حدیث نمبر 5 (فضائل ذکر، باب سوم فصل دوم – فضائل اعمال) کی تحقیق و تخریج
حدیث کا متن
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ الله عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ هَالَهُ اللَّيْلُ أَنْ يُكَابِدَهُ، وَبَخِلَ بِالْمَالِ أَنْ يُنْفِقَهُ، وَجَبُنَ عَنِ الْعَدُوِّ أَنْ يُقَاتِلَهُ، فَلْيُكْثِرْ أَنْ يَقُولَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، فَإِنَّهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ جَبَلِ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ يُنْفَقَانِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
یعنی:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص رات کے قیام سے گھبراتا ہو (یعنی رات کو جاگ کر عبادت کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو)، یا مال خرچ کرنے میں بخل کرتا ہو، یا دشمن سے لڑنے کی ہمت نہ رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ کثرت سے ‘سبحان اللہ وبحمدہ’ کہے، کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک ایک پہاڑ کے برابر سونا اور چاندی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔”
رواه الفريابي والطبراني واللفظ له وهو حديث غريب ولا بأس بإسناده إن شاء الله…..
(گل رحمٰن تخت بھائی، ضلع مروان)
تحقیقی جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث کی اصل اور اسناد کی تفصیل
1. فریابی کی روایت
(جس کا اصل متن یہاں موجود نہیں)
لیکن اس کی سند المعجم الکبیر للطبرانی (8/263، حدیث 7877) میں موجود ہے۔
یہ سند درج ذیل راویوں پر مشتمل ہے:
◈ عثمان بن ابی العاتکہ: جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ (دیکھئے: مجمع الزوائد 10/210)
◈ علی بن یزید الصبہانی: ضعیف راوی ہے۔ (تقریب التہذیب: 4817)
لہٰذا یہ روایت ان دونوں راویوں کی وجہ سے ضعیف ہے۔
2. طبرانی کی ایک اور سند
روایت درج ذیل سند کے ساتھ ہے:
"حدثنا أحمد بن محمد بن يحيى بن حمزة الدمشقي، حدثني أبي عن أبيه، ثنا حداد العذري مع ابن جابر، عن العباس بن ميمون، عن القاسم، عن أبي أمامة”
(المعجم الکبیر 8/228، حدیث 7795)
اس سند کی کمزوریاں:
◈ احمد بن یحییٰ بن حمزہ: اپنے والد سے روایت کرنے میں سخت مجروح ہے۔ (دیکھئے: لسان المیزان 1/650، الثقات لابن حبان 9/74)
ارشاد القاضی والدانی تراجم شیوخ الطبرانی (ص180، رقم 214) میں "ضعیف، صاحب مناکیر و غرائب” قرار دیا گیا ہے۔
◈ حداد العذری: اس کی توثیق معلوم نہیں۔
◈ عباس بن میمون: اس کی توثیق بھی معلوم نہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر یہ سند تین علتوں کی بنا پر ضعیف و مردود ہے۔
3. طبرانی کی ایک تیسری سند
سند: المعجم الکبیر 8/230، حدیث 7800
اس سند میں راوی:
◈ سلیمان احمد الواسطی: جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔
✿ ہیثمی کا قول: "وثقه عبدان وضعفه الجمهور” (مجمع الزوائد 10/94)
✿ امام بخاری رحمہ اللہ: "فیہ نظر” (التاریخ الکبیر 4/3)
✿ ابن عدی: وہ یا تو حدیثیں چوری کرتا تھا یا ان میں اشتباہ کر بیٹھتا تھا۔ (الکامل 3/1140، دوسرا نسخہ 4/297)
یہ سند بھی ضعیف و مردود ہے۔
4. شواہد اور دیگر روایات
(الف) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
الترغیب والترہیب للاصبہانی (ق762، مصورۃ الجامعۃ الاسلامیہ)
سند کی کمزوریاں:
◈ یوسف بن العنبس الیمانی: نامعلوم راوی۔
◈ عکرمہ بن عمار اور یحییٰ بن ابی کثیر: دونوں مدلس ہیں، اور سند میں "عن” کے ساتھ روایت ہے۔
◈ عکرمہ کی یحییٰ سے روایت مشکوک ہے۔
لہٰذا یہ روایت چار وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔
(ب) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت
مسند البزار (البحر الزخار 11/168، حدیث 490) اور مسند عبد بن حمید (641) وغیرہ میں مذکور ہے:
اسرائیل عن ابی یحییٰ عن مجاہد عن ابن عباس
◈ ابو یحییٰ القتات: جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ (مجمع الزوائد 10/74)
(ج) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت
معجم الاسماعیلی (3،2/27، حدیث 342)
نیز دیکھئے: الصحیحہ للالبانی 6/482، حدیث 2714
◈ سفیان ثوری: ثقہ لیکن مدلس ہے، اور "عن” سے روایت کی ہے، لہٰذا سند ضعیف ہے۔
◈ شعب الایمان للبیہقی (607، دوسرا نسخہ 599): اس میں حمزہ الیزیات کی متابعت ہے، لیکن اس سند میں مہران بن ہارون بن علی الرازی نامعلوم راوی ہے۔
(د) مسند احمد (1/387، حدیث 367) میں موجود روایت
یہ روایت مختلف متن کے ساتھ ہے۔
◈ صباح بن محمد: ضعیف راوی ہے۔ (دیکھئے: مشکوٰۃ المصابیح بتحقیقی: 4994)
نتیجہ تحقیق (خلاصہ)
یہ حدیث اپنے تمام طرق اور اسناد کے ساتھ ضعیف ہے۔ کوئی بھی سند ایسی نہیں جو مرفوع روایت کو صحیح یا حسن بناتی ہو۔
قائدہ عظیمہ – صحیح و مستند اثر
محمد بن طلحہ بن مصرف الیمانی نے صحیح سند سے بیان کیا:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَخْلاَقَكُمْ ، كَمَا قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَرْزَاقَكُمْ , وَإِنَّ اللَّهَ , عَزَّ وَجَلَّ , يُعْطِي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ ، وَمَنْ لاَ يُحِبُّ , وَلاَ يُعْطِي الدِّينَ إِلاَّ لِمَنْ أَحَبَّ , فَمَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ الدِّينَ فَقَدْ أَحَبَّهُ …..
(المعجم الکبیر للطبرانی 9/229، حدیث 8990)
مزید فرماتے ہیں:
"… تو جو شخص مال خرچ کرنے سے ڈرے، جہاد سے گھبرائے، اور عبادتِ شب میں مشقت محسوس کرے، اسے چاہیے کہ کثرت سے ‘لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، الحمد للہ، سبحان اللہ’ کہے۔”
◈ اس کی سند محمد بن طلحہ کی وجہ سے حسن لذاتہ ہے۔
◈ زہیر بن معاویہ (الزہد لابی داؤد 157) اور مالک بن مغول (حلیۃ الاولیاء 4/165) نے اس کی متابعت کی ہے، لہٰذا یہ اثر صحیح ہے۔
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اس موقوف روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (العلل 5/271، سوال 872)
یہ روایت اگرچہ موقوف ہے، لیکن اس کا مفہوم حکماً مرفوع معلوم ہوتا ہے۔
واللہ اعلم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب