سوال
رمضان کے پہلے عشرے ہی میں صدقۃ فطر ادا کر دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صدقہ فطر کی نسبت "فطر” کی طرف کی گئی ہے کیونکہ "فطر” ہی اس کا سبب ہے۔ چنانچہ جب "فطر” یعنی رمضان کا اختتام ہی اس کفارے کی وجہ ہے تو یہ صدقہ بھی اسی کے ساتھ مخصوص رہے گا۔ اس وجہ سے صدقہ فطر کو رمضان کے پہلے عشرے میں ادا کرنا جائز نہیں۔ اس کا افضل وقت وہ ہے جب عید کے دن نماز عید سے پہلے ادا کیا جائے۔ تاہم، اسے عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے تاکہ لینے والے اور دینے والے، دونوں کے لیے آسانی پیدا ہو۔
اس سے زیادہ دنوں پہلے بطور پیشگی زکوٰۃ فطر ادا کرنے کے بارے میں اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہی ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ گویا صدقہ فطر کے لیے دو اوقات ہیں:
➊ وقت جواز:
- عید سے ایک یا دو دن پہلے کا وقت۔
➋ وقت فضیلت:
- عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت۔
عید کی نماز کے بعد اس کو ادا کرنا حرام ہے، اور اس کے بعد ادا کیا گیا صدقہ فطر شمار نہیں ہوگا بلکہ یہ محض عام صدقہ شمار ہوگا۔ اس پر درج ذیل حدیث دلیل ہے:
«مَنْ اَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِیَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ اَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِیَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ»
’’جس نے اسے (صدقہ فطر) کو نماز سے پہلے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے، اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صدقات میں سے ایک عام صدقہ شمار ہوگا۔‘‘
(سنن ابي داؤد، الزکاة، باب زکاة الفطر، ح: ۱۶۰۹ وسنن ابن ماجه، الزکاة، باب صدقة الفطر، ح: ۱۸۲۷)
البتہ اگر کسی آدمی کو عید کے دن کا علم نہ ہو سکے — مثلاً وہ کسی جنگل میں رہتا ہو یا اس تک عید کا علم تاخیر سے پہنچے یا اس طرح کی کسی اور وجہ سے — تو ایسی صورتوں میں عید کی نماز کے بعد بھی صدقہ فطر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے صدقہ فطر ادا ہو جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب