"صلوۃ المسلمین میں بیان کردہ 2 طرح کی روایات کا تحقیقی جائزہ”
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1، کتاب الصلاة، صفحہ 404

سوال

مسعود احمد صاحب کی تصنیف "صلوۃ المسلمین” پر عمل کیا جا رہا ہے۔ کیا اس کتاب پر عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے؟ اس میں دیے گئے مسائل کیا مستند ترین ہیں؟
(عبدالستار سومرو، کراچی)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسعود احمد خارجی تکفیری کی تصنیف "صلوۃ المسلمین” دو قسم کی مرویات پر مشتمل ہے:

  1. ➊ صحیح و حسن احادیث:
    ان روایات کو مسعود احمد صاحب نے اہل حدیث محققین و دیگر علماء جیسے:◈ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ
    ◈ علامہ شوکانیؒ
    ◈ شیخ البانیؒ وغیرہمسے صراحتاً نقل کیا ہے۔

    والحمد للہ، ان روایات کی صحت پر کوئی اشکال نہیں۔

  2. ➋ ضعیف و مردود روایات:
    مثال کے طور پر:"صلوۃ المسلمین” اشاعت پنجم (صفحہ 305 تا 307) میں ایک قنوت نقل کی گئی ہے، جسے مسعود صاحب نے مصنف عبدالرزاق (جلد 3، صفحہ 116) سے نقل کرتے ہوئے "سندہ صحیح” قرار دیا ہے۔ 
  3. اصل سند مصنف عبدالرزاق حدیث 4982 میں اس طرح منقول ہے:

    "عن معمر عن عمرو عن الحسن” الخ

    عمرو سے مراد عمرو بن عبید ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل کتب سے ثابت ہے:

    ◈ مصنف عبدالرزاق (حدیث 19985)
    ◈ تہذیب الکمال (جلد 14، صفحہ 276)

عمرو بن عبید المعتزلی کی حقیقت:

عمرو بن عبید المعتزلی سخت مجروح راوی ہے:

◈ یونس بن عبید، حمید الطویل، عوف الاعرابی، ابن عون، ایوب سختیانی جیسے جلیل القدر محدثین نے اسے کذاب قرار دیا۔

◈ حمید الطویل نے کہا: "وہ حسن بصری پر جھوٹ بولتا ہے”

◈ ابوحاتم الفلاس وغیرہ نے اسے متروک قرار دیا۔

تفصیلی حوالے:

میزان الاعتدال (جلد 3، صفحات 273 تا 280)
تہذیب التہذیب (جلد 8، صفحات 69 تا 73)

نتیجہ:

ایسی سند کو "سندہ صحیح” کہنا صرف مسعود احمد جیسے افراد کا کام ہو سکتا ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ:

◈ مسعود احمد کو حدیث و قرآن کا علم نہیں۔
◈ وہ سلف صالحین کے فہم سے قرآن و حدیث کو نہیں سمجھتے۔

لہٰذا، اس کتاب پر بغیر تحقیق کے عمل نہ کیا جائے۔

مفید متبادل:

اس موضوع پر مستند رہنمائی کے لیے درج ذیل کتاب کا مطالعہ تمام مسلمانوں کے لیے مفید ہے:

"مختصر صحیح نماز نبوی”
(ناشر: مکتبۃ الحدیث حضرو اور مکتبہ اسلامیہ)
شہادت، مارچ 2000

ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1