طائفہ منصورہ، اہل سنت و اہل حدیث کا بیان
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

طائفہ منصورہ کا تا روزِ قیامت موجود رہنا:

اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کی شکل میں موجود اسلام کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے، جس کی خاطر کئی ذرائع اور اسباب استعمال کرتا ہے، ان میں سے ایک طائفہ منصورہ کا قیام بھی ہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خذلهم حتى يأتى أمر الله وهم كذلك
صحيح مسلم، کتاب الامارة ، رقم: 4950
”میری اُمت کی ایک جماعت ہر دور میں حق کی بنیاد پر غالب رہے گی، ان کو رسوا کرنے کی کوشش کرنے والا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا ،حتی کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی منشور پر گامزن ہوں گے۔ “
جناب جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
لا تزال طائفة من أمتي يقاتلون على الحق إلى يوم القيامة، قال: فينزل عيسى بن مريم فيقول أميرهم: تعال صل لنا، فيقول: لا ، إن بعضكم على بعض أمراء، تكرمة الله عز وجل هذه الأمة
صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 395
”میری اُمت میں سے ہمیشہ ایک گروہ قیامت تک حق پر قتال کرتا رہے گا۔ پھر عیسیٰ بن مریم علیم نازل ہوں گے تو ان کا امیر کہے گا، آیئے ہمیں نماز پڑھایئے۔ عیسی علینا فرما ئیں گے نہیں، تم میں سے ہی کوئی دوسروں پر امیر ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ عز وجل نے اس امت کو یہ اعزاز بخشا ہے۔“
اس حدیث کے بارے میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اہل الحدیث ہیں۔ (مسلمہ الاحتجاج بالشافعی ص 35 وسندہ صحیح)
اہل سنت والجماعت کے بڑے بڑے مستند علما کرام نے طائفہ منصورہ والی حدیث کا مصداق اہل الحدیث و اصحاب الحدیث کو قرار دیا ہے۔
سنن ترمذی حدیث نمبر: 2229
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک وہ (طائفہ منصورہ) اصحاب الحدیث ہی ہیں۔
شرف اصحاب الحديث للخطیب بغدادی 42
امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”اگر یہ طائفہ منصورہ اصحاب الحدیث نہیں ہیں ، تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں ۔ “
معرفه علوم الحديث للحاكم 2
حافظ ابن كثير رحمہ الله آیت کریمہ ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ﴾
[بني اسرائيل: 71]
” یعنی جس دن ہم لوگوں کو ان کے امام سمیت بلائیں گے ۔۔۔“ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
وقال بعض السلف: هذا أكبر شرف لأصحاب الحديث لأن إمامهم النبى صلى الله عليه وسلم
تفسیر ابن کثیر: 163/4
”اور بعض سلف کا کہنا ہے: یہ اصحاب الحدیث (اہل حدیث) کے لیے بہت بڑا شرف ہے اس لیے کہ ان کے امام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ “

اہل سنت و الجماعت کے فضائل:

اہل سنت و الجماعت کے منہج پر صرف محدثین پورے اترتے ہیں۔ اور آج کے دور میں منہج محدثین پر جماعت اہل حدیث کے علاوہ اور کوئی جماعت نہیں، جن کا منہج قرآن وسنت فہم و عمل و عمل صحابہ کرام ہو، باقی لوگوں نے اپنی نسبتیں شخصیات اور علاقوں کی طرف کر رکھی ہیں ۔ قرآن و سنت میں اہل حدیث و اہل سنت و الجماعت لوگوں کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں:
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر: 71 کی تفسیر میں نقل فرمایا:
اہل حدیث کے لیے اس سے زیادہ فضیلت والی دوسری کوئی بات نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اہل حدیث کا کوئی امام نہیں ہے۔
تدریب الراوی: 126/2، نوع: 27
علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ) نے تقلید کے رد پر ایک عظیم الشان کتاب: الرد على من أخلد الى الارض وجهل ان الاجتهاد فى كل عصر فرض لکھی اور اس میں باب فساد التقليد باندھا اور حافظ ابن حزم سے بطورِ تائید نقل کیا: التقليد حرام تقلید حرام ہے۔ (ص: 131)
علامہ سیوطی نے دوسری جگہ کہا: یہ کہنا واجب ہے کہ ہر وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے امام سے منسوب ہو جائے ، اس انتساب پر وہ دوستی رکھے اور دشمنی رکھے تو یہ شخص بدعتی ہے، اہل سنت و الجماعۃ سے خارج ہے، چاہے (انتساب) اصول میں ہو یا فروع میں ۔
الكنز المدفون والفلك المشحون، ص: 149 – دین میں تقلید کا مسئلہ جس: 40-41
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنے مشہور قصیدہ نونیہ میں فرمایا:
” اے اہل حدیث سے بغض رکھنے اور گالیاں دینے والے، تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو ۔ “
الکافیہ الشافیہ ص: 199
حافظ ابن حبان نے اہل حدیث کی درج ذیل صفت بیان کی:
” وہ حدیثوں پر عمل کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں۔ “
صحیح ابن حبان ، الاحسان: 6129
امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: صاحب الحديث عندنا من يستعمل الحديث ”ہمارے نزدیک اہل حدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے ۔ “
مناقب الامام احمد لابن الجوزی جس: 208
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ہم اہل حدیث کا یہ مطلب نہیں لیتے کہ اس سے مراد صرف وہی لوگ ہیں جنھوں نے حدیث سنی، لکھی یا روایت کی ہے بلکہ اس سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر آدمی جو اس کے حفظ، معرفت اورفہم کا ظاہری و باطنی لحاظ سے مستحق ہے اور ظاہری و باطنی لحاظ سے اس کی اتباع کرتا ہے اور یہی معاملہ اہل قرآن کا ہے۔“
برصغیر کے مغل بادشاہ احمد شاہ بن ناصر الدین محمد شاہ کے دور کے شیخ محمد فاخر الہ آبادی (متوفی 1751ء) فرماتے ہیں:
”جمہور کے نزدیک کسی خاص مذہب کی تقلید جائز نہیں، بلکہ اجتہاد واجب ہے۔ تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی ۔ “
رسالہ نجاتیه، ص: 42، 41
مزید فرماتے ہیں:
”مگر اہل حدیث کا مذہب دیگر مذاہب سے زیادہ حق پر ثابت ہے۔ “
رساله نجاتیہ ص: 41
امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اگر تو کسی آدمی کو دیکھے کہ وہ اہل حدیث سے محبت کرتا ہے تو وہ شخص سنت پر چل رہا ہے۔ “
شرف اصحاب الحدیث ص: 134
امام ابونعیم الاصبہانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
”اور امام شافعی اہل حدیث کے مذہب پر گامزن تھے۔ “
حلیہ الاولیاء: 9 / 112
امام سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ فرشتے آسمان کے اور اہل حدیث زمین کے چوکیدار ہیں۔
شرف اصحاب الحدیث، ص: 65
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایوب سختیانی، ابن عون، مالک بن انس، شعبہ، یحیی بن سعید قطان، عبد الرحمن بن مھدی اور ان کے بعد آنے والے ائمہ اہل حدیث تھے۔
مقدمہ صحیح مسلم، ص: 23
شیخ سعود الشریم (امام و خطیب مسجد حرام) فرماتے ہیں:
وأهل السنة والجماعة الفرقة الناجية والطائفة المنصورة، استقر كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم فى سويداء قلوبهم فمراد الله ومراد رسوله صلی اللہ علیہ وسلم عندهم قد خلدا بهذين الوحيين، فلا تعقيب لأحد بعد الله ورسوله

”اور اہل السنہ والجماعت، جو فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ ہیں کے دلوں کی گہرائیوں میں قرآن وسنت قرار پا چکے ہیں، اس لیے وہ ہمیشہ فرمان الہی اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو انھیں دونوں وحیوں (قرآن وسنت) سے ہی حاصل کرتے ہیں، لہذا اللہ کے فرمان اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رائے زنی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ “

منہج اہل سنت والجماعت

اہل سنت کا مفہوم:

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”سنت اس راہ کو کہتے ہیں جس پر چلا گیا ہو، چنانچہ اس میں اس منہج کی اتباع اور تمسک شامل ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین گامزن تھے، خواہ عقائد ہوں یا اعمال و اقوال ہوں اور یہی درحقیقت سنت کامل ہے۔ “
جامع العلوم والحکم، از ابن رجب: 120/1
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”سنت وہ امر ہے جس کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہونے پر شرعی دلیل موجود ہو، خواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خود انجام دیا ہو یا آپ کے زمانہ میں انجام دیا گیا ہو، کیونکہ اس وقت اس عمل کی ضرورت نہ تھی یا کوئی مانع در پیش تھا۔“
مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیة: 317/21
اور اس معنی کے اعتبار سے سنت ظاہری و باطنی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کی اتباع اور سابقین اولین مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کے طریقہ کی پیروی کا نام ہے ۔
مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیة: 157/3
شاعر کہتا ہے:
اهل الحديث همر أهل النبى وإن
لم يصحبوا نفسه، أنفاسه صحبوا

”اہل حدیث ہی اہل نبی ہیں، اگرچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھی نہ سہی ان کی بات کے ساتھی تو ضرور ہیں ۔ “
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: أهل الحديث فى الفرق كالإسلام فى الملل ”فرقوں میں اہل حدیث اسی طرح ہیں جیسے تمام ادیان سے اسلام کا امتیاز ہے۔“ (ردالمنطق)

جماعت کا مفہوم:

جماعت کا لغوی مفہوم: ”جماعت“ عربی زبان میں مادہ ”جمع“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی جمع کرنے ، اتفاق کرنے اور اکٹھا ہونے کے ہیں۔ جو تفرقہ و اختلاف کی ضد ہے۔
علامہ ابن فارس رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جیم ، میم اور عین کا مادہ کسی شے کے ملنے اور اکٹھے ہونے پر دلالت کرتا ہے، کہا جاتا ہے: جمعت الشيء جمعا یعنی ”میں نے فلاں شے کو اکٹھا کر دیا ۔“
معجم المقائيس في اللغة از ابن فارس کتاب جيم، باب ما جاء من كلام العرب في المضاعف والمطانة، أوله جيم، ص: 224
اور علماء عقیدہ اسلامیہ کی اصطلاح میں ”جماعت“ سے مراد امت کے سلف صالحین ، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین اور قیامت تک ان کی صحیح اتباع اور پیروی کرنے والے وہ جملہ افراد ہیں جنھوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی حق اور صحیح شاہراہ پر اتفاق کیا ہے ۔
دیکھئے: شرح العقيدة الطحاوية، از ابن ابی العز، ص: 68 – العقيده الواسطية، بشرح محمد خليل هراس، ص: 21
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
” جماعت وہ ہے جو حق کی موافقت کرے، خواہ تنہا آپ ہی کیوں نہ ہوں۔ “
جناب نعیم بن حماد رحمہ اللہ (اس کی وضاحت کرتے ہوئے) فرماتے ہیں:
”جب جماعت میں فساد و بگاڑ پیدا ہو جائے ، تو آپ پر ضروری ہے کہ فساد و بگاڑ سے پہلے جماعت جس منہج اور عقیدہ پر گامزن تھی اسی پر قائم رہیں، اس صورت میں اگر آپ تنہا ہیں تو تنہا آپ ہی جماعت شمار ہوں گے۔ “
اس بات کو امام ابن قیم رحمہ اللہ نے امام بیہقی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ، اپنی کتاب ”اغاثة اللهفان“(70/1) میں ذکر کیا ہے۔
علامہ ابو شامہ رحمہ اللہ نے اسے اپنی عظیم کتاب الباعث على انكار البدع والحوادث کے صفحہ نمبر 22 پر اپنی اس بات پر بطور دلیل نقل کیا ہے۔
” جہاں بھی جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم آیا ہے تو اس سے مراد حق کو لازم پکڑنا اور اس کی پیروی کرنا ہے۔ اگرچہ اس کو اختیار کرنے والے تھوڑے اور مخالف زیادہ ہوں ۔ کیونکہ حق تو وہ ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پہلی جماعت تھی اور ان کے بعد آنے والے اہل باطل کی کثرت کو نہیں دیکھا جائے گا۔“
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لا تزال طائفة من أمتي بأمر الله لا يضرهم من خذلهم أو خالفهم حتى يأتى أمر الله وهم ظاهرون على الناس
صحيح البخاری، کتاب المناقب، باب حدثنا محمد بن المثنى حديث رقم: 3641۔ صحیح مسلم، كتاب الارمارة، باب قوله رضی اللہ عنہ : لا تزال طائفة من أمتى ظاهرين على الحق لا يضرهم من خالفهم ، حديث رقم: 1037
” میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم (اسلام) پر قائم رہے گی، ان کی مدد سے ہاتھ کھینچنے والے یا ان کی مخالفت کرنے والے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (فیصلہ) آ جائے گا اور وہ بدستور تمام لوگوں پر غالب رہیں گے ۔ “
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خذلهم، حتى يأتى أمر الله وهم كذلك
صحیح مسلم، کتاب الارمارة، باب قوله رضی اللہ عنہ : لا تزال طائفة من أمتى ظاهرين على الحق لا يضرهم من خالفهم ، حديث رقم: 1920
” میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی ، ان کی مدد سے ہاتھ کھینچنے والے انھیں کوئی ضرور نہ پہنچ سکیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے اور وہ ایسے ہی غالب رہیں گے۔ “
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اپنے آپ کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک محمدود ر کھ ۔ جہاں صحابہ ٹھہرے وہاں تو بھی ٹھہر جا۔ جو انھوں نے فرمایا، وہ تو بھی کہہ ۔ جس کام سے وہ رکے رہے۔ تو بھی رک جا اور سلف صالحین کے راستے پر چل تیرے لیے وہی کافی ہے جو ان کے لیے کافی تھا۔ “
الشريعة للاجرى ص: 58
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”لزوم جماعت کے حکم کے الفاظ عام ہیں لیکن مراد خاص ہے کیوں کہ جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے اجماع کا نام ہے۔ چنانچہ جو شخص اس چیز کو لازم پکڑتا ہے جس پر وہ تھے اور ان کے بعد والے لوگوں سے علیحدہ مؤقف اختیار کرتا ہے تو وہ جماعت کو توڑنے والا نہیں اور نہ ہی وہ جماعت سے الگ ہونے والا ہے۔ لیکن جو شخص ان (صحابہ) سے علیحدہ مؤقف اختیار کرتا ہے تو وہ جماعت کو توڑنے والا ہے۔ صحابہ کے بعد الجماعة سے مراد ایسے لوگ ہیں جن میں دینداری، عقل اور علم جمع ہوں اور وہ ترک خواہشات کو لازم پکڑیں، خواہ ان کی تعداد کم ہی ہو، نہ کہ اوباش اور گھٹیا لوگ خواہ ان کی تعداد زیادہ ہی ہو ۔ “
صحیح ابن حبان: 44/8
اہل سنت والجماعت کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مضبوطی سے قائم اور سابقین اولین مهاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کے عقیدہ و منہج پر گامزن ہیں، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بابت فرمایا: ما أنا عليه وأصحابي ”یعنی اہل سنت والجماعت وہ لوگ ہیں جو میرے اور میرے صحابہ کے منہج پر قائم ہیں۔“
اہل السنۃ والجماعت ہی وہ بہترین نمونہ ہیں جو راہ حق کی راہنمائی کرتے ہیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہیں ۔ حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
إن من سعادة الحديث والأعجمي أن يوفقهما الله لعالم من أهل السنة
شرح أصول اعتقاد اهل السنة والجماعة، از لالكائي: 166/1، حدیث نمبر: 30
”کسی نوجوان اور عجمی کے لیے باعث سعادت ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اہل سنت کے کسی عالم (سے ملاقات اور استفادہ) کی توفیق عطا فرما دے ۔ “
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ شہروں اور ملکوں کو زندگی عطا کرتا ہے اور وہ اہل سنت ہیں۔ اور جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ اس کے پیٹ میں حلال لقمہ ہی جاتا ہے تو وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہے۔“
حواله سابق: 72/1 نمبر: 51
ابو منصور عبد القاهر بن طاہر البغدادی (متوفی 429ھ) نے ملک شام وغیرہ کی سرحدوں پر رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں کہا:” وہ سب اہل سنت میں سے اہل حدیث کے مذہب پر ہیں ۔“ (اصول الدین ص: 317)
خطیب بغدادی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”شرف اصحاب الحدیث“ میں فرماتے ہیں:
”اگر کسی صاحب رائے کو نفع بخش علوم میں مصروف کر دیا جائے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن کی طلب رکھے تو اس کو انھیں میں کفایت مل جائے گی۔ کیونکہ حدیث میں اصول توحید کی معرفت بھی ہے اور وعد و وعید بھی۔ اس میں صفات رب العالمین، جنت و جہنم کی صفات اور جو کچھ اللہ نے ان میں متقی اور گناہ گاروں کے لیے پیدا کر رکھا ہے اور جو اللہ نے سات زمینیں اور آسمان بنائے ہیں وہ سب کچھ ہے اور اس میں نبیوں کے قصے، زاہدوں اور اولیاء کی باتیں، بلیغ لوگوں کے خطبے، فقہاء کا کلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور خطبے بھی موجود ہیں۔ اس میں قرآنِ عظیم کی تفسیر ، اس کی خبریں، نصیحت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باتیں اور فتوے ہیں اور اللہ نے اہل حدیث کو ارکانِ شریعت بنایا ہے۔ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ بدعات کو منہدم کر دیتا ہے۔ وہ اللہ کی خلق میں اس کے امین ہیں۔ وہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت کے درمیان واسطہ کا کام کرتے ہیں۔ وہ سنت کو زبانی یاد کرنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں۔ ان کی روشنیاں ٹمٹماتی ہیں۔ ان کے مناقب بہت ہیں اور عام بھی۔ ہر فرقہ اپنی خواہشات کی طرف سمٹتا ہے اور اپنی رائے کو اچھا سمجھ کر اس کا پہرہ دیتا ہے۔ ماسوائے اہل حدیث کے۔ قرآن ان کی تیاری ہے، سنت ان کی دلیل ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے امیر ہیں، رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کی نسبت ہے۔ وہ لوگوں کی رائے کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ جو ان کے خلاف مکر کرتا ہے اللہ اس کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ جو ان سے دشمنی کرتا ہے اللہ اس کو ذلیل کرتا ہے۔ اے اللہ ! ہمیں اہل حدیث میں سے کر دے۔ سنت پر عمل کی توفیق دے اور اہل حدیث کی محبت عطا فرما۔ (قرآن اور) حدیث پر عمل کرنے والوں کرنے کی توفیق دے۔ “
جناب ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ سے پوچھا گیا ،سنی کون ہے؟ تو انھوں نے فرمایا:
”سنی وہ ہے جس کے سامنے من مانی بے دلیل باتیں بیان کی جائیں تو ان کی طرف بالکل ہی نظر التفات نہ کرے ۔“
شرح أصول اعقاد أهل السنة والجماعة: 72/1، نمبر: 53
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
”اہل سنت امت کے سب سے بہتر اور افضل ترین لوگ ہیں جو کہ صراط مستقیم ، یعنی حق و اعتدال کی راہ پر گامزن ہیں ۔ “
مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیه: 368/3، 369
اہل سنت لوگوں میں بگاڑ پیدا ہو جانے پر اجنبی کہلائیں گے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بدأ الإسلام غريبا فطولى للغرباء
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الاسلام بدأ غريبا وسيعود غریبا، حدیث رقم: 145
”اسلام اجنبیت کے عالم میں آیا تھا اور عنقریب پھر اجنبیت سے دو چار ہوگا جس طرح شروع میں تھا تو خوشخبری (یا جنت) ہے اجنبیوں کے لیے۔ “
مسند احمد بن حنبل کی ایک روایت میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ سے پوچھا گیا کہ ”غرباء“ اجنبی کون لوگ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: النزاع یعنی وہ اجنبی جو اپنے گھر بار اور کنبہ قبیلہ سے الگ ہو کر دور چلا گیا ہو، مفہوم یہ ہے کہ مہاجرین کے لیے خوشخبری ہو جنھوں نے اللہ کے واسطے اپنے وطنوں سے ہجرت کی ہے ، دیکھئے: النهاية في غريب الحديث والاثر، از ابن الاثیر: 41/5 من القبائل مسند احمد بن حنبل: 1398/1
”اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر جانے والے ۔ “
مسند احمد بن حنبل ہی کی ایک دوسری روایت میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ”غرباء“ (اجنبی) کون لوگ ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”بہت سارے صالح اور نیک لوگ، جن کی نافرمانی کرنے والے فرمانبرداروں کی نسبت زیادہ ہوں گے۔ “
مسند احمد بن حنبل: 177/2، 22 ۔ احمد شاکر نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
دوسری سند سے مروی ایک روایت میں ہے:
”لوگوں میں بگاڑ پیدا ہونے پر ان کی اصلاح کرنے والے۔“
مسنداحمد بن حنبل: 173/4
چنانچہ اہل سنت، اہل بدعت، ہوا پرستوں اور گمراہ فرقوں کے درمیان اجنبی ہیں۔
سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
أهل السنة المتمسكون بما سنه الله ورسوله وإن قلوا وأما اهل البدعة فالمخالفون لأمر الله وكتابه ورسوله العاملون برأبهم وأهوائهم وان كثروا
کنز الاعمال، ص: 77، ج: 14، رقم الحدیث: 44209، طبع نشر السنة ملتان
”یعنی اہل سنت وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ طریقہ کو اختیار کرنے والے ہیں خوا وہ تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اہل بدعت وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف اپنی رائے اور خواہش نفسی پر عمل کرنے والے ہیں۔ خواہ وہ تعداد میں زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔ “
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ومن أهل السنة والجماعة مذهب قديم معروف قبل أن يخلق الله أبا حنيفة ومالكا والشافعي وأحمد فإنه مذهب الصحابة الذين تلقوه عن نبيهم ومن خالف ذلك كان مبتدعا عند اهل السنة والجماعة
منهاج السنة: 256/1، طبع مکتبه سلقيه لاهور 1976ء
”یعنی اہل سنت والجماعت قدیم و معروف مذہب ہے جو امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل وغیرہ کی پیدائش سے بھی پہلے صحابہ کرام کا مذہب تھا۔ انھوں نے وہ مذہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا اور جو شخص اس کے خلاف کرتا ہے وہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بدعتی ہے۔“
اہل سنت ہی حاملین علم ہیں: اہل سنت ہی دراصل حاملین علم ہیں، جو اس علم سے غلو پسندوں کی تحریف، باطل پرستوں کی تراش خراش (کاٹ چھانٹ) اور جاہلوں کی تاویلات کو دور کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا:
” لوگ (اہل علم) اسناد کے بارے میں نہیں پوچھتے تھے لیکن جب فتنہ رونما ہوا، تو کہنے لگے: سمو النا رجالكم ”بیان کرنے والوں کے نام بتاؤ“ چنانچہ دیکھا جاتا اگر اہل سنت کی احادیث ہوتیں تو مان لی جاتیں اور اگر اہل بدعت کی ہوتیں تو ناقابل تسلیم قرار دی جاتیں ۔ “
صحيح مسلم المقدمة، باب الاسناد من الدين: 15/1
اہل سنت وہ لوگ ہیں جن کی جدائی سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے: جناب ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” مجھے اہل سنت میں سے کسی کی وفات کی خبر ملتی ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے جسم کا کوئی حصہ کھو گیا ہو ۔ “
شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة، از لالکائی: 66/1، نمبر: 29
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اہل بدعت کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کی مخالفت کرتے ہیں اور زنادقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو خس و خاشاک کہتے ہیں۔ وہ ان باتوں کے ذریعے حدیث کو باطل کرنا چاہتے ہیں اور قدریہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مشبہہ کہتے ہیں۔ جب کہ رافضیوں کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو نوخیز اور کمزور کہتے ہیں ۔ “
اصل السنة واعتقاد الدين مطبوعه مجلة الجماعه السلفيه 1403هـ عقیدہ السلف صفحہ: 105 – شرح اصول الاعتقاد اهل السنة والجماعة: 2 /179
صابونی رحمہ اللہ ”عقیدۃ السلف“ صفحہ 105 تا 107 میں فرماتے ہیں:
”اور یہ ساری باتیں عصبیت ہیں اور اہل سنت کا صرف ایک نام ہے اور وہ ہے اہل حدیث ۔ “
پھر فرماتے ہیں:
”میں نے اہل بدعت کو دیکھا ہے کہ وہ ان ناموں کے ساتھ اہل سنت کو موسوم کرتے ہیں جو ان کی توہین پر مبنی ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ان میں سے کسی کے نام کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔ اس طرح اہل بدعت اہل سنت کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرتے ہیں جو مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھتے تھے۔ چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے تھے۔ بعض آپ کو جادو گر کہتے تھے، بعض کاہن، بعض شاعر اور بعض آپ کو جھوٹا، بد اخلاق اور کذاب کہتے تھے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام عیوب سے پاک اور مبرا تھے۔ آپ تو سراسر ایک چنیدہ نبی اور رسول تھے صلى الله عليه وبارك وسلم تسليما كثيرا .
سید ناعوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة فواحدة فى الجنة وسبعون فى النار، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة فإحدى وسبعون فرقة فى النار وواحدة فى الجنة، والذي نفس محمد بيده لتفترقن أمتي ثلاث وسبعين فرقة، واحدة فى الجنة واثنتان وسبعون فى النار قيل: يا رسول الله من هم؟ قال: الجماعة
سنن ابن ماجه، کتاب الفتن باب افتراق الامم، حدیث رقم: 3992 سنن ابوداؤد، کتاب السنة، باب شرح السنة، حديث رقم: 4596، كتاب السنة، لابن ابی عاصم: 23/1، حدیث: 63۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
” یہود اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے، ان میں سے ایک جنتی ہے اور ستر جہنمی اور نصاری (عیسائی) بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے ، ان میں سے صرف ایک جنتی ہے اور اکہتر جہنمی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے ! یقینا میری اُمت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی، ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا اور بہتر فرقے جہنمی ہوں گے، دریافت کیا گیا، اے اللہ کے رسول ! وہ جنتی فرقہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت ۔ “
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی جامع ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ:
صحابہ نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا:
ما أنا عليه و أصحابي
سنن الترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی افتراق هذه الامة حديث: رقم 2641ـ سلسلة الصحيحة رقم: 1348
”جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ “
یہ جماعت فرقہ ناجیہ ہے یعنی جہنم سے نجات پانے والی جماعت، کیونکہ اللہ کے
رسول ملنے ہیم نے فرقوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کا استثناء کیا اور ارشاد فرمایا:
كلها فى النار إلا واحدة
من أصول أهل السنة والجماعة، از شیخ صالح بن فوزان الفوزان، ص: 11
”سارے فرقے جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے“ یعنی صرف ایک جماعت جہنم سے نجات پائے گی۔
اور طائفہ منصورہ ہے یعنی نصرت الہی سے سرفراز جماعت، چنانچہ اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اگر آپ جاہل لوگوں سے سواد اعظم کے بارے میں پوچھیں تو وہ کہیں گے: اس سے مراد لوگوں کی جماعت ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ جماعت سے مراد وہ عالم ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو لازم پکڑنے والا ہو ۔ جو اس کے ساتھ ہوں اور اس کی پیروی کریں وہی جماعت ہے ۔ “
حلية الاولياء: 239/9
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عليك بآثار من سلف وإن رفضك الناس، وإياك وآراء الرجال وإن زخرفوها لك بالقول فإن الأمر ينجلي وأنت على طريق مستقيم
شرفه أصحاب الحديث للخطيب
” سلف کے آثار و روایات کو لازم پکڑ لو اگرچہ لوگ تمھیں ٹھکرا ہی کیوں نہ دیں۔ لوگوں کی آراء سے بچو، اگرچہ وہ تمھارے لیے بات کو نہایت ہی مزین کر کے پیش کیوں نہ کریں۔ اس لیے کہ بلاشبہ اس وقت پھر دین حنیف تمھارے لیے نہایت واضح ، روشن ہوگا اور تم صراط مستقیم پر رہو گے۔ “
جناب نوح الجامع بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ سے پوچھا: اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو لوگوں سے اعراض و اجسام (عرض و جوہر) کے بارے گفتگو کرے؟ تو انھوں نے فرمایا:
مقالات الفلاسفة، عليك بالأثر وطريقة السلف، وإياك وكل محدثة: فإنها بدعة
الفقيه والمتفقه للخطيب
”یہ فلاسفہ کی باتیں ہیں۔ تم حدیث واثر اور سلف کے طریقے کو لازم پکڑو۔ دین میں ایجاد کی جانے والی بدعات سے بچو، کیونکہ یہ بدعت ہے۔ “

اصحاب الحدیث اور اصحاب الرائے کا منہجی فرق:

علامہ شہرستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ثم المجتهدون من أئمة الأمة محصورون فى صنفين لا يعدوان إلى ثالث، أصحاب الحديث وأصحاب الرأى، أصحاب الحديث وهم أهل الحجاز وأصحاب مالك بن أنس وأصحاب محمد بن إدريس الشافعي وأصحاب سفيان الثوري وأصحاب أحمد بن حنبل وأصحاب داؤد بن على بن محمد الأصفهاني وإنما سموا أصحاب الحديث لأن عنايتهم بتحصيل الحديث ونقل الأخبار وبناء الأحكام على النصوص ولا يرجعون إلى القياس الجلي والخفي ما وجدوا خبرا أو أثرا .. أصحاب الرأى وهم أهل العراق هم أصحاب أبى حنيفة النعمان بن ثابت ومن أصحابه محمد بن الحسن وأبو يوسف يعقوب بن إبراهيم بن محمد القاضي وزفر بن هذيل والحسن بن زياد اللؤلوى وابن سماعة وعافية القاضي وأبو مطيع البلخي والبشر المريسى وإنما سموا أصحاب الرأى لأن عنايتهم بتحصيل وجه القياس والمعنى المستنبط من الأحكام وبناء الحوادث عليها، وربما يقدمون القياس الجلي على الأخبار الأحاد
الملل النحل: 206/1، 207
”ائمہ مجتہدین کی صرف دو ہی قسمیں ہیں، اصحاب الحدیث اور اصحاب الرائے ، اصحاب الحدیث کا مسکن اور جائے قرار سرزمین حجاز ہے، امام مالک اور ان کے شاگرد، امام شافعی اور ان کے شاگرد، سفیان ثوری اور ان کے رفقاء امام احمد اور ان کے تلامذہ اور امام داؤد بن علی ظاہری کے رفقاء اور ساتھی، انھیں اصحاب الحدیث اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی توجہ اور عنایت علم حدیث اور اخبار کی طرف ہے اور وہ اپنے احکام کی بنیاد نصوص پر رکھتے ہیں، جب تک کہ حدیث موجود ہو وہ قیاس جلی اور خفی کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔
اصحاب الرائے کا مسکن اور جائے قرار عراق ہے اور انھیں اہل الرائے کہا جاتا ہے اور وہ امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ہیں، انھی میں امام محمد بن حسن، امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم بن محمد ، امام زفر بن ہذیل، حسن بن زیا دلؤلؤی، ابن سماعہ، قاضی عافیہ، ابو مطیع بلخی اور بشر مریسی وغیرہ ہیں، انھیں اصحاب الرائے کے نام سے اس لیے یاد کیا جاتا ہے کہ ان کی توجہ اور عنایت قیاس پر مرکوز رہی اور انھوں نے اسی پر اپنے مسائل کے استنباط و استخراج کی بنا رکھی اور رکھتے ہیں اور بسا اوقات اس راہ میں خبر آحاد یعنی غیر متواتر احادیث نبویہ پر قیاس جلی کو مقدم کرتے ہیں۔ “
علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں:
وأنقسم الفقه فيهم إلى طريقين طريق أهل الر أى والقياس وهم أهل العراق، وطريقة أهل الحديث وهم أهل الحجاز وكان الحديث قليلا فى أهل العراق لما قدمناه فاستكثروا من القياس ومهروا فيه فلذلك قيل أهل الر أى ومقدم جماعتهم الذى استقر المذهب فيه وفي أصحابه أبو حنيفة
مقدمة ابن خلدون، ص: 389
”اور فقہ دو حصوں میں تقسیم ہوگی ، پہلی قسم اہل الرائے اور قیاس کی جس کا مرکز عراق ہے، اور دوسری قسم فقہ اہل حدیث کی جس کا مرکز حجاز ہے، اہل عراق میں حدیث کا رواج کم تھا، انھوں نے کثرت سے قیاس ورائے پر اپنا زور صرف کیا اور فن میں وہ ماہر ہو گئے ، اس لیے انھیں اہل الرائے کہا گیا اور جس جماعت میں اس مذہب نے جڑ پکڑی ، ان میں سر فہرست امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ ہیں۔ “
اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بايد دانست كه سلف در استنباط مسائل و فتوي برد و وجه بودند يكے آنكه قرآن و حديث و آثار صحابه جمع مي كردند و از انجا استنباط نمودند، دريں طريقه اصل راه محدثين است، و ديگر آنكه قواعد كليه كه جمع از ائمه تنقيح و تهذيب آن گروه اندياد گيرند بملاحظه ماخذ آنها پس مسئله كه وارد مي شد جواب آن از هما قواعد طلب مي كردند ،وايں طريقه اصل راه فقهاء ، است، و غالب بر بعض سلف طريقه اولي بود و بر بعض آخر طريقه ثانيه
مصفی: 4/1، بحواله تحريك آزادی فکر ص: 107 108
” سلف میں مسائل کے استنباط کے متعلق دو طریقے رائج تھے، پہلا طریقہ یہ تھا کہ قرآن وحدیث اور آثار صحابہ جمع کیے جائیں اور انھیں اصل مان کر ان کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل پر غور کیا جائے ، یہ محدثین کا طریقہ ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ائمہ کے تنقیح و تہذیب کیے ہوئے قواعد کلیہ کو اصل قرار دے کر ان ہی کے ذریعے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور اصل ماخذ کی طرف توجہ کی ضرورت نہ سمجھی جائے یہ فقہاء کا طریقہ ہے، سلف کا ایک بڑا گروہ پہلے طریقے کا پابند ہے اور ایک گروہ دوسرے طریقے کا۔“
ملک شام کی ممتاز ترین شخصیت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ”مجموع الفتاوی“ (96/4) میں فرماتے ہیں:
”آپ کو علم ہونا چاہیے کہ جو لوگ اہل حدیث پر عیب لگاتے اور ان کے مذہب سے ہٹتے ہیں وہ جاہل، زندیق اور پکے منافق ہیں۔ اسی لیے جب امام احمد رحمہ اللہ کو پتہ چلا کہ ابن قتیلہ کے سامنے مکہ میں محدثین کا تذکرہ ہوا تو اس نے ان کو برا بھلا کہا ہے تو آپ کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: وہ زندیق ہے، وہ زندیق ہے، وہ زندیق ہے اور اپنے گھر میں داخل ہو گئے ۔ کیونکہ آپ رحمہ اللہ اس کا مقصد سمجھ گئے تھے ۔ “
امت کے متقی علماء راسخین فی العلم اسی طرح گمراہ فرقوں، ان کے ٹھکانوں اور گمراہ کرنے والوں کے متعلق لوگوں کو آگاہ کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ تاکہ کہیں اچھے لوگ ان کی چالوں اور فریب کاریوں کا شکار نہ ہو جائیں۔
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ مزید رقم طراز ہیں:
وهذه الطبقة هي الطراز الأول من طبقات المحدثين فرجع المحققون منهم بعد أحكامهم فن الرواية ومعرفة مراتب الأحاديث إلى الفقه فلم يكن عندهم من الر أى أن تجمع على تقليد رجل ممن مضى مع ما يرون من الأحاديث والآثار المنا قضة فى كل مذهب من تلك المذاهب فأخذوا يتتبعون أحاديث النبى صلى الله عليه وسلم وآثار الصحابة والتابعين والمجتهدين على قواعد أحكموها فى نفوسهم… كان عندهم أنه إذا وجد فى المسألة قرآن ناطق فلا يجوز التحول منه إلى غيره، وإذا كان القرآن محتملا لوجوه فالسنة قاضية عليه، فإذا لم يجدوا فى كتاب الله أخذوا سنة رسول الله سواء كان مستفيضا دائرا بين الفقهاء أويكون مختصا بأهل بلد أو أهل بيت أو بطريق خاصة، وسواء عمل به الصحابة والفقهاء أو لم يعملوا به. ومتى كان فى المسألة حديث فلا يتبع فيها خلاف أثر من الآثار ولا اجتهاد أحد من المجتهدين
حجة الله البالغة: 149/1
”اگر وہ محدثین کا سب سے اعلیٰ طبقہ محققین اہل حدیث کا ہے جنھوں نے فن روایت میں پختگی اور مراتب حدیث میں پوری معرفت حاصل کر کے فقہ کی طرف توجہ کی، لیکن انھوں نے ماضی کے بزرگوں میں سے کسی خاص شخص کی تقلید پر اتفاق نہیں کیا، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ہر مروجہ مذہب میں متناقض احادیث اور آثار موجود ہیں، اس لیے انھوں نے احادیث رسول اور آثار صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کے قواعد وضوابط کی روشنی میں غور و فکر کیا، اس سلسلے میں ان کا طریقہ یہ رہا کہ اگر زیر بحث مسئلے میں کوئی نص قرآنی مل جاتی تو پھر کسی دوسری چیز کی طرف توجہ نہ کرتے اور اگر نص قرآنی چند معانی کی محتمل ہوتی تو اس کا فیصلہ سنت رسول کے ذریعے فرماتے اور اگر نص قرآنی نہیں پاتے تو سنت رسول کو لیتے ، سنت چاہے درجہ مستفیض کی ہوتی ، جس کا چلن فقہاء کے درمیان عام ہوتا یا کسی شہر یا کسی گھرانے یا کسی خاص طریقے سے معنون ہوتی، جس پر صحابہ اور فقہا نے عمل کیا ہو یا نہیں کیا ہو، انھیں ان امور سے کوئی بحث نہیں ہوتی۔
اور جب بھی پیش آمدہ مسئلے میں کوئی حدیث دستیاب ہو جاتی تو اس کے خلاف کسی اثر یا کسی مجتہد کے کسی اجتہاد کی اتباع نہیں کرتے۔ “
مورخ اسلام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اگر صاحب الرائے نفع بخش علوم میں مشغول ہو جائے اور رب العالمین کے رسول کی سنتوں کا طلب گار ہو جائے تو وہ دوسری چیزوں سے بے نیاز ہو جائے گا، اس لیے کہ علم حدیث اصول توحید کی معرفت، وعد و وعید کے تمام وجوہات اور رب العالمین کے جملہ صفات کو حاوی ہے، جس کے اندر جنت اور دوزخ کی صفتوں، متقیوں، فاسقوں اور فاجروں کے لیے جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے تیار کر رکھا ہے اس کا بیان ہے، اس میں زمین و آسمان کی تمام مخلوقات، نبیوں کے قصے، زاہدوں کے اخبار، اولیاء کے حالات، اہل فصاحت و بلاغت کے مواعظ، فقہاء کے کلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبوں اور معجزات کا بیان ہے، جس میں قرآن مجید کی تفسیر، قیامت کے احوال، حکمت سے لبریز ذکر و اذکار اور صحابہ کے اقوال سے مستنبط احکام و مسائل محفوظ و مذکور ہیں ۔
جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اہل حدیث کو شریعت کے ارکان و اساطین کے منصب سے سرفراز فرمایا ہے اور جن کے ہاتھوں ہر طرح کی بدعت و ضلالت کی دیوار منہدم ہوئی ہے، وہ اللہ کی خلافت کے امین و پاسباں ہیں، نبی اور ان کی امتی کے درمیاں واسطہ ہیں، ان کے ارشادات کے حفظ و اتقان کے مجاہد ہیں، ان کے انوار و ازہار کھل رہے ہیں اور ان کے فضائل کا چشمہ جاری ہے، ہر جماعت کسی نہ کسی نفسانیت کی شکار اور کسی نہ کسی رائے کے دام میں گرفتار ہے، لیکن جماعت اہل حدیث وہ جماعت ہے جس کا زادراہ کتاب اللہ ہے ، سنت ان کی دلیل ، رسول اللہ ان کی جماعت اور انہی کی طرف ان کی نسبت ہے، وہ آراء اور ظن و تخمین کی طرف توجہ نہیں کرتے ، جس نے انھیں تکلیف پہنچائی یا ان کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی کمر توڑ دی اور جس نے ان سے عداوت مول لی تو اللہ تعالیٰ نے اسے رسوا کر دیا۔ “
حضرت امام عبد اللہ بن مبارک متوفی 181 ھ فرماتے ہیں کہ:
الدين لأهل الحديث والكلام والحيل لأهل الر أى والكذب لمرافضة
المنتقى من منهاج الاعتدال، ص: 480
”یعنی دین (اسلام) اہل حدیث کے پاس ہے۔ باتیں بنانا اور حیلہ سازی کرنا اہل الرائے کی عادت ہے اور جھوٹ بولنا رافضیوں کا کام ہے۔ “
مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ ”امام الکلام“ میں فرماتے ہیں:
من نظر ينظر الإنصاف وغاص فى بحار الفقه والأصول متجنبا عن الإعتساف، يعلم علما يقيننا أن أكثر المسائل الفرعية والأصلية التى اختلف العلماء فيها . فمذهب المحدثين فيها أقوى من مذاهب غيرهم وإني كلما أسير فى شعب الاختلاف أجد قول المحدثين فيه قريبا من الأنصاف، فلله درهم عليه شكرهم كيف لا ! وهم ورثة النبى صلى الله عليه وسلم ونواب شريعته صدقا، حشرنا الله فى زمرتهم، وأما تنا على حبهم وسيرتهم
”جو نظر انصاف رکھتا ہے اور کتب فقہ واصول کے سمندروں میں غوطہ زن ہوتا ہے وہ یقیناً جان لے گا کہ بیشتر فروعی و اصولی مسائل میں علماء کا اختلاف ہے۔ لہذا محدثین کرام کا نکتہ نظر ہی اوروں کے نقطہ نظر سے قومی تر ہوتا ہے۔ میں جب بھی اختلافی مسائل سے گزرتا ہوں تو مجھے محدثین کا فیصلہ ہی انصاف کے قریب ترین نظر آتا ہے۔ بخدا ان کا کیا کہنا، اللہ ہی ان کو جزا دے گا۔ وہ کیوں نہ دے یہی تو سچے وارث نبی ہیں اور شریعت کے کھرے نمائندے۔ اللہ ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے اور ان کی محبت وسیرت پر ہی ہمیں دنیا سے اٹھائے۔ “
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اہل الرائی اور اہل الحدیث کا فرق بیان کرتے ہوئے ارشاد فر ماتے ہیں:
لم يكن عندهم من الأحاديث والآثار ما يقدرون به على إستناد الفقه على الأصول التى اختارها أهل الحديث… الخ
حجة الله البالغه: 152/1
” یعنی اہل الراسی کے پاس احادیث نبویہ اور آثار صحابہ کا اتنا علم نہیں تھا جس سے یہ لوگ اہل حدیث کے اختیار کردہ اصول پر فقہی مسائل استنباط کر سکتے اور نہ ان لوگوں کے دلوں میں اتنی وسعت و ہمت ہی تھی کہ وہ تمام علماء کے اقوال پر نظر کر سکتے اور نہ ان کے سینوں میں اتنی فراخی تھی کہ وہ اقوال اہل علم کو جمع کر کے ان پر بحث و نظر کرتے ۔ “
شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے تہتر (73) فرقوں میں سے ملت واحدہ ناجیہ کے بارہ میں یہی فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ پس یہی لوگ با مراد اور فائز المرام ہوں گے:
ولا اسم لهم إلا اسم واحد وهو أصحاب الحديث
غیتہ الطالبین
اور ذرا آگے چل کر فرماتے ہیں: وهم الفرقة الناجية فحفظ الله الدين بهم یعنی ”اہل حدیث ہی فرقہ ناجیہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے انھی لوگوں کو حفاظت دین کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ “
فضیلتہ الشیخ حافظ محمد اسماعیل اسد فرقہ واریت اور تقلید ص 24 میں رقمطراز ہیں کہ:
”قطان اور امام حاکم نے فرمایا کہ اگر محدثین کا کثیر طائفہ حفاظت اسناد پر کاربند نہ ہوتا تو اسلام کے راستے متروک ہو جاتے نیز بے دین اور بدعتی لوگ احادیث وضع کرنے اور اسانید بدل دینے پر قادر ہو جاتے ۔ “
الظفر المبين، ص: 38

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے