ → اخلاص
﴿وَھُوَ مُحْسِنٌ﴾ → سنت کی اتباع

لوگ اخلاص و متابعت کے اعتبار سے چار قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں:

➊ اخلاص ۔ متابعت

➋ نہ اخلاص نہ متابعت

➌ اخلاص مگر متابعت نہیں

➍ متابعت مگر اخلاص نہیں

دعوتِ اہلِ حدیث اور منہجِ سلف کے مزید اصول و ضوابط

شریعت، عبادت اور دعوت کا ماخذ صرف قرآن و سنت ہیں

اہلِ حدیث اور منہجِ سلف کا یہ بنیادی اصول ہے کہ دین کے تمام مسائل، عبادات کے طریقے اور دعوتی اسالیب صرف دو ہی سرچشموں سے لئے جائیں گے:

➊ قرآن مجید

➋ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾
(آل عمران 3:132)

ترجمہ:
’’اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

اسی طرح فرمایا:

﴿اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ﴾
(الاعراف 7:3)

ترجمہ:
’’تم اسی چیز کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے اور اس کے سوا کسی اور کی پیروی نہ کرو۔‘‘

یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام جاننے کا واحد ذریعہ قرآن و حدیث ہیں، اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں۔

قرآن کو سنت کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں

قرآن مجید کی صحیح تشریح اور عملی توضیح سنتِ نبوی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ﴾
(النحل 16:44)

ترجمہ:
’’اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس چیز کو کھول کر بیان کریں جو ان کی طرف اتاری گئی ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:

  • نماز کے طریقے کو
  • روزے کے مسائل کو
  • زکوٰۃ اور حج کے احکام کو

اپنے اقوال اور افعال کے ذریعے واضح فرمایا، جسے ہم سنت کہتے ہیں۔ اگر سنت نہ ہوتی تو قرآن کے بے شمار احکام ناقابلِ فہم رہ جاتے۔

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ﴾
(آل عمران 3:164)

ترجمہ:
’’اور وہ انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔‘‘

یہاں حکمت سے مراد سنتِ نبوی ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ))
(صحیح الجامع: 2937)

ترجمہ:
’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم انہیں مضبوطی سے تھام لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔‘‘

قرآن و سنت کو صحابۂ کرام کے فہم کے مطابق سمجھنا

اہلِ حدیث کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ:

قرآن و حدیث کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کے مطابق سمجھا جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ﴾
(التوبہ 9:100)

ترجمہ:
’’سب سے پہلے ایمان لانے والے مہاجرین و انصار اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کریں۔‘‘

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا فہم اور طرزِ عمل اللہ کے نزدیک معیار ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو دوسروں کے لیے معیار قرار دیا:

﴿فَاِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوْا﴾
(البقرۃ 2:137)

ترجمہ:
’’اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو ہدایت پا جائیں گے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُولَ… وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ﴾
(النساء 4:115)

ترجمہ:
’’جو رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر چلے، ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے اور جہنم میں داخل کریں گے۔‘‘

یہاں مومنوں کے راستے سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ ہے۔

توحیدِ الوہیت دعوت کا سب سے پہلا رکن

تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا آغاز توحیدِ الوہیت سے ہوا:

﴿اُعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ إِلٰہٍ غَیْرُہٗ﴾

"اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔”

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا:

((قُوْلُوْا لَا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا))

ترجمہ:
’’لا الٰہ الا اللہ کہو، کامیاب ہو جاؤ گے۔‘‘

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت فرمایا:

((فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوْہُمْ إِلَیْہِ عِبَادَۃُ اللّٰہِ))
(صحیح البخاری: 1458، صحیح مسلم: 19)

ترجمہ:
’’سب سے پہلے انہیں صرف اللہ کی عبادت کی دعوت دینا۔‘‘

توحیدِ ربوبیت کو مشرکین مکہ بھی مانتے تھے، اصل اختلاف توحیدِ الوہیت میں تھا، اور آج بھی یہی اصل مسئلہ ہے۔

دعوتِ اہلِ حدیث اور منہجِ سلف کے مزید اصول

پورے دین پر عمل اور پورے دین کی طرف دعوت

اسلام کسی ایک شعبے کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے، لہٰذا دین کے کسی حصے کو اپنانا اور کسی حصے کو چھوڑ دینا درست نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ﴾
(البقرۃ 2:208)

ترجمہ:
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔‘‘

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ:

  • عقائد
  • عبادات
  • معاملات
  • اخلاق
  • معاشرت
  • سیاست و معیشت

ہر شعبے میں اسلام کی تعلیمات پر عمل بھی ضروری ہے اور ان سب کی طرف دعوت دینا بھی ضروری ہے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ توحیدِ الوہیت کو ترجیح دینا اس بات کا نام نہیں کہ دین کے باقی احکام کو چھوڑ دیا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت میں ترتیب اور ترجیحات کو ملحوظ رکھا جائے۔

قرآن و سنت کے مقابلے میں آراء اور مسلک کو پیش کرنا حرام ہے

مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا﴾
(النور 24:51)

ترجمہ:
’’مومنوں کی بات تو یہی ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تو کہتے ہیں: ہم نے سنا اور اطاعت کی۔‘‘

اور فرمایا:

﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ﴾

"پس نہیں، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔”

(النساء 4:65)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ اس اصول کو واضح کرتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم، رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی کی رائے کو قبول کرنے پر سخت ناراضی ظاہر کرتے تھے، حتیٰ کہ شیخین رضی اللہ عنہما کی رائے کو بھی حدیث کے مقابلے میں پیش کرنے سے روکتے تھے۔

اسی طرح خود ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ نے بھی اس بات سے منع کیا کہ ان کی آراء کو قرآن و سنت پر ترجیح دی جائے:

❀ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ:
(لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ یَّأْخُذَ بِقَوْلِنَا مَا لَمْ یَعْلَمْ مِنْ أَیْنَ أَخَذْنَاہُ)

"کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ ہمارے قول کو اختیار کرے، جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ہے۔”

❀ امام مالک رحمہ اللہ:
(کُلُّ مَا وَافَقَ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ فَخُذُوہُ وَمَا لَمْ یُوَافِقْ فَاتْرُکُوہُ)

"جو بات کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے لے لو، اور جو اس کے مطابق نہ ہو اسے چھوڑ دو۔”

❀ امام شافعی رحمہ اللہ:
(إِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَہُوَ مَذْہَبِی)

"جب حدیث صحیح ہو جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔”

❀ امام احمد رحمہ اللہ:
(لَا تُقَلِّدْنِی… وَخُذْ مِنْ حَیْثُ أَخَذُوْا)

"میری تقلید نہ کرو… بلکہ وہیں سے لو جہاں سے انہوں نے لیا ہے۔”

دین میں نئے کام ایجاد کرنا حرام ہے

اللہ تعالیٰ نے دین کو مکمل فرما دیا:

﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾

"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔”

(المائدۃ 5:3)

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

((کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ))

"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
(صحیح مسلم: 867)

اور فرمایا:

((مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))

"جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔”

(صحیح البخاری: 2697، صحیح مسلم: 1718)

لہٰذا دین میں ہر نیا طریقہ، خواہ نیت کتنی ہی اچھی ہو، ناقابلِ قبول ہے۔

برحق راستہ ایک ہی ہے

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ﴾

"اور بے شک یہی میرا سیدھا راستہ ہے، پس اسی کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو۔”

(الأنعام 6:153)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا:

((ھٰذَا صِرَاطُ اللّٰہِ مُسْتَقِیْمًا))

"یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔”

اور دائیں بائیں لکیریں کھینچ کر فرمایا:

((وَھٰذِہِ السُّبُلُ عَلٰی کُلِّ سَبِیْلٍ مِّنْھَا شَیْطَانٌ))

"اور یہ (دوسرے) راستے ہیں، ان میں سے ہر راستے پر ایک شیطان ہے۔”

حق کا معیار اکثریت نہیں بلکہ دلیل ہے

قرآن مجید میں بار بار بتایا گیا کہ اکثریت:

