سوال
اگر کوئی عام مسلمان صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں موجود احادیث کو پڑھ کر ان پر عمل کرتا ہے، لیکن وہ حدیث دراصل ضعیف نکلتی ہے، تو کیا اس کا یہ عمل باطل ہو جائے گا اور کیا قیامت کے دن اسے سزا ملے گی؟ براہ کرم اس کا تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف
اہل علم کے درمیان ضعیف احادیث پر عمل کرنے کے معاملے میں اختلاف رائے موجود ہے۔
جمہور اہل علم کے نزدیک، فضائلِ اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی اجازت ہے، لیکن یہ اجازت تین مخصوص شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعیف حدیث پر عمل کی شرائط یوں بیان فرمائیں:
➊ شدید ضعف نہ پایا جانا
حدیث میں ایسا سخت ضعف موجود نہ ہو جو اسے ناقابل اعتبار بنا دے۔
➋ کسی صحیح اصل کے تحت ہونا
حدیث کو ایسی اصل حدیث کے تحت ذکر کیا جائے جو صحیح ہو، اور اسی بنیاد پر اس پر عمل کیا جائے۔
➌ یقین کی بجائے احتیاطاً عمل کرنا
اس پر عمل کرتے وقت یہ یقین نہ رکھا جائے کہ یہ حدیث ثابت ہے، بلکہ احتیاطاً اس پر عمل کیا جائے۔
تدریب الراوی (جلد 1، ص 298-299) اور فتح المغیث (جلد 1، ص 268)
اگر غلطی سے ضعیف حدیث پر عمل ہو جائے
اگر کوئی شخص لاعلمی میں کسی ضعیف حدیث پر عمل کرتا رہا ہو، لیکن وہ عمل دیگر صحیح احادیث سے بھی ثابت ہو، تو اس کا یہ عمل اللہ کے نزدیک مقبول اور باعث اجر ہے۔
لیکن اگر وہ عمل کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہ ہو، تو یہ جہالت کی بنیاد پر ہے اور ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معاف ہوگا۔
حدیثِ نبوی ﷺ کا اصول
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إن الله تجاوز عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه
اللہ تعالیٰ نے میری امت کی غلطی، بھول چوک، اور وہ کام جو ان پر زبردستی کرائے گئے، ان سب سے درگزر فرما دیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب