فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی صاحب ! السلام علیکم ! امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہونگے۔
میں اس خط کے ذریعے سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ منصور حلاج کون تھا؟ کس صدی میں گزرا ہے اور کس جرم کی پاداش میں اسے قتل کیا گیا تھا۔ محدثین اور علماء محققین منصور حلاج کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ دلائل سے ثابت کریں ۔
(والسلام فقط انعام الرحمٰن تحصیل و ضلع صوابی گاؤں و ڈاکخانہ زروبی محلّہ بوزرخیل)
الجواب :
حسین بن منصور الحلاج کا تعارف :
حسین بن منصور الحلاج ، جسے جاہل لوگ منصور الحلاج کے نام سے یاد کرتے ہیں، کا مختصر و جامع تعارف درج ذیل ہے:
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
المقتول على الزندقة، ماروي ولله الحمد شيئا من العلم، وكانت له بداية جيدة و تأله و تصوف، ثم انسلخ من الدين، وتعلم السحر وأراهم المخاريق، أباح العلماء دمه فقتل سنة احدي عشرة و ثلاثمائة [ ميزان الاعتدال ج 1 ص 548 ]
” اسے زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے علم کی کوئی چیز روایت نہیں کی۔ اُس کی ابتدائی حالت (بظاہر) اچھی تھی، عبادت گزاری اور تصوف (کا اظہار کرتا تھا) پھر وہ دین (اسلام) سے نکل گیا، جادو سیکھا اور (استدراج کرتے ہوئے) خرق عادت چیزیں لوگوں کو دکھائیں، علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ اس کا خون (بہانا) جائز ہے لہذا اس 311ھ میں قتل کیا گیا ۔“
◈ حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں کہ :
والناس مختلفون فيه، وأكثرهم على أنه زنديق ضال [لسان الميزان ج 2 ص 314 والنسخة المحققة 582/2 ]
”لوگوں کا اس (حسین بن منصور الحلاج) کے بارے میں اختلاف ہے، اکثریت کے نزدیک و ہ زندیق گمراہ (تھا) ہے ۔“
دورِ متاخرین میں اسماء الرجال کے ان دو جلیل القدر اماموں اور اسماء الرجال کی دو مشہور ترین کتابوں سے جمہور علماء کے نزدیک حلاج مذکور کا زندیق و گمراہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
◈ جلیل القدر امام ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن یحییٰ البغدادی (ابن حیویہ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
لما أخرج حسين الحلاج ليقتل مضيت فى جملة الناس ، ولم أزل أزاحم حتي رأيته، فقال لأصحابه: لا يهولنم هذا، فإني عائد إليكم بعد ثلاثين يوما، ثم قتل [تاريخ بغداد ج ۸ ص ۱۳۱ ت ۴۲۳۲ و سنده صحيح، المنتظم لابن الجوزي ۴۰۶/۱۳ وقال :”وهذا الإسناد صحيح لاشك فيه“ لسان الميزان ۳۱۵/۲ وقال:“وإسناد ها صحيح” ]
”جب حسین (بن منصور) حلاج کو قتل کے لئے (جیل سے ) نکالا گیا تو لوگوں کے ساتھ میں بھی (دیکھنے کے لئے) گیا، میں نے لوگوں کے رش کے باوجود اُسے دیکھ لیا، وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا:تم اس سے نہ ڈرنا، میں تیس (۳۰) دنوں بعد تمہارے پاس دوبارہ (زندہ ہوکر) آجاؤں گا پھر وہ قتل کر دیا گیا۔“
اس صحیح سند سے معلوم ہوا کہ حسین بن منصور حلاج جھوٹا شخص تھا۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
وعند جماهير المشائخ الصوفية و أهل العلم أن الحلاج لم يكن من المشائخ الصالحين، بل كان زنديقا [ مجموع فتاويٰ ج ۸ ص ۳۱۸ ]
”جمہور مشائخِ تصوف اور اہلِ علم (علمائے حق) کے نزدیک حلاج نیک لوگوں میں سے نہیں تھا بلکہ زندیق (بہت بڑا ملحد و گمراہ) تھا۔“
الحمد لله رب العالمين، الحلاج قتل على الزندقة [مجموع فتاوي ۱۰۸/۳۵]
اللہ رب العالمین کا شکر ہے ، حلاج کو زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔
شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں کہ :
وكذلك من لم يجوز قتل مثله فهو مارق من دين الاسلام [مجموع فتاويٰ ج۲ ص ۴۸۶]
”اور اسی طرح جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ (شخص) دینِ اسلام سے خارج ہے ۔“
◈ حافظ ابن الجوزی نے اس (حسین بن منصور ) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے :
القاطع المحال اللجاج القاطع بمحال الحلاج [المنتظم ۲۰۴/۱۳ ]
ابن جوزی فرماتے ہیں :
أنه كان ممخرقا [ايضاً ۲۰۶/۱۳]
”بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا۔ “
ان شدید جرحوں کے مقابلے میں حلاج مذکور کی تعریف و توثیق ثابت نہیں ہے۔
ظفر احمد عثمانی تھانوی دیوبندی صاحب نے اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کی زیرِ نگرانی ایک کتاب لکھی ہے “القول المنصور فی ابن منصور، سیر منصور حلاج”یہ کتاب مکتبہ دارالعلوم کراچی نمبر ۱۴ سے شائع شدہ ہے ۔ اس کتاب میں تھانوی صاحب نے موضوع، بے اصل اور مردود روایات جمع کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ (دیوبندیوں کے نزدیک) حسین بن منصور حلاج اچھا آدمی تھا ۔
مثال نمبر ۱۔ تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
”لوگوں کے اسرار بیان کردیتے، ان کے دِلوں کی باتیں بتلا دیتے (یعنی کشف ضمائر بھی حاصل تھا) اسی وجہ سے ان کو حلاج الاسرار کہنے، پھر حلاج لقب پڑگیا۔“ [سيرت منصور حلاج ص ۳۱ ]
تبصرہ: اس قول کی بنیاد تاریخِ بغداد کی ایک روایت ہے جسے احمد بن الحسین بن منصور نے تستر میں بیان کیا تھا ۔ [ ج۸ ص ۱۱۳ ]
احمد بن الحسین بن منصور کے حالات معلوم نہیں ہیں لہذا یہ شخص مجہول ہے ۔
مثال نمبر ۲۔ تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
” حسین بن منصور نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے حدوث کو لازم کردیا ہے ….“ [سيرت منصور حلاج ص ۴۷ بحواله رساله قشيريه ]
عبدالکریم بن ہوازن القشیری کے الرسالۃ القشیریۃ میں یہ عبارت بحوالہ ابوعبدالرحمٰن (محمد بن الحسین) السلمی النیسابوری لکھی ہوئی ہے۔
[ وكان صدوقاً، له معرفة بالحديث وقد درس شيئاً من فقه الشافعي، وله مذهب مستقيم و طريقة جميلة / تاريخ بغداد ۴۱۱/۳ ص۱۳ مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت لبنان ]
ابو عبدالرحمٰن السلمی اگر چہ اپنے عام شہر والوں اور اپنے مریدوں کے نزدیک جلیل القدر تھا مگر اسی شہر کے محدث محمد بن یوسف القطان النیسابوریفرماتے ہیں کہ:
كان أبو عبدالرحمٰن السلمي غير ثقة…….وكان يضع للصوفية الأحاديث [تاريخ بغداد ج۲ ص ۲۴۸ و سنده صحيح ]
”ابو عبدالرحمٰن السلمی غیر ثقہ تھا….. اور صوفیوں کے لئے احادیث گھڑتا تھا ۔“
اس شدید جرح کے مقابلے میں سلمی مذکور کی تعدیل بطریقہِ محدثین ثابت نہیں ہے ۔ سلمی کے استاد محمد بن محمد بن غالب اور اس کے استاد ابو نصر احمد بن سعید الاسفنجانی کی توثیق میں بھی مطلوب ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس موضوع سند کو تھانوی صاحب نے فخریہ پیش کیا ہے۔
تنبیہ بلیغ: عبدالکریم بن ہوازن نے رسالہ قشیریہ میں حسین الحلاج کو بطورِ ولی ذکر نہیں کیا۔ رسالہ قشیریہ اس کے ترجمہ سے خالی ہے ۔ کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طور پر اگر ایک موضوع روایت میں اُس کا نام آگیا ہے تو اس پر خوشی نہیں منانی چاہئے۔
تنبیہ بلیغ: حسین بن منصور الحلاج اولیاء اللہ میں سے نہیں تھا بلکہ وہ ایک گمراہ وزندیق صوفی تھا جسے جلیل القدر فقہاء اسلام کے متفقہ فتوے کی بنیاد پر چوتھی صدی ہجری کے شروع میں قتل کردیا گیا تھا ، اس کی کرامتوں کے بارے میں سارے قصے موضوع و بے اصل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ولا أري يتعصب للحلاج إلا من قال بقوله الذى ذكر أنه عين الجمع فهذا هو قول أهل الوحدة المطلقة و لهذا تري ابن عربي صاحب الفصوص يعظمه ويقع فى الجنيد والله الموفق [ لسان الميزان ج ۲ ص ۳۱۵، وسيرت منصور حلاج ص ۴۵ حاشيه ]
”میری رائے میں حلاج کی حمایت ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں کرتا جو اس کی اس بات کے قائل ہیں جس کو وہ عین جمع کہتے ہیں اور یہی اہل وحدت مطلقہ کا قول ہے اس لئے تم ابن عربی صاحب فصوص کو دیکھو گے کہ وہ حلاج کی تو تعظیم کرتے ہیں اور جنید کی تحقیر کرتے ہیں۔“
اہلِ وحدت مطلقہ سے مراد وہ صوفی حضرات ہیں جو وحدت الوجود اور حلولیت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔تعالی اللہ عما یقولون علواً کبیراً
اس قول کا رد ظفر احمد تھانوی صاحبؒ نے رسالہ قشیریہ کی موضوع روایت سے کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ رد تحقیقی میدان میں بذاتِ خود مردود ہے۔ تھانوی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ”ابن منصور اور جنید کا عقیدہ توحید ایک ہی تھا“ (ص۴۶) مگر انہوں نے اس دعویٰ پر کوئی صحیح دلیل پیش نہیں کی۔ علمی میدان میں عبدالوہاب الشعرانی، خرافی صوفی بدعتی کے بے سند حوالوں سے کام نہیں چلتا بلکہ صحیح و ثابت سندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہوں یا سلف صالحین کے آثار و اسماء الرجال کے حوالے، سب کے لئے صحیح و حسن لذاتہ اسانید کی ضرورت ہے۔
شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمہ اللہ (متوفی ۱۸۱ھ) فرماتے ہیں کہ:
الإسناد من الدين، ولولا الإسناد لقال من شاء ماشاء [مقدمه صحيح مسلم ترقيم دارالسلام: ۳۲ و سنده صحيح]
”سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا۔“