  • نہیں جانتی
  • نہیں سمجھتی
  • ظن و گمان پر چلتی ہے

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾

"اور اگر تم زمین میں رہنے والوں کی اکثریت کی بات مان لو گے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔”

(الأنعام 6:116)

حق ہمیشہ دلائل کے ساتھ پہچانا جاتا ہے، نہ کہ تعداد کے ساتھ۔

⑪ ضعیف اور موضوع احادیث سے بچنا

نبی کریم ﷺ نے جھوٹی احادیث بیان کرنے والوں کے بارے میں سخت وعید سنائی:

((مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ))

"جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔”

(صحیح مسلم: مقدمہ)

اسی لیے:

  • عقائد
  • احکام
  • فضائلِ اعمال

سب میں صرف صحیح یا حسن احادیث کو حجت مانا جائے گا۔

دعوتِ اہلِ حدیث اور منہجِ سلف کے آخری اصول

مسلمانوں میں اتحاد فرض ہے اور افتراق قابلِ مذمت

اسلام مسلمانوں کو اجتماعیت، اتحاد اور اتفاق کی دعوت دیتا ہے اور فرقہ بندی و افتراق سے سختی سے منع کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا﴾
(آل عمران 3:103)

ترجمہ:
’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((أَلَا وَإِنِّی تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ، أَحَدُہُمَا کِتَابُ اللّٰہِ…))
(صحیح مسلم: 2408)

’’کتاب اللہ ہی اللہ کی رسی ہے، جو اسے تھامے گا وہ ہدایت پر ہوگا۔‘‘

فرقہ بندی کو اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا طریقہ قرار دیا اور فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍ﴾

"بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑوں میں بانٹ لیا اور گروہ گروہ بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔”

(الأنعام 6:159)

قرآن و سنت کو پڑھنا اور سمجھنا ناگزیر ہے

قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے:

﴿یَہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلَامِ﴾

"اللہ اس کے ذریعے اُن لوگوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے جو اس کی رضا کی پیروی کرتے ہیں۔”

(المائدۃ 5:16)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو آسان فرمایا:

﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ﴾

"اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا ہے۔”

(القمر 54:22)

اسی طرح سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا:

((تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ))

"میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جن کے بعد تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔”

داعی وہ ہو جو علم و بصیرت رکھتا ہو

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ﴾

’’ آپ فرما دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے ، میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں علم وبصیرت کی بنیاد پر ، میں خود بھی اور جس نے میری اتباع کی وہ بھی ۔ ‘‘

(یوسف 12:108)

دعوت وہی شخص دے جو قرآن و سنت کا علم رکھتا ہو، ورنہ وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔

دعوت صرف کتاب و سنت کی طرف اور وہ بھی حکمت کے ساتھ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ﴾

"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو۔”

(النحل 16:125)

اہلِ حدیث کی دعوت:

  • قرآن و سنت کی طرف ہوتی ہے
  • نرمی، خیرخواہی اور حکمت کے ساتھ ہوتی ہے
  • تشدد اور سختی سے پاک ہوتی ہے

فتویٰ صرف اہلِ علم دیں

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا))

"پس انہوں نے بغیر علم کے فتویٰ دیا، تو خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔”
(صحیح البخاری: 100، صحیح مسلم: 2673)

بغیر علم کے فتویٰ دینا:

  • خود گمراہی ہے
  • دوسروں کو بھی گمراہ کرنا ہے

نتیجہ

دعوتِ اہلِ حدیث اور منہجِ سلف صالحین دراصل وہی راستہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔ یہی صراطِ مستقیم ہے، یہی طائفہ منصورہ اور یہی فرقۂ ناجیہ ہے۔ نجات، کامیابی اور اتحاد اسی میں ہے کہ ہم قرآن و سنت کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کے مطابق مضبوطی سے تھام لیں، بدعات اور خواہشات کو ترک کر دیں اور اعتدال، حکمت اور اخلاص کے ساتھ دین کی دعوت دیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے، اس پر عمل کرنے اور اسی کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے