صرف ہفتے والے دن کے نفلی روزے کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث کا خلاصہ، جو سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ، ان کی بہن صماء المازنیہ اور دیگر صحابہ سے مروی ہے، درج ذیل ہے:
"ہفتے کے دن کا روزہ نہ رکھو، سوائے اس دن کے جس میں تم پر روزہ فرض ہو۔ اور اگر تمھیں صرف انگور کی ٹہنی کا چھلکا یا کسی درخت کی لکڑی ہی (کھانے کے لیے) ملے تو اسے چبالو۔”
(سنن ابی داؤد: 2421، سنن ترمذی: 744، وقال: "حسن”، سنن ابن ماجہ: 1726)
حدیث کی سند اور درجہ
- اس حدیث کی سند "حسن لذاتہ” ہے۔
- اسے درج ذیل محدثین نے صحیح قرار دیا ہے:
- ابن خزیمہ (2164)
- ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ (بسند آخر: 3606)
- حاکم (1/435)
- ذہبی رحمۃ اللہ علیہ
البتہ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"ھذا الحدیث منسوخ”
یعنی یہ حدیث منسوخ ہے۔
تاہم متعدد علماء نے اس دعویٔ نسخ کو رد کر دیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ہفتے اور اتوار کے دن روزہ رکھنا
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وفات سے پہلے ہفتے اور اتوار کے دن روزے رکھے اور فرمایا:
"یہ مشرکین (یہود و نصاریٰ) کی عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں۔”
(صحیح ابن خزیمہ: 2167، صحیح ابن حبان: 3607، 3516)
اس حدیث کی سند:
- حسن لذاتہ ہے۔
- درج ذیل محدثین نے اسے صحیح کہا ہے:
- ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ
- ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ
- حاکم رحمۃ اللہ علیہ (1/436، حدیث: 1593)
- ذہبی رحمۃ اللہ علیہ
راویان حدیث کی ثقاہت
عبد اللہ بن عمر بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ:
- دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ: "ثقہ” (سوالات البرقانی: 85 ملخصاً)
- ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ: صحیح حدیث میں روایت
- ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ
- حاکم رحمۃ اللہ علیہ
- ذہبی رحمۃ اللہ علیہ: "ثقہ” (الکاشف: 2/114)
محمد بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ:
- ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ: (ذکرہ الثقات)
- ذہبی رحمۃ اللہ علیہ: "ثقہ” (الکاشف: 3/73)
- دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ: "ثقہ” (سوالات البرقانی: 85 ملخصاً)
- ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ: بتصحیح حدیثہ
- حاکم رحمۃ اللہ علیہ
- ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ: "صدوق” (التقریب التہذیب: 6170)
اس حدیث کی بقیہ سند بالکل صحیح ہے۔
ضعیف قرار دینے پر تبصرہ
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث کو محمد بن عمر بن علی کی وجہ سے "ضعیف” قرار دینا
(الضعیفہ: 1099)
انتہائی عجیب اور غلط ہے۔
اتوار کے ساتھ ہفتے کا روزہ رکھنے کا جواز
- اس حسن لذاتہ حدیث سے یہ صاف ظاہر ہے کہ جو شخص اتوار کو روزہ رکھنا چاہے، وہ ہفتے کو بھی روزہ رکھ سکتا ہے۔
- ابن خزیمہ، ابن حبان اور ابن شاہین رحمہم اللہ نے بھی یہی مفہوم اخذ کیا ہے۔
"واؤ” ترتیب کے لیے لازم نہیں:
لہٰذا اگر کوئی شخص صرف ہفتے یا صرف اتوار کو روزہ رکھے تو بھی یہ جائز ہے۔
حدیثوں کا تعارض
- حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری حدیث کو پہلی حدیث کے معارض قرار دیا ہے۔
- لہٰذا ان کی رائے اسی دوسرے موقف کی ترجمان ہے۔ واللہ اعلم
امام صنعانی کا قول
محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"وظاهرُه صوم كلٍّ على الانفراد والاجتماع”
یعنی اس کا ظاہر یہ ہے کہ ان دونوں دنوں کا انفرادی اور اجتماعی طور پر روزہ رکھنا جائز ہے۔
(سبل السلام: ص476، حدیث: 683)
حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ
ایک حدیث میں آیا ہے:
"اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے، آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔”
(صحیح بخاری: 1131، صحیح مسلم: 1159، ملخصاً)
- اس حدیث سے بھی ہفتے کو روزہ رکھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
- بعض معاصر علماء نے بھی اسی طرح استدلال کیا ہے۔
امام زہری کا قول
ایک روایت میں آیا ہے:
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے ہفتے کے دن کے بارے میں فرمایا: "اس کے روزے میں کوئی حرج نہیں۔”
(شرح معانی الآثار للطحاوی: 2/81)
لیکن اس روایت کی سند میں دو نقائص ہیں:
- طحاوی کے استاد محمد بن حمید بن ہشام کی ثقاہت ثابت نہیں۔
- عبد اللہ بن صالح کی وہی روایات معتبر ہیں جو ثقہ ائمہ حدیث (حذاق) نے بیان کی ہوں، اور یہ ان میں سے نہیں۔
مزید روایت:
ایک اور روایت میں آیا:
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بارے میں فرمایا:
"یہ حمصی حدیث ہے۔”
(المستدرک: 1/436)
- اس کی سند بھی محمد بن اسماعیل بن مہران النیسابوری کے اختلاط کی وجہ سے مشکوک ہے۔
خلاصہ
- صرف ہفتے کے دن کا روزہ رکھنا افضل نہیں۔
- اگر کوئی شخص یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے ارادے سے ہفتے کا روزہ رکھے تو یہ جائز ہے۔
- واللہ اعلم۔
(5 اگست 2013ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب