سوال:
صلاۃ التسبیح کی فضیلت اور طریقہ کیا ہے؟
جواب:
اللہ رب العزت کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو نوافل کے ذریعے قرب بخشا، انہیں مغفرت و بخشش کے اسباب عطا فرمائے۔ ان اسباب میں سے ایک نماز تسبیح ہے۔ یہ بڑی فضیلت والی نماز ہے، روزانہ پڑھیں، ہفتہ میں یا مہینہ میں ایک مرتبہ، سال بعد ایک مرتبہ یا زندگی میں ایک بار پڑھ لیں۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت و برکت سے دامن بھر لیں۔ اس نماز کا ثبوت اور طریقہ ملاحظہ ہو۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
”چچا! کیا میں آپ کو تحفہ نہ دوں، کیا میں آپ کو گراں مایہ چیز مفت عطا نہ کر دوں، کیا دس ایسی خصلتیں بیان نہ کروں کہ انہیں اپنائیں، تو اللہ تعالیٰ آپ کے اول و آخر، قدیم و جدید، دانستہ و نادانستہ، صغیرہ و کبیرہ، مخفی و ظاہری تمام گناہ معاف کر دے؟ چار رکعات ادا کریں۔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ کوئی سورت پڑھیں، پھر پہلی رکعت میں قرآت سے فارغ ہو کر حالت قیام میں ہی پندرہ دفعہ یہ کلمات پڑھیں: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر۔ اللہ پاک ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اس کے سوا کوئی الہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ پھر آپ رکوع کریں اور رکوع کی حالت میں تسبیحات کے بعد دس مرتبہ یہ کلمات پڑھیں، رکوع سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ یہ کلمات پڑھیں، سجدے کے لیے جھک جائیں اور سجدے کی حالت میں تسبیحات کے بعد دس مرتبہ یہ کلمات پڑھیں، سجدے سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ یہ کلمات پڑھیں، دوسرا سجدہ کریں اور دس مرتبہ یہ کلمات پڑھیں، پھر سجدے سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ وہی کلمات پڑھیں۔ یہ ہر رکعت میں پچھتر (75) تسبیحات ہو جائیں گی۔ چاروں رکعتوں میں اسی طرح کریں۔ روزانہ پڑھ سکتے ہیں، تو روزانہ پڑھیں، ورنہ ہفتے میں ایک بار، یہ بھی نہ ہو تو ہر مہینے ایک مرتبہ پڑھ لیں، یہ ممکن نہ ہو، تو سال میں ایک مرتبہ، یہ بھی ممکن نہ ہو، تو زندگی میں ایک مرتبہ پڑھ لیں۔“
(سنن أبي داود: 1297، سنن ابن ماجه: 1387، صحيح ابن خزيمة: 1216، المعجم الكبير للطبراني: 11622، المستدرك للحاكم: 1/318، المختارة للضّياء المقدسي: 332، وسنده حسن)
جمہور محدثین نے اس حدیث کی تصحیح یا تحسین کی ہے۔
❀ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يروى فى هذا الحديث إسناد أحسن من هذا.
”اس حدیث کی اس سے بہتر کوئی سند موجود نہیں۔“
(الإرشاد للخليلي: 1/326، وسنده صحيح)
❀ امام ابو بکر بن ابی داود بجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أصح حديثا فى التسبيح حديث العباس.
”نماز تسبیح کے بارے میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح ترین ہے۔“
(الثقات لابن شاهين: 1356)
امام حاکم رحمہ اللہ (اتحاف المهرة لابن حجر: 7/484) نے ”صحیح “کہا ہے۔
❀ حافظ منذری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو ائمہ کی ایک جماعت نے صحیح کہا ہے، جن میں سے حافظ ابو بکر آجری رحمہ اللہ، ہمارے شیخ ابو محمد عبد الرحیم مصری رحمہ اللہ اور ہمارے شیخ حافظ ابو حسن مقدسی رحمہ اللہ بھی ہیں۔“
(الترغيب والترهيب: 468/1)
❀ حافظ علائی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حديث حسن صحيح، رواه أبو داود وابن ماجة بسند جيد إلى ابن عباس.
”یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے امام ابو داود رحمہ اللہ اور امام ابن ماجه رحمہ اللہ نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جید سند سے روایت کیا ہے۔“
(النقد الصحيح، ص 30)
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا الإسناد جيد.
” سند جید ہے۔“
(البدر المنير:236/4)
❀حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد حسن.
”یہ سند حسن ہے۔“
(اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة: 35/2، مرقاة الصعود: 410/1)