صف کے پیچھے اکیلا نمازی
«عن على بن شيبان قال: خرجنا حتي قدمنا على النبى صلى الله عليه وسلم فبايعناه وصلينا خلفه ثم صلينا وراءه صلوة اخري فقضي الصلوة فر أى رجلا فردا يصلي خلف الصف قال: فوقف عليه نبي الله صلى الله عليه وسلم حين انصرف، قال: استقبل صلاتك، فلا صلوة لفرد خلف الصف»
علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کی بیعت کی، اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی، پھر ہم نے آپ کے پیچھے ایک دوسری نماز پڑھی، آپ نے نماز ادا کی تو ایک شخص کو دیکھا کہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا ہے، آپ اس کے پاس کھڑے ہو گئے جب اس نے سلام پھیرا تو آپ نے حکم دیا کہ اپنی نماز دوبارہ پڑھو، اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے۔ [سنن ابن ماجہ: ص 70 ح 1003، وقال البوصیری: اسنادہ صحیح رجالہ ثقات]
اسے ابن خزیمہ (30/3 ح 1569) اور ابن حبان (موارد ح 401) نے صحیح قرار دیا ہے۔
فوائد
(1)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے آدمی کی نماز نہیں ہوتی۔
(2)وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ میں بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا جو صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے۔ [سنن ابی داود: 1/106 ح 682، وصحہ ابن حبان (2198-2201)، وابن الجارود (ح: 319)، واسحاق وغیرہ، وحسنہ الترمذی (ح: 230)، والبغوی (ح: 824)]
(3)حدیث ابی بکرہ رضی اللہ عنہ کو اس مسئلہ میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے، ابو بکرہ رضی اللہ عنہ آخر تک صف کے پیچھے اکیلے نہیں تھے، بلکہ چل کر صف میں شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح مدرک رکوع کے سلسلہ میں حدیث ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے استدلال کرنا بھی غلط ہے۔ [دیکھیے جزء القراءہ للبخاری ح 136]
(4)اگر کوئی شخص دو (امام و مقتدی) پر قیاس کر کے اگلی صف سے ایک آدمی کھینچ کر ملالے تو جائز ہے، تاہم صف کے بالکل آخری کونے سے کھینچے تاکہ قطع صف سے بچ جائے، بعض علماء اس کو ترجیح دیتے ہیں کہ درمیان سے آدمی کھینچے تا کہ ”وسطوا الامام“ وغیرہ پر عمل ہو جائے۔ [سنن ابی داود: ح 681] یہ روایت یحییٰ بن بشیر کی ماں امتہ الواحد اور یحییٰ بن بشیر کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(5)حنفی اصول بزدوی میں وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کو جو مجہول لکھا ہوا ہے (ص 60) انتہائی غلط بات ہے، اس قسم کے اصول کی شعبدہ بازی سے تقلید پرست حضرات، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ حق یہ ہے کہ تمام صحابہ عدول ہیں، ان میں سے کوئی بھی مجہول نہیں۔
رضی اللہ عنہم اجمعین