صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نمازہ
اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو ، تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز نہیں ہوتی۔
دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دليل نمبر①:
🌸سید نا وابصہ بن معبد رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
إن رجلا صلى خلف الصف وحده، فأمره أن يعيد الصلاة .
’’ایک آدمی نے اکیلے صف کے پیچھے نماز ادا کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا ۔‘‘
🌿(سنن الترمذي : 230 ، سنن أبي داود : 682، سنن ابن ماجه : 1004، مسند الإمام أحمد : 228/4، سنن الدارمي : 2 : 815، ح : 1322 ، وسنده صحيح)
اسے امام ترمذی رحمتہ اللہ نے ’’حسن‘‘ امام ابن جارود (319) اور امام ابن حبان رحمتہ اللہ (الموارد :405) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
🌸ابن منذر رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :
قد ثبت هذا الحديث أحمد وإسحاق .
’’اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہو یہ رحمتہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔‘‘
🌿(الأوسط لابن المنذر : 184/4)
دلیل نمبر②:
🌸سیدنا علی بن شیبان رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
رأى رجلا فردا يصلي خلف الصت، فوقف عليه نبي الله صلى الله عليه وسلم حين انصرف، قال : استقبل صلاتك، فلا صلاة للذي خلف الصت».
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا، جو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ اس کے پاس کھڑے ہو گئے ، نماز سے فارغ ہوا، تو آپ نے فرمایا : نماز دوبارہ پڑھیں، صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز نہیں ہوتی ۔‘‘
🌿(مسند الإمام أحمد : 23/4 ، ح : 16297 ، سنن ابن ماجه : 1003 ، وسنده حسن)
🌸امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ کہتے ہیں :
هو حديث حسن .
’’یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
🌿(التلخيص الحبير : 37/2)
امام ابن خزیمہ ( 1569 ) اور امام ابن حبان (2206 ) ثبت نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ حافظ نووی راشن ( خلاصتہ الا حکام:2517 ) نے سند کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
دليل نمبر③:
🌸حماد بن ابی سلیمان (م : 120 ھ ) کہتے ہیں :
يعيد الصلاة .
’’ایسا شخص نماز دوبارہ پڑھے ۔‘‘
🌿(أيضا : 113، وسنده صحيح)
دلیل نمبر④:
امام احمد بن حنبل (م : 241ھ) اور امام اسحاق بن راہویہ (م : 238 ھ ) رحمتہ اللہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی بلکہ دوبارہ پڑھنی ہوگی۔
🌿(سنن الترمذي، تحت الحديث : 230 ، وسنده صحيح)
دلیل نمبر⑤:
🌸امام وکیع بن جراح رحمتہ اللہ (م : 197 ھ ) فرماتے ہیں :
إذا صلى الرجل خلف الصف وحده، فإنه يعيد .
’’صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے ، تو وہ نماز دہرائے ۔‘‘
🌿(أيضًا، تحت الحديث : 231 ، وسنده صحيح)
دلیل نمبر⑥:
🌸ابن منذر رحمتہ اللہ (م : 218 ھ) فرماتے ہیں:
صلاة الفرد خلف الصت باطل ، لقبوت خبر وابصة وخبر علي ابن الجعد بن شيبان.
’’صف کے پیچھے اکیلے کی نماز فاسد ہے ،اس بارے میں سید نا وابصہ اور سید نا علی بن جعد بن شیبان سے مروی احادیث صحیح ہیں۔‘‘
🌿(الأوسط : 184/4)
دليل نمبر⑦:
🌸امام دارمی رحمتہ اللہ (255 ھ ) فرماتے ہیں:
أقول به .
’’میں بھی سیدنا وابصہ والی حدیث کے مطابق فتوی دیتا ہوں۔‘‘
🌿(سنن الدارمي : 816/2، ح : 1323)
دليل نمبر ⑧:
🌸علامه ابن حزم رحمتہ اللہ (م : 456 ھ ) لکھتے ہیں :
’’ثابت ہوا کہ جو صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز اور صف قائم نہ رکھنے والے کی نماز کو درست کہتا ہے، اس کے پاس قرآن وسنت اور اجماع سے بالکل کوئی بھی دلیل نہیں۔‘‘
🌿(المحلى : 58/4، رقم المسئلة : 415)
دليل نمبر⑨:
🌸امام ابن خزیمہ رحمتہ اللہ (م :11 3 ھ ) اس حدیث پر تبویب فرماتے ہیں :
باب الزجر عن صلاة المأموم خلف الصف وحده .
’’صف کے پیچھے اکیلے آدمی کو نماز سے منع کرنے کا بیان۔‘‘
نیز فرماتے ہیں :
إن صلاته خلف الصف وحده غير جائزة، يجب عليه استقبالها .
’’صف کے پیچھے اکیلے آدمی کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ فرض ہے کہ وہ اسے دوبارہ ادا کرے۔‘‘
🌿(صحیح ابن خزيمة : 30/3)
اکیلے آدمی کی نماز کےجواز پردلائل اور ان پر تبصرہ:
صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی ، بعض احباب اسے جائز کہتے ہیں، ان کے استدلال کا جائزہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر ①:
🌸سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه بیان فرماتے ہیں :
صليت أنا ويتيم في بيتنا خلف النبي صلى الله عليه وسلم، وأمي أم سليم خلفنا .
’’میں اور ایک لڑکے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اپنے گھر نماز پڑھی۔ میری والدہ ام سلیم رضی الله عنه ہمارے پیچھے تھیں ۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 727 ، صحیح مسلم : 658)
تجزيه :
یہ اجازت عورت کے لئے خاص ہے، اکیلے مرد کی نماز کا جواز اس سے ثابت نہیں ہوتا۔
🌸امام بخاری رحمتہ اللہ کی تبویب ملاحظہ ہو :
باب : المرأة وحدها تكون صفا .
’’اس بات کا بیان کہ عورت اکیلی بھی ہو ، تو صف شمار ہوتی ہے۔‘‘
اگر مرد ا کیلا صف شمار ہو سکتا ہے، تو اس تبویب کا کیا مطلب ہوا؟ نیز مرد و عورت دونوں پر امام کے پیچھے صف بنانا ضروری ہے۔
🌸رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
سروا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة.
’’صفوں کو درست کیجئے ! کیونکہ صفوں کی درستی نماز کے قیام کا حصہ ہے۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 723 ، صحیح مسلم : 433)
اکیلی عورت کا صف ہونا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح فرمان کی وجہ سے جائز ہو گیا، جبکہ اکیلے مرد کے صف نہ ہونے پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واضح ہیں، لہٰذا اکیلے مرد کی صف کے جواز پر کوئی دلیل نہیں۔
🌸امام ابن خزیمہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :
’’سیدہ ام سلیم رضی الله عنه والی روایت سے دلیل لینے والے کہتے ہیں کہ عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا جائز ہے، تو مرد کے لیے بھی جائز ہے، لیکن میں اسے غلط سمجھتا ہوں۔ عورت کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اکیلی ہو، تو صف کے پیچھے کھڑی ہو، اس کا امام کے برابر کھڑا ہونا ممنوع ہے، اسی طرح وہ مردوں کی صف میں بھی کھڑی نہیں ہو سکتی، جبکہ مرد مقتدی اکیلا ہو، تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہوگا اور اگر مقتدی ایک سے زیادہ ہوں، تو امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوں گے ، حتی کہ پہلی صف مکمل ہو جائے ۔ اکیلا مقتدی ہو، تو اس کے لیے امام کے پیچھے کھڑا ہونا جائز نہیں۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر امام کے دائیں جانب مقتدی کھڑا ہو، تو بعد میں آنے والے کا پچھلی صف میں اکیلے کھڑا ہونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔‘‘
🌿(صحیح ابن خزيمة : 3 / 30)
🌸علامه ابن حزم رحمتہ اللہ (456 ھ ) فرماتے ہیں :
’’یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل نہیں، کیونکہ اس میں تو مردوں کے پیچھے عورتوں کا خاص حکم بیان ہوا ہے، جب عورتیں زیادہ ہوں ان کے لئے بھی صفوں کا قیام فرض ہو گا۔ یہ جائز نہیں کہ مذکورہ حدیث کی وجہ سے سیدنا وابصہ کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے یا حدیث وابصہ کی بنا پر عورت کی نماز والی حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔‘‘
🌿(المحلى : 57/4)
معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
دلیل نمبر ②:
🌸سید نا عبد اللہ بن عباس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
قام يصلي من الليل، فقمت عن يساره، فتناولني من خلف ظهره، فجعلني على يمينه .
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوئے، میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوا، تو آپ نے مجھے پیچھے سے پکڑا کر دائیں جانب کر دیا۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 726 ، صحیح مسلم : 763)
سیدنا جابر رضی الله عنه کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔
🌿(صحیح مسلم : 3010)
محل استشہاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں صحابہ کو پکڑ کر دائیں جانب لانا ہے اور وجہ استشہاد یہ ہے کہ جب دونوں صحابہ کو پیچھے لایا گیا، تو وہ ’’خلف الصف‘‘ یعنی صف کے پیچھے ہو گئے تھے۔ ان کی نماز ایسا کرنے سے باطل نہیں ہوئی ، لہٰذا صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز جائز ہے۔
تجزيه :
اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز جائز ہونے کا استدلال درست نہیں، کیونکہ سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی الله عنه نے صف کے پیچھے نماز نہیں پڑھی، بلکہ صرف ایک مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان دونوں صحابہ نے صف کے پیچھے سے اپنی جگہ تبدیل کرتے ہوئے نماز کا کچھ حصہ ادا کیا تھا، تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک مرد اپنی پوری نماز ہی صف کے پیچھے اکیلا ادا کر لے، بلکہ زیادہ سے زیادہ مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کرتے ہوئے ایسا کرنا جائز ہو گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کو عمومی طور پر کالعدم قرار دیا ہے ، اس سے یہ جگہ تبدیل کرنے کی مجبوری والی صورت خاص دلیل کی بنا پر خارج ہو جائے گی۔ صف میں نماز پڑھنے والے شخص کو صف تبدیل کرتے ہوئے اپنی صف کے پیچھے ہونے والی نماز دہرانی نہیں پڑے گی، جبکہ باہر سے آکر جماعت کے ساتھ ملنے والا شخص اگر صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے گا، تو اسے ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل کی بنا پر نماز دہرانی پڑے گی کیونکہ فرمانِ رسول یہی ہے۔ یوں اس سلسلے کی سب احادیث پر عمل ہو جائے گا۔
🌸علامہ ابن حزم رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس حدیث میں ان کے لیے کوئی دلیل نہیں، کیونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ احادیث کو ایک دوسرے کے خلاف کہنا جائز نہیں۔ یہ تو دین کے ساتھ مذاق اور تمسخر ہے۔ وابصہ اور علی بن شیبان رضی الله عنه کی روایت کو بنیاد بنا کر جابر اور ابن عباس رضی الله عنه کی روایت کو چھوڑ دینے والے اور جابر و ابن عباس رضی الله عنه کی روایت کو بنیاد بنا کر وابصه وعلی بن شیبان رضی الله عنه کی روایت کو چھوڑ دینے والے اس کام میں برابر ہیں۔ یہ سب صورتیں بالکل باطل نہیں اور بلا دلیل ہیں۔ اس سلسلے میں حق یہ ہے کہ ساری احادیث پر عمل کیا جائے ، یہ ساری حق ہیں ، ان کی مخالفت جائز نہیں۔‘‘
🌿(المحلى : 57/4)
نیز لکھتے ہیں :
ما سمي قط المدار عن شمال إلى يمين مصليا وحده خلف الصف .
’’بائیں سے دائیں جانب گھمائے جانے والے شخص کو کبھی بھی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کا نام نہیں دیا گیا۔‘‘ (ایضا)
دلیل نمبر ③:
🌸سیدنا ابو بکرۃ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
إنه انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو راكع، فركع قبل أن يصل إلى الصت، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال : زادك الله حرصا ولا تعد.
’’میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ رکوع میں تھے۔ انہوں نے صف کے ساتھ ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، پھر اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، تو آپ نے فرمایا : اللہ آپ کی حرص کو بڑھائے لیکن آئندہ ایسا مت کیجئے۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 783)
تجزيه :
اس روایت سے بھی ویسا ہی استدلال کیا گیا ہے، جیسا کہ سابقہ روایت سے کیا گیا تھا۔
حالانکہ واضح ہے کہ ابو بکرہ رضی الله عنه اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع کی حالت میں دیکھ کر فوراً پچھلی صف سے ہی رکوع میں چلے گئے اور پھر چل کر اگلی صف میں شامل ہو گئے ، ان کا یہ چلنا صف میں شامل ہونے کے لیے تھا ، نہ کہ اکیلے نماز پڑھنے کے لیے۔
اگر تسلیم کر لیا جائے کہ سیدنا ابو بکرہ رضی الله عنه نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی ، تو پھر بھی یہ دلیل نہیں بنتی، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کر دیا تھا کہ آئندہ یہ کام نہ کریں۔
🌸علامه ابن حزم رحمتہ اللہ کا فتویٰ ملاحظہ ہو :
هذا الخبر حجة عليهم لنا عليهم لنا ……. فقد ثبت أن الركوع دون الصت، ثم دخول الصت كذلك لا يحل .
’’یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے … اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صف کے پیچھے رکوع کر کے صف میں شامل ہونا بھی جائز نہیں (چہ جائیکہ ایک دو رکعات یا پوری نماز ادا کرنا ) ۔‘‘
🌿(المحلى : 58,57/4)
رہا یہ اعتراض کہ اگر یہ کام جائز نہ تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکرہ رضی الله عنه کو وہ رکعت دوبارہ پڑھنے کا حکم کیوں نہیں دیا، جس میں انہوں نے رکوع صف کے پیچھے ہی کر لیا تھا؟ تو پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سید نا ابو بکرہ رضی الله عنه نے وہ رکعت نہیں دہرائی تھی ۔ عدم ذکر عدم وجود کی دلیل نہیں ہوتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو نماز دہرانے کا حکم دیا تھا، جس نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی۔
صحابہ و تابعین سے منسوب غیر ثابت اقوال:
اس سلسلے میں بعض آثار پیش کئے جاتے ہیں، انہیں بھی ایک نظر دیکھ لینا چاہئے۔
❀سیدنا حذیفہ رضی الله عنه سے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں سوال ہوا، تو انہوں نے فرمایا: وہ نماز نہ دہرائے ۔
🌿(مصنف ابن أبي شيبة : 12/2)
سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔
◈ابو معاویہ محمد بن خازم ضریر ’’مدلس‘‘ ہے۔ سماع کی تصریح نہیں کی ۔
◈جو یبر بن سعید ازدی سخت ’’ضعیف‘‘ اور ’’متروک‘‘ ہے۔
◈ضحاک بن مزاحم کا سیدنا حذیفہ رضی الله عنه سے سماع ثابت نہیں۔
❀حسن بصری رحمتہ اللہ سے منسوب ہے :
’’ایسے شخص کی نماز ہو جائے گی ۔‘‘
🌿(مصنف ابن أبي شيبة : 2 /12)
سند سخت ’’ضعیف‘‘ ہے۔
◈حفص بن غیاث ’’مدلس‘‘ ہے۔
◈اشعث بن سوار ’’ضعیف‘‘ ہے۔
◈اگر عمرو سے مراد عمرو بن عبید ہے، تو وہ ’’متروک‘‘ ہے۔
❀امام حسن بصری رحمتہ اللہ کے بارے میں اسی طرح کی ایک اور روایت بھی ہے ۔
(أيضاً)
لیکن سند یونس بن عبید کی تدلیس کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے۔
معلوم ہوا کہ صحابہ و تابعین سے ثابت نہیں کہ انہوں نے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کو جائزہ کہا ہو۔
البتہ امام شافعی رحمتہ اللہ اسے جائز کہتے ہیں اور دلیل سیدہ ام سلیم رضی الله عنه کے واقعے کو بناتے ہیں کہ انہوں نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی۔ اس پر مفصل بحث پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔ اس حدیث سے خاص عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے نماز کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ مردوں کے لیے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
اگر پہلی صف مکمل ہو تو ؟
سیدنا وابصہ بن معبد اور سید نا علی بن شیبان رضی الله عنه کی حدیث بہت واضح ہے کہ صف کے پیچھے کسی بھی اکیلے نمازی کی نماز نہیں ہوتی اور اگر کوئی ایسا کر لے، تو اسے چاہئے کہ نماز دہرائے ۔ اس حدیث کے عموم سے بلا دلیل کسی خاص صورت کو مستثنی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ اگر پہلی صف میں جگہ نہ ہو، تو صف کے پیچھے اکیلے کی نماز ہو جاتی ہے۔ اہل علم کے ہاں حیثیت نہیں رکھتا۔
صف کے پیچھے اکیلا آنے والا کیا کرے؟
اگر کوئی شخص نماز کے لیے مسجد میں آئے اور صف مکمل ہو چکی ہو، صف کے پیچھے وہ اکیلا ہی ہو، تو اس کے لیے دو صورتیں ہیں :
◈اگلی صف سے ایک آدمی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے۔ اس کی دلیل جابر رضی الله عنه والی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ہی میں مجھے ہاتھ سے پکڑا اور پیچھے سے گھماتے ہوئے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد سیدنا جبار بن صحر رضی الله عنه آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو پکڑ کر پچھلی صف میں کر دیا۔
🌿(صحیح مسلم : 3010)
معلوم ہوا کہ نئی صف بنانے کے لئے اگلی صف سے آدمی کو پیچھے کیا جا سکتا ہے اور ایک صف بنانے کے لیے اتنی حرکت بھی جائز ہے۔ پہلی صف سے آدمی کھینچنے کے عمل کو صف تو ڑنا شمار کرنا اور صف توڑنے کی وعیدیں اس پر منطبق کرنا خطا ہے، عذر کی بنا پر کسی شخص کا صف سے نکلنا صف توڑنے میں شمار نہیں ہوتا ، مثلاً نماز میں بے وضو ہو جائے ، تو بھلا وہ صف سے نکل کر نہیں جائے گا؟ اگر جائے گا اور یقیناً جائے گا، تو کیا یہ عمل صف تو ڑنا شمار ہوگا؟ اور کیا اس طرح پہلی صف ناقص ہو جائے گی ؟ قطعا نہیں۔
◈بعد میں آنے والا شخص کسی بنا پر اگلی صف سے نمازی کو کھینچنا نہیں چاہتا یا کسی وجہ سے کھینچ نہیں پاتا، تو وہ اس وقت تک انتظار کرے جب تک کوئی اور نمازی نہ آ جائے ۔ اگر اسی انتظار میں جماعت نکل جانے کا خطرہ ہو، تو صف کے پیچھے اکیلا نماز نہ پڑھے، کیونکہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا بہر حال جائز نہیں، کیونکہ انتظار کرتے رہنے سے تو ایک مجبوری کی بنا پر صرف جماعت ضائع ہوگی، لیکن اگر اس نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھ لی، تو سرے سے نماز ہی ضائع ہو جائے گی اور نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہوگا۔