صحیح حدیث اور اہلحدیث
تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری

صحیح حدیث دین ہے، صحیح حدیث کو اپنانا اہل حدیث کا شعار ہے، جیساکہ:

❀ امام مسلمؒ فرماتے ہیں:

واعلم۔ رحمک اللہ۔ أنّ صناعۃ الحدیث، ومعرفۃ أسبابہ من الصحیح والسقیم، إنّما ھی لأھل الحدیث خاصّۃ، لأنّھم الحفّاظ لروایات الناس، العارفین بھا دون غیرھم، إذ الأصل الذی یعتمدون لأدیانھم السنن والآثار المنقولۃ، من عصر إلی عصر، من لدن النبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم إلی عصرنا ھذا۔

اللہ آپ پر رحم کرے! جان لیں کہ فن حدیث اور اس کی صحت وسقم کے اسباب کی معرفت صرف اہل حدیث کا خاصہ ہے، کیونکہ وہ لوگوں کی روایات کو یاد رکھنے والے اور وہی ان کو جاننے والے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مذاہب کی دلیل وہ سنن و آثار ہیں جو زمانہ بہ زمانہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے دور تک نقل ہوتے آئے ہیں۔

(کتاب التمییز لامام مسلم: ص ۲۱۸)

❀ امام ابن خزیمہؒ لکھتے ہیں:

و أنّا مبّین عللہ، إن وفّق اللہ لذلک، حتّی لا یغترّ بعض طّلاب الحدیث بہ، فیلتبس الصحیح بغیر الثابت من الأخبار، قد أعلمت ما لا أحصی من مرّۃ أنّی لا أستحلّ أن أموّہ علی طّلاب العلم بالاحتجاج بالخبر الواھیۃ، و أنّی خائف من خالقی جلّ وعلا، إذا موّھت علی طّلاب العلم بالاحتجاج بالأخبار الواھیۃ، وإن کان حجّۃ لمذھبی۔

اگر اللہ تعالی نے توفیق دی تو میں اس کی علتیں واضح کروں گا تاکہ بعض طالبانِ حدیث اس سے دھوکہ نہ کھا جائیں اور صحیح حدیث غیر ثابت حدیث کے ساتھ گڈ مڈ نہ ہو جائے۔ میں نے بہت دفعہ خبردار کیا ہے کہ میں ضعیف احادیث کے ساتھ طالبانِ حدیث پر حجت پکڑ کر دھوکہ دینے کو حلال نہیں سمجھتا۔ میں اپنے خالق جل وعلا سے ڈرتا ہوں کہ میں طالبانِ حدیث کو ضعیف حدیث کے ساتھ حجت پکڑ کر دھوکہ دوں، اگرچہ وہ میرے مذہب کی دلیل ہی کیوں نہ ہوں!

(کتاب التوحید لابن خزیمۃ: ۵۳۳/۲)

❀ امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں:

لأنّا نستحلّ الاحتجاج بغیر الصحیح من سائر الأخبار، و إن وافق ذلک مذھبنا، ولا نعتمد من المذاھب إلّا علی المنتزع من الآثار، و إن خالف ذلک قول أئمتنا۔

کیونکہ ہم غیر صحیح احادیث کے ساتھ حجت و دلیل لینا جائز نہیں سمجھتے اگرچہ وہ ہمارے مذہب کے موافق ہو اور ہم صرف اسی مذہب پر اعتماد کرتے ہیں جو احادیث و آثار سے ثابت ہو، اگرچہ وہ ہمارے آئمہ کے قول کے خلاف ہی ہو۔

(صحیح ابن حبان، تحت حدیث: ۱۱۱۲)

❀ نیز فرماتے ہیں:

ذکر رحمۃ اللہ جلّ و علا من بلّغ أمّۃ المصطفٰی صلّی اللہ علیہ وسلّم حدیثا صحیحا عنہ۔

‘‘ اس شخص پر اللہ تعالی کی رحمت کا بیان جو محمدﷺ کی اُمت کو آپ کی کوئی صحیح حدیث پہنچائے۔

(صحیح ابن حبان، تحت حدیث: ۶۷)

❀ امام ابو المظفر السمعانیؒ فرماتے ہیں:

ولکن یحتجّ بقول التابعیّ علی قول النبّی أو بحدیث مرسل ضعیف علی حدیث متّصل قویّ، و من ھنا امتاز أھل اتّباع السنّۃ عن غیرھم، لأنّ صاحب السنّۃ لا یألو أن یتّبع من السنن أقواھا، ومن الشھود علیھا أعدلھا و أتقاھا، و صاحب الھوی کالغریق یتعلّق بکلّ عود ضعیف أو قویّ۔

لیکن ہر بدعتی نبی اکرمﷺ کے فرمان کے خلاف کسی تابعی کا قول بطور حجت پیش کرتا ہے یا متصل قوی سند والی حدیث کے خلاف مرسل ضعیف حدیث کو پیش کرتا ہے۔ اس بنیاد پر سنت کے متبعین غیروں سے ممتاز ہوتے ہیں، کیونکہ صاحب سنت حدیثوں میں سے سب سے قوی اور گواہوں میں سے سب سے عادل اور متقی کی بات کو ماننے میں کوتاہی نہیں کرتا، جبکہ بدعتی شخص اس ڈوبنے والے کی طرح ہوتا ہے، جو ہر کمزور اور مضبوط تنکے کا سہارا لیتا ہے۔

(الانتصار لاصحاب الحدیث للسمعانی: ص ۵۶-۵۵)

❀ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

لا یجوز أن یعتمد فی الشریعۃ علی الأحادیث الضعیفۃ التی لیست صحیحۃ و لا حسنۃ۔

شریعت میں ان ضعیف احادیث پر اعتماد کرنا جائز نہیں، جو صحیح یا حسن نہ ہوں۔

(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ: ۲۵۰/۱)

❀ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

  فأمّا الأئمّۃ و فقھاء أھل الحدیث، فإنّھم  یتّبعون الحدیث الصحیح حیث کان، إذا کان معمولا بہ عند الصحابۃ و من بعدھم، أو عند طائفۃ منھم،  فأمّا ما اتفّق علی ترکہ، فلا یجوز العمل بہ، لأنّھم ما ترکوہ إلّا علی علم أنّہ لا یعمل بہ۔

ائمہ و فقہائے اہل حدیث صحیح حدیث کا اتباع کرتے ہیں، وہ جہاں بھی ہو، جب وہ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے نزدیک اتفاقی طور پر یا ان میں سے ایک طائفہ کے ہاں معمول بہ ہو۔ رہی وہ صورت کہ جب اس کے ترک پر صحابہ و تابعین کا اتفاق ہو جائے تواس پر عمل جائز نہیں، کیونکہ صحابہ و تابعین نے اس پر عمل اسی لیے چھوڑا ہے کہ ان کو معلوم تھا کہ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

(ٖفضل علم السلف علی الخلف لابن رجب: ص ۵۷)
مسلک اہلحدیث کی بنیاد قرآن، صحیح احادیث، اجماع امت اور فہم سلف پر ہے۔ مسلک اہل حدیث کا ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں، جس کی بنیاد کسی ضعیف حدیث پرہو۔ مدعی پر دلیل لازم ہے! یاد رہے کہ کسی شخص کا انفرادی اجتہاد مسلک اہل حدیث نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے