صحیح بخاری کی دو احادیث پر اعتراضات اور تحقیقی رد
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2ص421

صحیح بخاری کی دو حدیثوں پر اعتراضات اور ان کا تحقیقی جواب

حدیث نمبر 1: تین قسم کے لوگوں کا اللہ دشمن ہو گا

روایت:

عن ابی هریرة رضی الله عنه عن النبی صلی الله علیه وسلم قال: قال الله
ثلاثة انا خصمهم یوم القیامة رجل اعطی بی ثم غدر ورجل باع حرا فاکل ثمنه ورجل ستاجر اجیرا فاستوفی منه ولم یعطه اجره۔
(صحیح بخاری: ۱؍۳۰۲، مسند احمد: ۲؍۳۵۸)

ترجمہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین آدمیوں کا میں قیامت کے دن دشمن ہوں گا:

➊ وہ شخص جس نے میرے نام پر وعدہ کیا پھر بدعہدی کی۔

➋ وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو غلام بنا کر بیچا اور اس کی قیمت کھا گیا۔

➌ وہ شخص جس نے مزدور کو مزدوری پر رکھا، اس سے پورا کام لیا لیکن اسے اجرت نہ دی۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کی جرح

شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے اس کے راوی
یحییٰ بن سلیم الطائفی پر جرح کی اور کہا کہ وہ "قیاس کے خلاف حدیثیں گھڑتا تھا”۔ (یہ بات کسی معتبر ماخذ میں ثابت نہیں ہوئی، بلکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے
مختصر صحیح البخاری میں صرف توقف کا اظہار کیا ہے۔)

سند کا تجزیہ

یہ روایت مختلف محدثین نے
یحییٰ بن سلیم الطائفی عن اسماعیل بن امیۃ عن سعید المقبری عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ
کی سند سے نقل کی ہے:

✿ امام احمد بن حنبل (۲؍۳۵۸ ح۸۶۹۲)

✿ ابن الجارود (۵۷۹)

✿ ابن ماجہ (۲۴۴۲)

✿ ابن حبان (الاحسان: ۷۶۹۵)

روایت کی سند: حسن لذاتہ

سعید بن ابی سعید المقبری اور ان کے والد دونوں ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب: ۲۳۲۱، ۵۶۷۶)

یحییٰ بن سلیم پر جرح و تعدیل کا جائزہ

جرح:

➊ امام احمد بن حنبل: ان حدیثه فیه شیء۔

➋ ابوحاتم الرازی: صدوق، لیکن حافظ نہیں، اس کی حدیث لکھی جاتی ہے، حجت نہیں۔

➌ النسائی: منکر الحدیث عن عبیداللہ بن عمر۔

➍ ابواحمد الحاکم: حافظ نہیں۔

➎ الدارقطنی: سئی الحفظ۔

➏ العقیلی: منکر روایتیں بیان کرتا تھا، خاص طور پر عبیداللہ بن عمر سے۔

➐ ابن حجر: صدوق سئی الحفظ، عبیداللہ بن عمر سے روایت میں ضعیف۔

➑ الساجی: صدوق، لیکن وہم کرتا تھا، عبیداللہ بن عمر سے غلطیاں کیں۔

➒ البیہقی: کثیر الوہم سئی الحفظ۔

تعدیل:

  •  یحییٰ بن معین: ثقہ
  •  ابن سعد: ثقہ، کثیر الحدیث
  •  العجلی: ثقہ
  •  ابن شاہین: ثقہ
  •  ابن حبان: ثقہ
  •  النسائی: بعض مواقع پر "ثقہ” بھی کہا ہے
  •  یعقوب بن سفیان: اگر کتاب سے بیان کرے تو حدیث حسن ہے
  •  امام بخاری: صحیح بخاری میں روایت لی ہے (۲۲۲۷، ۲۲۷۰)
  •  امام مسلم: صحیح مسلم میں روایت لی ہے
  • ابن عدی: صدوق، احادیث صالحہ و غرائب
  •  ابن الجارود: صحیح میں روایت لی ہے
  • الساجی: صدوق، اگرچہ وہم کی طرف اشارہ کیا
  •  الذہبی: ثقہ
  •  الحاکم: مستدرک میں حدیث کو صحیح کہا
  •  الترمذی: حسن کہا
  • ابن خزیمہ: صحیح کہا
  •  البوصیری: اسناد حسن، رجال ثقات
  •  البغوی: حدیث صحیح
  •  الزیلعی: ثقہ
  • المنذری: تقویت کی طرف اشارہ
  •  الہیثمی: تقویت کا اشارہ
  •  الاسماعیلی: مستخرج میں روایت کی
  •  ابن حجر: فتح الباری میں تقویت دی
  • العینی: توثیق کی
  •  ابن القطان الفاسی: صدوق، ضعیف کہنے والوں کی کوئی دلیل نہیں

خلاصہ تحقیق

یحییٰ بن سلیم کی حدیثوں کے چار درجے ہیں:

➊ عبداللہ بن خثیم سے روایت: متقن (ثقہ)

➋ الحمیدی کی روایت: صحیح الحدیث

➌ عبیداللہ بن عمر اور ابن خثیم کے علاوہ: حسن الحدیث

➍ عبیداللہ بن عمر سے: ضعیف

نتیجہ: یہ حدیث "حسن لذاتہ” ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کا اس پر جرح کرنا درست نہیں۔ امام بخاری کا قول
"ماحدث الحمیدی عن یحییٰ بن سلیم فھو صحیح”
کو مفہوم مخالف بنا کر باقی روایات کو ضعیف سمجھنا غلط استنباط ہے۔

حدیث نمبر 2: خوارج کا ظہور اور ان سے قتال کا حکم

روایت:

عن علی قال سمعت رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول:
یخرج قوم فی آخر الزمان احداث الاسنان سفهاء الأحلام یقولون من خیر قول البریة لا یجاوز ایمانهم حناجرهم یمرقون من الدین کمایمرق السہم من الرمیة فاینما لقیتموهم فاقتلوهم فان فی قتلهم اجرا لمن قتلهم یوم القیامة۔
(صحیح بخاری: کتاب الانبیاء، ح ۶۹۳۰، ۵۰۵۷، ۳۶۱۱، صحیح مسلم: ۱۵۴؍۱۰۶۶، سنن ابی داود: ۴۷۶۷، سنن النسائی: ۷؍۱۱۹ ح ۴۱۰۷)

ترجمہ:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانے میں ایک قوم نکلے گی جو کم عمر اور کم فہم ہو گی۔ وہ لوگوں کے بہترین اقوال (یعنی قرآن) کو دہرائے گی، لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ پس جہاں تم انہیں پاؤ، ان سے قتال کرو، کیونکہ ان کے قتل میں قیامت کے دن اجروثواب ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کی رائے

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منکر قرار دینے کی طرف اشارہ کیا، خصوصاً جملہ
"من قول خیر البریۃ” کے حوالے سے۔

روایت کی سند

سوید بن غفلہ: ثقہ

خیثمہ بن عبدالرحمٰن بن ابی سبرہ الجعفی: ثقہ

سلیمان الاعمش: ثقہ، سماع کی تصریح موجود ہے، اس لیے تدلیس کا اعتراض ساقط۔

الفاظ کے اختلافات

مختلف کتب میں روایت کے درج ذیل الفاظ موجود ہیں:

"من خیر قول البریة”: صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداود، نسائی، مسند احمد

"من قول خیر البریۃ”: بعض نسخوں میں آیا، جس پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے منکر ہونے کا اشارہ کیا۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصریح:

شیخ البانی رحمہ اللہ نے
صحیح الجامع
(۳۶۵۴) میں "من خیر قول البریة” والے الفاظ کے ساتھ روایت کو
صحیح قرار دیا ہے۔

خلاصہ تحقیق

✿ روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔

✿ جملہ "من خیر قول البریة” بالکل درست ہے اور منکر نہیں۔

✿ شیخ البانی رحمہ اللہ نے خود اس متن کو صحیح کہا ہے۔

مختصر صحیح البخاری (۴؍۲۳۹) میں بھی شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔

نتیجہ

➊ پہلی حدیث (تین افراد کا اللہ کا دشمن ہونا) حسن لذاتہ ہے اور صحیح بخاری میں مذکور ہونے کی وجہ سے معتبر ہے۔

➋ دوسری حدیث (خوارج سے قتال) صحیح السند اور متفق علیہ ہے۔

لہٰذا، دونوں احادیث سند و متن کے لحاظ سے درست اور قابل قبول ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی طرف سے کی جانے والی جرحات کا علمی بنیادوں پر جواب دیا گیا ہے اور یہ احادیث حدیث کے اصولوں کے مطابق ثابت شدہ اور معتبر ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے