سوال:
بعض صوفیا دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں جو وجد ہوتا ہے، اس پر ان کا اختیار نہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے؟
جواب:
وجد اور حال جو صوفیوں کے اعمال و افعال ہیں، بے حقیقت اور بے ثبوت ہیں۔ انہیں تلبیس ابلیس کہہ سکتے ہیں، شیطان ان پر یہ کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ یہ وجد اور حال نصاریٰ سے مستعار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام رحمہم اللہ اور تبع تابعین رحمہم اللہ سے ایسا ہرگز ثابت نہیں۔
❀ علامہ سرخسی حنفی رحمہ اللہ (483ھ) فرماتے ہیں:
إن ما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة مكروه ولا أصل له فى الدين
لوگ جو وجد اور محبت کے حال کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کا یہ عمل مکروہ ہے، اس کی دین میں کوئی اصل نہیں۔
(شرح السير الكبير، ص 90؛ البحر الرائق: 5/82)
فقہ حنفی کی معتبر کتاب میں لکھا ہے:
ما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة لا أصل له
لوگ جو وجد اور محبت کے حال کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کی کوئی اصل نہیں۔
(فتاویٰ عالمگیری: 5/319)
❀ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (855ھ) فرماتے ہیں:
ويجب منع الصوفية الذين يدعون الوجد والمحبة عن رفع الصوت وتمزيق الثياب عند سماع الغناء لأن ذلك حرام عند سماع القرآن، فكيف عند الغناء الذى هو حرام خصوصا فى هذا الزمان الذى اشتهر فيه الفسق، وظهرت فيه أنواع البدع، واشتهرت فيه طائفة تحلوا بحلية العلماء، وتزيوا بزي الصلحاء، والحال أن قلوبهم مليئة من الشهوات والأهواء الفاسدة، وهم فى الحقيقة ذئاب نعوذ بالله من شرهم، فالعجب منهم أنهم يدعون محبة الله، ويخالفون سنة رسوله، لأنهم يصفقون بأيديهم، ويطربون وينعرون ويصعقون، وكل ذلك جهل منهم، فمن ادعى محبة الله وخالف سنة رسوله، فهو كذاب، وكتاب الله يكذبه، فلا شك فى أنهم لا يعرفون ما الله ولا يدرون ما محبة الله وهم قد يصورون فى أنفسهم الخبيثة صورة معشقة وخيالا فاسدا، فيظهرون بذلك وجدا عظيما، وبكاء جسيما، وحركات مختلفة، وبعبعة عظيمة، والأزباد تنزل من أفواههم حتى أن الجهال والحمقاء من العامة يعتقدونهم ويلازمونهم، وينسبون أنفسهم إليهم، ويتركون شريعة الله وسنة رسوله، فما هم إلا فى الدعاوى الفاسدة، والأقوال الكاسدة، أعاذنا الله وإياكم من شر هؤلاء الطائفة، ومن شر الجنة والناس
جو صوفیا وجد اور محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں موسیقی سنتے وقت آوازیں بلند کرنے اور کپڑے پھاڑنے سے وجوبی طور پر روکا جائے گا، کیونکہ آوازیں بلند کرنا اور کپڑے پھاڑنا تو قرآن سنتے وقت بھی حرام ہے، تو موسیقی، جو کہ خود حرام عمل ہے، کو سنتے وقت ایسا کرنا کیونکر جائز ہوگا؟ خاص طور پر ہمارے دور میں، کہ اب گناہ عام ہو چکا ہے اور قسم قسم کی بدعات ظاہر ہو چکی ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایک گروہ مشہور ہو چکا ہے، جنہوں نے علما جیسا حلیہ بنا رکھا ہے اور صلحا کا روپ دھار رکھا ہے، جبکہ حقیقت میں ان کے دل شہوت اور فاسد خواہشات سے بھرے پڑے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ بھیڑیے ہیں، اللہ ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ یہ تالیاں بجاتے ہیں، گانے گاتے ہیں، چیخیں مارتے ہیں اور خود پر بے ہوشی طاری کر لیتے ہیں۔ یہ سب ان کی جہالت ہے۔ جو شخص اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے، مگر سنت رسول کی مخالفت کرے، وہ کذاب ہے۔ کتاب اللہ اسے جھوٹا کہتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ کون ہے؟ نہ ہی یہ اللہ کی محبت سے واقف ہیں۔ یہ اپنے خبیث دلوں میں عشقیہ تصویر بناتے ہیں اور فاسد خیال سوچتے ہیں، پھر اس سے بہت بڑے وجد کا اظہار کرتے ہیں، بری طرح روتے ہیں، طرح طرح کی حرکات کرتے ہیں اور تیز تیز زبان سے الفاظ ادا کرتے ہیں، ان کے منہ سے جھاگ بہہ رہی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جاہل اور بے وقوف عوام ان پر اعتقاد رکھتے ہیں، ان کی صحبت اختیار کرتے ہیں، خود کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اللہ کی شریعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ترک کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ محض فاسد دعوؤں اور بودے اقوال کو مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے لوگوں کے شر سے اور جن وانس کے شر سے محفوظ رکھے۔
(منحة السلوك في شرح تحفة الملوك، ص 489)