صلاة عاشورا
دس محرم کو عبادت کے لیے خاص کرنا بدعت ہے۔ نماز عاشورا کی مشروعیت پر کوئی دلیل با سند صحیح ثابت نہیں، البتہ موضوع (من گھڑت) اور سخت ضعیف روایات موجود ہیں۔
دلیل نمبر: 1
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من أحيا ليلة عاشوراء فكأنما عبد الله تعالى بمثل عبادة أهل السماوات، ومن صلى أربع ركعات، يقرأ فى كل ركعة الحمد مرة، وخمسة مرة قل هو الله أحد، غفر الله له ذنوب خمسين عاما ماضيا، وخمسين عاما مستقبلا، وبنى له فى المثل الأعلى ألف ألف منبر من نور
جس نے عاشورا کی رات عبادت کی، اس نے فرشتوں جیسی عبادت کی۔ جو آدمی چار رکعت نماز ادا کرے، ہر رکعت میں ایک بار سورت فاتحہ اور پانچ مرتبہ سورت اخلاص پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ پچاس برس اور آئندہ پچاس برس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور مثل اعلیٰ (جنت میں ایک مقام کا نام) میں اس کے لیے دس لاکھ نور کے منبر تیار کر دیتا ہے۔
(الموضوعات لابن الجوزي: 432/2، ح: 1004)
روایت کی اسنادی حیثیت:
جھوٹی روایت ہے۔ محمد بن علی عشاری کی مرویات میں کسی نے من گھڑت روایات شامل کر دی گئی تھیں، جسے وہ پہنچا نہ سکا۔
❀ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
محمد بن على بن الفتح، أبو طالب العشاري شيخ صدوق معروف، لكن أدخلوا عليه أشياء فحدث بها بسلامة باطن، منها حديث موضوع فى فضل ليلة عاشوراء
محمد بن علی بن الفتح ابو طالب عشاری مشہور صدوق ہے، لیکن اس کی مرویات میں بعض (ضعیف و من گھڑت) روایتیں شامل کر دی گئی ہیں، ثقہ ہونے کے باوجود اس نے یہ روایات بیان کی ہیں، اس کی مرویات میں شب عاشورا کی فضیلت کے بارے میں بھی من گھڑت روایت موجود ہے۔
❀ نیز فرماتے ہیں :
قد أدخل فى سماعه ما لم يتفطن له
اس کے سماع میں ایسی چیزیں شامل کر دی گئیں ہیں، جن کا اسے خود علم نہیں۔
(میزان الاعتدال: 656/3)
حافظ ابن الجوزی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
هذا حديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أدخل على بعض المتأخرين من أهل الغفلة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت نہیں، بعض غافل متاخرین کی وجہ سے ذخیرہ حدیث میں داخل کر دی گئی ہے۔
(الموضوعات: 432/2)
نیز من گھڑت کہا ہے۔
(الموضوعات: 579، 576/2، ح: 1140)
دلیل نمبر: 2
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من صلى يوم عاشوراء ما بين الظهر والعصر أربعين ركعة، يقرأ فى كل ركعة بفاتحة الكتاب مرة، وآية الكرسي عشر مرات، وقل هو الله أحد إحدى عشرة مرة، والمعوذتين خمس مرات، فإذا سلم استغفر سبعين مرة، أعطاه الله فى الفردوس قبة بيضاء فيها بيت من زمردة خضراء، سعة ذلك البيت مثل الدنيا ثلاث مرات، وفي ذلك البيت سرير من نور، قوائم السرير من العنبر الأشهب، على ذلك السرير ألفا فراش
جو عاشورا کے دن ظہر اور عصر کے درمیان چالیس رکعات ادا کرے، ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورت فاتحہ اور دس مرتبہ آیۃ الکرسی، گیارہ مرتبہ سورت اخلاص اور پانچ مرتبہ معوذتین پڑھے، سلام پھیرنے کے بعد ستر دفعہ استغفار کرے، تو اللہ رب العزت اسے جنت الفردوس میں سفید قبہ عطا کرے گا، اس میں ایک سبز پتھر کا گھر ہوگا، اس گھر کی وسعت دنیا سے تین گنا ہوگی، پھر اس گھر میں نورانی تخت ہوگا، جس کے پائے عنبر اشہب (سرخ) کے ہوں گے اور اس تخت پر دو ہزار (زعفرانی) بستر ہوں گے۔
(الموضوعات لابن الجوزي: 433/2، ح: 1005)
روایت کی اسنادی حیثیت:
جھوٹی روایت ہے۔ سند میں کئی مجہول راوی ہیں۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
هذا حديث موضوع وكلمات الرسول عليه السلام منزهة عن مثل هذا التخليط والرواة مجاهيل
یہ من گھڑت حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ اس جیسی تخلیط سے منزہ ہیں، اس کے راوی مجہول ہیں۔
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ (تلخيص الموضوعات، ص 184، ح: 430) اور حافظ سیوطی رحمۃ اللہ (اللالي المصنوعة: 54/2-55) نے حافظ ابن الجوزی رحمۃ اللہ کا حکم برقرار رکھا ہے۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں
ليس فى عاشوراء حديث صحيح غير الصوم، وكذلك ما يروى فى فضل صلوات معينة فيه فهذا كله كذب موضوع باتفاق أهل المعرفة، ولم ينقل هذه الأحاديث أحد من أئمة أهل العلم فى كتبهم
روزے کے علاوہ عاشورا کے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں، اسی طرح اس ماہ کی مخصوص نمازوں کے بارے میں منقول روایات معرفت حدیث رکھنے والے محدثین کے نزدیک بالا تفاق جھوٹی اور من گھڑت ہیں، ائمہ محدثین میں سے کسی نے انہیں اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا۔
(منهاج السنة: 433/7)